11
Sunday 13 Jan 2019 17:58

لبنان کی مشکلات اور تبدیلی کے آثار

لبنان کی مشکلات اور تبدیلی کے آثار
تحریر: عرفان علی
 
بلاشبہ سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے کلیدی شراکت داروں کے اختلافات کی وجہ سے عرب ملک لبنان متعدد مشکلات و مسائل سے تاحال نجات حاصل نہیں کر پایا۔ اندرونی و بیرونی سطح پر لبنان کو ایک طویل عرصے سے جو آزمائشیں درپیش ہیں، وہ لبنان کی اقتداری سیاست کے بعض اہم فریقوں سے وسعت قلبی کے ساتھ وسیع پیمانے پر قومی مفاہمت کا تقاضا کرتی ہیں۔ پارلیمانی انتخابات کے بعد آٹھ ماہ گذر چکے ہیں، لیکن نگران حکومت سے کام چلایا جا رہا ہے۔ سعد حریری جنہیں قومی سطح کی مشاورت کے بعد صدر مملکت میشال عون نے وزیراعظم نامزد کرکے حکومت سازی کی دعوت دی تھی، وہ لبنان کی اقتداری سیاست کے مخصوص فارمولا کے تحت اپنی کابینہ کی تکمیل میں ناکام رہے ہیں۔ ملک کے اندر کی مشکلات میں سب سے بڑی مشکل آٹھ ماہ سے جاری یہ سیاسی تعطل ہے۔ البتہ بیروت سے تبدیلی کے امکان کی روشنی مدھم سہی لیکن نظر بھی آرہی ہے، جو حریری خاندان کے سیاسی مستقبل کا تعین کرنے کا اہم عنصر قرار پائے گی۔ پہلے موجودہ صورتحال اور مشکلات کو ملاحظہ فرمایئے۔ لبنان کی ایک مشکل داعش کا نیٹ ورک ہے کہ جس سے وابستہ دہشت گرد اور انکے سہولت کار پکڑے جا رہے ہیں۔ اقتصادی مشکلات بھی کم نہیں ہیں۔ بے روزگاری اور مالی بدعنوانی نے بھی لبنان کے عوام کو پریشان کر رکھا ہے اور سول سوسائٹی اس ایشو پر ریلیاں نکال کر احتجاج کر رہی ہے۔ برفانی طوفان نے بھی بہت سوں کی زندگی مفلوج کرکے رکھ دی ہے اور لبنان کے شہری ہی نہیں بلکہ شام کے پناہ گزینوں کو اس ناقابل برداشت سرد موسم اور برفانی طوفان نے زیادہ متاثر کیا ہے۔

خارجہ محاذ پر بھی لبنان خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ فلسطین پر ناجائز قبضہ جمانے والی جعلی ریاست اسرائیل کا لبنان کے بعض حصوں پر قبضہ، اسکی زمینی و فضائی حدود کی مستقل و مسلسل خلاف ورزی، بلیو لائن میں دیوار کی تعمیر، ان سب کے خلاف وزارت خارجہ احتجاجی و مذمتی بیانات میں مصروف ہے تو اقوام متحدہ میں لبنان کی مستقل مندوب (سفیر) سلامتی کاؤنسل میں احتجاج ریکارڈ کروا رہی ہیں۔ لبنان کی وزارت خارجہ اسرائیلی خلاف ورزیوں کو اقوام متحدہ کی سلامتی کاؤنسل کی قرارداد نمبر 1701 کی خلاف ورزی بھی قرار دے رہی ہے، لیکن مغربی و عرب ذرائع ابلاغ اس ایشو کو نمایاں طور پیش کرتے نظر نہیں آرہے۔ امریکی عرب اتحاد، عرب لیگ، جی سی سی، او آئی سی، اقوام متحدہ سمیت کہیں سے بھی لبنان کی اس فریاد پر عملی قانونی اقدامات کو یقینی بناتے ہوئے اسرائیل کے خلاف اقدامات نہیں ہو رہے۔

ایک طرف اسرائیلی مداخلت پر نام نہاد عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی ہے تو دوسری طرف امریکی وزیر خارجہ نے قاہرہ یونیورسٹی میں گذشتہ جمعرات کو جو خطاب کیا ہ،ے اس میں لبنان کی سیاسی حقیقت اور پارلیمانی نمائندہ جماعت حزب اللہ کو دھمکی دی ہے کہ امریکا لبنان میں حزب اللہ کے پیدا کردہ اسٹیٹس کو (موجودہ صورتحال) کو برداشت نہیں کرے گا۔ امریکی وزیر خارجہ کا یہ بیان بھی لبنان کے داخلی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے اور موجودہ دنیا میں ملکوں کے تعلقات اقوام متحدہ کے جن قوانین کی رو سے قائم ہیں، ان کے تحت اس نوعیت کے بیان کا انہیں حق حاصل نہیں ہے۔ فرعونوں کے ملک مصر کی یونیورسٹی میں اسی خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ سابق امریکی صدر باراک اوبامہ نے حزب اللہ کی اس بڑھتی ہوئی طاقت کو نظر انداز کیا کہ جو اسرائیل کے لئے نقصان دہ تھی۔ انکا کہنا تھا کہ ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کا ایک ہدف حزب اللہ بھی ہے۔ انکا یہ موقف اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ حزب اللہ لبنان کے خلاف امریکی حکومت کے اقدامات و بیانات اسرائیل کی خوشنودی اور دفاع کی نیت سے ہوتے ہیں۔ یعنی یہ کہ لبنان و امریکا دو طرفہ تعلقات میں حزب اللہ کوئی رکاوٹ قرار نہیں دی جاسکتی بلکہ امریکا کو مسلمان یا عرب ممالک سے تعلقات کے لئے اپنی خارجہ پالیسی سے اسرائیل فرسٹ کو مائنس کرنے کی ضرورت ہے۔

الجمھوریۃ اللبنانیہ یعنی لبنان میں اس وقت ایک اہم ایشو عرب لیگ کی بڑی اقتصادی و سماجی ترقی کانفرنس ہے، جو دارالحکومت بیروت میں ہوگی۔ گو کہ یہ دو روزہ کانفرنس 19 اور 20 جنوری کو ہونا ہے اور عرب لیگ کے معاون سیکرٹری جنرل حسام ذکی کا کہنا ہے کہ یہ اپنے شیڈیول کے مطابق ہی ہوگی، لیکن لبنان کی حرکت امل کے رکن پارلیمنٹ ھانی قبیسی نے اس میں لیبیا کی شرکت پر اعتراض کر دیا ہے۔ حرکت امل کے سربراہ نبیہ بری ہیں، جو لبنان کی پارلیمنٹ کے اسپیکر ہیں۔ مجلس الاسلامی الشیعی الاعلیٰ نے بھی لیبیا کے وفد کو عرب لیگ کی دعوت کی مخالفت پر رسمی بیان جاری کیا ہے اور موجودہ لبنانی پارلیمنٹ کے چھ اراکین پر مشتمل نئے سنی بلاک جسے اللقاء التشاوری کہا جاتا ہے، نے بھی اس موقف کی تائید کی ہے کہ لیبیا کے وفد کو دی گئی دعوت منسوخ کی جائے۔ یہ معترضین لیبیا سے اس لئے خفا ہیں کہ انہیں یقین ہے کہ لبنان کے معروف سیاسی، سماجی و دینی رہنما امام موسیٰ صدر جو 1978ء سے گمشدہ ہیں، انکی گمشدگی میں لیبیا کا ہی کردار ہے، کیونکہ وہ اسی ملک کے دورے پر تھے اور آخری مرتبہ لیبیا میں ہی دیکھے گئے تھے۔

عرب لیگ کی مذکورہ کانفرنس کے حوالے سے ایک اور مخالفت اس دلیل کی بنیاد پر کی جا رہی ہے کہ اس وقت لبنان میں نگران حکومت ہے اور باقاعدہ حکومت کے قیام تک اسے موخر کر دیا جائے۔ البتہ صدر میشال عون اور انکی جماعت فری پیٹریاٹک موومنٹ (التیار الوطنی الحر) کا کہنا ہے کہ نگراں حکومت کا ہونا کانفرنس کو ملتوی کرنے کے لئے کوئی معقول دلیل نہیں ہے۔ انکی جماعت کے صدر جو میشال عون کے داماد بھی ہیں اور لبنان کے نگران وزیر خارجہ بھی، وہ اس عرب لیگ کانفرنس کو شام کے ساتھ عربوں کی مفاہمت کے اجتماع میں بدلنے کے لئے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے عرب لیگ میں شام کی رکنیت کی بحالی کے لئے لابنگ کی ہے اور اس کانفرنس میں شام کو بھی مدعو کرنا چاہتے ہیں، لیکن عرب لیگ کے معان سیکرٹری جنرل حسام ذکی کا کہنا ہے کہ شام کو بیروت کی مذکورہ کانفرنس میں مدعو نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی مارچ میں تیونس میں ہونے والی سربراہی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ لبنان نے عراق اور اردن کے ساتھ مل کر عرب لیگ میں شام کی رکنیت کی بحالی کے لئے لابنگ کی ہے، جبکہ مصر نے بھی اسکی حمایت کی ہے۔ تیونس کے صدارتی مشیر نے بھی توقع ظاہر کی ہے کہ عرب لیگ میں شام کی رکنیت بحال کر دی جائے گی۔ فی الحال تو بیروت کانفرنس کا انعقاد خطرے میں ہے، کیونکہ مخالفت کرنے والے اسپیکر نبیہ بری ہیں، جو لبنان کی سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے نسبتاً غیر متنازعہ اور با اثر شراکت دار ہیں۔

لبنان کی کابینہ کے حوالے سے معاملہ جوں کا توں ہے۔ نگراں وزیر خارجہ جبران باسل نے سعد حریری کو تجویز دی کہ کابینہ تیس یا بتیس اراکین پر مشتمل ہو تو کیا حرج ہے، لیکن حریری نے یہ تجویز مسترد کر دی ہے۔ حزب اللہ پر مشتمل 8 مارچ گروپ کی دلیل یہ ہے کہ اگر مارونی مسیحیوں کے کوٹے کی وزارتیں میشال عون یا جبران باسل کی جماعت اور سمیر جعجع کی قوات اللبنانیہ کے درمیان تقسیم کی جاسکتی ہیں، شیعہ کوٹے کی وزارتیں حزب اللہ اور حرکت امل کے درمیان تقسیم کی جاسکتی ہیں تو سنی کوٹے کی وزارتوں کو بھی سعد حریری کے 14 مارچ بلاک اور نئے سنی بلاک اللقاء التشاوری میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جبکہ نیا سنی بلاک محض ایک وزارت کا طلبگار ہے۔ اسی پر معاملہ اٹکا ہوا ہے اور کوئی فریق پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں ہے۔ سمیر جعجع 14 مارچ گروپ میں شامل اتحادی ہیں اور انہوں نے بھی اپنے مطالبات منوائے ہیں تو نئے سنی بلاک کا مطالبہ بھی مان لیا جائے، یہ موقف سامنے آیا ہے۔

البتہ تمام تر مشکلات کے باوجود لبنان کی داخلی سیاست تبدیلی کی طرف جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ حزب اللہ کو موجودہ سیاسی تعطل کا ذمے دار نہیں قرار دیا جاسکتا، کیونکہ سنی بلاک میں وہ پرانا سیاسی خاندان شامل ہے کہ جو حریری خاندان کی نسبت زیادہ پرانا اور با اثر ہوا کرتا تھا، لیکن حریری خاندان کی وجہ سے اسکی حیثیت کم ہوچکی تھی۔ تو یہ مقابلہ حزب اللہ اور سعد حریری کے مابین نہیں ہے بلکہ حریری خاندان اور انکی سیاسی جماعت و اتحاد کا مقابلہ طرابلس کے سنی عرب کرامی خاندان سے ہے۔ اس نئے سنی بلاک کے قیام میں سابق وزیر دفاع عبدالرحیم مراد جیسے تجربہ کار سنی عرب سیاستدان ہیں اور یہ بھی لبنان کی سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے اہم شراکت دار ہیں۔ لبنان کے موجودہ سیاسی تعطل کو سمجھنے کے لئے درست زاویہ نظر یہ ہے، جو اس حقیر نے بیان کیا ہے۔ یہ نیا سنی بلاک لبنان کی داخلی سیاست میں ٹیکٹونک شفٹ کا باعث بن سکتا ہے۔ یعنی لبنان میں اسٹیٹس کو تبدیل ہوسکتا ہے۔ یعنی روشن امکانات ہیں کہ کافی حد تک لبنان کی سیاسی اسٹیبلشمنٹ موجودہ ڈائیلیما (قیاس ذو حدین کی کیفیت) سے باہر نکل سکتی ہے، کیونکہ ایک فریق ایک نئی شناخت کے ساتھ فیصلہ سازی کے عمل کا حصہ بن کر کچھ نیا کرنے کے موڈ میں ہے۔ مزید تفصیل آئندہ سہی۔
خبر کا کوڈ : 771893
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش