0
Tuesday 15 Jan 2019 01:36

کیا اصلاح معاشرہ فقط ایک طبقے کی ذمہ داری ہے؟

کیا اصلاح معاشرہ فقط ایک طبقے کی ذمہ داری ہے؟
تحریر: محمد حسن جمالی
 
معاشرہ افراد سے وجود میں آتا ہےـ معاشرے کی خوبی اور بدی کا میزان اس میں سانس لینے والے افراد ہیں، بنابرین جیسے افراد ہوں گے ویسا ہی معاشرہ ہوگا اس میں دو رائے نہیں۔ یہ حقیقت بھی مسلم ہے کہ ہمارے معاشرے میں فسادات ہیں، برائیاں ہیں، کوئی بھی شعبہ زندگی ایسا نہیں جو ہر طرح کی قباحتوں سے پاک و منزہ ہو، البتہ کمی و بیشی اور نوعیت و اثرات کے اعتبار سے ان میں فرق ضرور پایا جاتا ہےـ بدیھی ہے کہ کوئی بھی باشعور انسان یہ نہیں چاہتا کہ اس کا معاشرہ غیر صالح ہو بلکہ ہر ایک کی یہ آرزو ہوتی ہے کہ اس کے معاشرے میں فسادات کا وجود نہ ہو، اس کا معاشرہ برائیوں سے پاک ہو، اس کا معاشرہ ترقی یافتہ ہو، اس کا معاشرہ امن کا گہوارہ ہو، اس کے معاشرے کی اصلاح ہوـ سوال یہ پیدا ہوتا کہ معاشرے کی اصلاح کی ذمہ داری کیا صرف ایک طبقے کی ہے؟ پرسکون معاشرہ کیسے وجود میں آتا ہے؟ صالح معاشرے وجود میں لانے کے لئے کن عوامل کو بروئے کار لانا ضروری ہے؟ جواب یہ ہے کہ معاشرے کی اصلاح اس میں رہنے والے افراد کی اصلاح سے جڑی ہوئی ہے اور افراد کی اصلاح تعلیم و تربیت سے ہی ممکن ہو جاتی ہےـ جب اسلامی تربیتی زرین اصولوں کے مطابق معاشرے کے لوگوں کی تربیت ہوگی، جب دینی تعلیم کے نور سے ان کے دل منور ہوں گے، جب انہیں صحیح معنوں میں واجبات، محرمات حلال و حرام  اور اسلامی وظائف و فرائض کا علم ہوگا، جب ان کے اعتقادات مضبوط ہوں گے، جب ان کی اخلاقیات درست ہوں گی تو ایسے افراد سے تشکیل پانے والا معاشرہ خود بخود صالح ہوگاـ

آج اگر ہمارے معاشرے میں  کرپشن عام ہو رہی ہے، حق و باطل مخلوط ہو رہے ہیں، لوگوں کو جائز و ناجائز اور حلال و حرام میں فرق نہیں ہو رہا ہے، معاشرے میں دینی اقدار مسخ ہو رہی ہے، حسد، غیبت جیسی روحی بیماریاں معاشرے میں مسلسل پھلتی جا رہی ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے لوگ مختلف وجوہات کی بناء پر دینی تعلیم و تربیت سے دور ہوتے جا رہے ہیں، وہ معنوی پہلوؤں سے یکسر طور پر چشم پوشی کرکے مادیات کے اسیر ہوتے جارہے ہیں، ان کے دل و دماغ پر مادی مفادات کا سیاہ پردہ پڑنے کے باعث وہ دینی تعلیم و تربیت کو خاطر میں نہیں لا رہے ہیں، دنیا کی عیش و نوش اور زرق و برق سے متاثر ہو کر وہ ابدی زندگی سے غافل ہوتے جا رہے ہیں۔ صالح معاشرہ وجود میں لانے کے لئے ضروری ہے کہ اس معاشرے سے تعلق رکھنے والے تمام افراد فکرمند رہے، خصوصا والدین اپنے بچوں کو مغربی تعلیم دلوا کر ان کے روشن مستقبل کے بارے میں سوچنے سے کہیں زیادہ ان کی دینی تعلیمات کی روشنی میں تربیت سے مزین کرنے کے بارے میں سوچیں اور بھرپور اہتمام کریں۔ آج المیہ یہ ہے کہ ہمارے والدیں اپنی پوری جمع پونجی اپنے بچوں کی مغربی نظام تعلیم کی مضبوطی پر تو خوش و خرم خرچ کرتے ہیں مگر بچوں کو اسلامی تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنے کے لئے پیسے خرچ کرنے کے تصور کرنے تک کو وہ لغو سمجھتے ہیں اور وہ یہ کہکر اس عظیم و سنگین ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر ہمارے بچوں کی وجہ سے معاشرے میں کسی قسم کا بگاڑ پیدا ہو جائے تو ہمیں کیا ہوگا معاشرے کی اصلاح تو طبقہ علماء کی ذمہ داری ہے، اگر معاشرہ خراب ہوتا ہے تو اس کی وجہ فقط اس طبقے کی کوتاہی ہے یوں معاشرتی خرابیوں کا پورا ملبہ صنف روحانیت پر گرا کر وہ اپنے کو برئ الذمہ قرار دیتے ہیں جبکہ یہ حقیقت کے برخلاف انتہائی منفور فکر ہےـ
 
درست ہے معاشرے میں ایسے افراد موجود ہوتے ہیں جو رہنما کہلاتے ہیں اور ان پر معاشرے کی اصلاح کی ذمے داریاں دوسروں سے زیادہ ہوتی ہیں، لیکن یہ مسلم ہے کہ اسلامی معاشرے میں ہر فرد اصلاح معاشرہ کا ذمہ دار ہے اور والدین  کے لئے اپنی اولاد کی تربیت کرنا نہ فقط مباح یا ایک مستحب عمل ہے بلکہ نصوص دینی کے مطابق یہ ان کے فرائض میں شمار ہوتا ہے۔ قرآن کی صریح آیہ ہے، "قوا انفسکم و اھلیکم نارا" اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن پتھر اور انسان ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق فرماتے ہیں، "و تجب للولد علی الوالد ثلاث خصال اختیارہ لوالدیہ لتحسین اسمہ والمبالغة فی تادیبہ" باپ پر واجب ہے کہ وہ بیٹے کے لئے اچھا نام اختیار کرے اور باادب بنائے۔ اور یہاں پر ہمارے چوتھے امام حضرت زین العابدین اپنی دعا میں ایک پیارا جملہ ارشاد فرماتے ہیں، "اللھم اعنی علی تربیتھم و تادیبھم و برھم" خدایا اپنی اولاد کی تربیت، ادب اور نیک کرنے میں میری مدد فرما اور اسی طرح بچے کی تربیت کے بارے ایک اور فرمان ان امام کا منقول ہے، "و حق ولدک فان تعلم انہ منک و مضاف الیہ فی عاجل الدنیا بخیرہ و شرہ و انک مسئول عما ولیتہ بہ من حسن الادب، والد لالة علی ربہ والمعونة لہ علی طاعتہ" اپنے فرزند کا تم پر ایک حق یہ ہے کہ تم اسے اپنا سمجھو اور یہ بھی جان لو کہ اس دنیا میں اسکی ہر اچھائی و برائی اور ہر نیکی و بدی کا تعلق تم سے ہے اور تمہیں یہ جاننا چاہیئے کہ سرپرست ہونے کی وجہ سے اپنے فرزند میں حسن ادب، پیوست کرنے کی ذمہ داری تم پر ضروری ہے اور اسے خدا کی طرف متوجہ کرنے کا فرض بھی تمہارے سر پر ہے اس کے علاوہ خدا کی عبادت و اطاعت میں بچے کی مدد کرنا تمہارا کام ہے صرف یہی نہیں بلکہ اس یقین کے ساتھ اچھی تربیت کرو کہ اگر عہدہ برآ ہو گئے تو تم نے گویا حق ادا کردیا اور خدا کی بارگاہ سے تمہیں اچھا اجر ملے گا اور اگر کوتاہی کی تو اس کی سزا بھی تمہیں ملے گی۔ 
 
معاشرے کی اصلاح کا ذمہ دار فقط ایک طبقے کو ٹہرانا لاعلمی کی دلیل ہےـ حقیقت یہ ہے کہ معاشرے کے ہر فرد پر اصلاح معاشرہ کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ جس طرح نماز واجب عمومی ہے ویسے ہی امر بالمعروف و نہی از منکر کرنا بھی ایک عمومی فریضہ الٰہی ہے، لہٰذا ضروری ہے اصلاح معاشرہ کے لئے اس سے تعلق رکھنے والا ہر فرد کوشاں رہے، تب جاکر صالح معاشرے کا قیام ممکن ہوگاـ یہاں اس نکتے کی طرف اشارہ کرنا بھی مناسب ہوگا کہ چند دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک تحریر گردش کر رہی ہے، جسے لکھنے والے نے اپنی تحریر میں مساجد اور مدارس کی ویرانی سے لیکر معاشرے کے اندر نئے ابھرنے یا ابھر کر جوان ہونے والے فسادات اور برائیوں کا ذمہ دار طبقہ روحانیت کو ٹھرانے کی کوشش کی ہے  اور آنجناب نے آیہ نفر سے استدلال کرتے ہوئے بڑے جذباتی انداز میں غیر مناسب باتیں جیسے (ان کو اگر کوٸی خوف ہے تو فقر و تنگدستی سے۔۔۔۔۔ان کو خوف ہے کہ اگر ایران و عراق کے پر آساٸش مقامات سے گلگت بلتستان کے سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان تبلیغ کے لٸے مستقل طور پر تشریف لاٸیںگے تو ان کے بیوی بچوں کا کیا بنے گا۔۔۔۔۔بچوں کی تعلیم کا کیا بنے گا۔۔۔۔۔مجتہدین سے ملنے والے مشاہروں کا کیا بنے گا۔۔۔۔۔حالانکہ یہ فقر کا خوف شیطان کی چال کے سوا کچھ نہیں۔ اَلشَّیۡطٰنُ یَعِدُکُمُ الۡفَقۡر ....... ) لکھ کر یہ تاثر دینا چاہا ہے کہ معاشرے کی تمام برائیوں کا سرچشمہ نجف و قم سے علماء کا تبلیغ کے لئے اپنے اوطان نہ لوٹنا ہے اور ابھی تک ان کی نظر آیہ نفر پر نہیں پڑھی ہےـ کاش لکھنے والے حقائق کو ذرا سمجھ کر یہ شکوہ لکھنے بیٹھ جاتے اور ایران و عراق میں شب و روز ایک کرکے تعلیمات آل محمد (ص) کے حصول میں دل لگا کر عرق ریزی کرنے والے علماء کی حالات زندگی جان کر قلم اٹھانے کی کوشش کرتے تو کھبی بھی ایسی بے بنیاد باتیں نہ لکھتےـ

محترم جناب راقم "فقر کے خوف سے وہ واپس نہ آنے والی بات تب ممکن ہو سکتی تھی کہ وہ ایران و عراق میں مالدار ہوتے، ثروتمند ہوتے، وہ تو ان مقامات پر فقر ہی کی زندگی تو گزار رہے ہیں۔ وہ اگر بقول آپ کے فقر سے خوف کھاتے ہوتے تو اس لائن کو چھوڑ کر کسی اور شعبہ زندگی کو اپنا کر خوب کماتے، بینک بیلنس بناتے، مال بنانے کے لئے ایران و عراق سے بہتر ملکوں میں ہجرت کرجاتےـ دوسری بات یہ ہے کہ موصوف نے بہت حساس مسئلے پر قلم اٹھایا ہے لیکن اسے تمام زوایہ سے جانچ پڑتال کرنے کی بجائے فقط کچھ باتیں لکھ کر ابہام چھوڑا ہے، جو مناسب نہیں۔ آیہ نفر سے استدلال کرنے کی کوشش ضرور کی ہے لیکن ناتمام صورت میں۔ ان کو وضاحت کرنی چاہیئے کہ تفقہ فی الدین سے مقصود کیا ہے؟ پھر تفقہ فی الدین کے لئے کتنے علوم پڑھنا ضروری ہے؟ کتنے سال درکار ہیں؟ انذار کب واجب ہے؟ کن شرائط کے ساتھ؟ دوسری طرف سے "فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون" کو بھی لاکر اس پر روشنی ڈالنی چاہئے تھی مگر .... مختصر یہ ہے کہ کسی بھی موضوع پر کوئی قلم اٹھاتا ہے تو انصاف کا دامن چھوڑنا کم ظرفی کی نشانی ہوتی ہےـ اسی طرح موصوف نے استقراء ناقص کا سہارا لیا ہے یعنی بعض جزئیات کو دیکھ کر کل پر حکم لگایا گیا ہے جو علمی دنیا میں درست نہیںـ خیر اشارہ کرنا مقصود تھاـ بلاشبہ لکھنے والے کو سوء تفاہم ہوا ہےـ امید ہے وہ اپنی تحریر پر نظر ثانی کریں گےـ بہرصورت ہم میں سے ہر ایک کو اس بات پر غور کرنا چاہیئے کہ کیا اصلاح معاشرہ فقط ایک طبقے کی ذمہ داری ہے؟
خبر کا کوڈ : 772124
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش