2
Monday 4 Feb 2019 08:46

قدرتی وسائل سے مالا مال بلتستان کے ضلع شگر میں زہرمہرہ کی صنعت

قدرتی وسائل سے مالا مال بلتستان کے ضلع شگر میں زہرمہرہ کی صنعت
رپورٹ: میثم بلتی

آئینی حقوق سے محروم گلگت بلتستان قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ ہے۔ انسانی اور قدرتی وسائل سے پر یہ جنت نظیر خطہ جہاں سیاحتی نکتہ نگاہ سے اہمیت کا حامل ہے وہیں یہاں کے پہاڑوں میں موجود زرو جواہرات دنیا بھر کی طاقتوں کی دلچسپی کا محور ہے۔ سیاسی اور تزویراتی طور پر دنیا کی بڑی ایٹمی طاقتوں کا سنگم ہونے کے ناطے بلخصوص سی پیک کے بعد اسکی قدروقیمت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ دنیا میں آٹھ ہزار میٹر سے بلند پہاڑوں کی تعداد صرف چودہ ہے، ان میں سے پانچ جی بی میں واقع ہیں۔ گلگت بلتستان کی سرزمین پر بلند چوٹیوں کی شہزادی "کے ٹو" جو دنیا کی دوسری بلند چوٹی ہے، استادہ اپنی عظمت پر متفخر ہے۔ اسی سرزمین بے آئین مگر جنت نظیر خطے میں سات ہزار میٹر سے بلند چوٹیوں کی تعداد 108 ہے۔ یہاں موجود آٹھ ہزار میٹر سے بلند فلک بوس پہاڑوں میں کے ٹو، نانگا پربت، رگشہ بروم ون، رگشہ بروم ٹو اور براڈ پیک شامل ہیں۔ یہ فلک بوس پہاڑ جہاں ایک طرف دنیا بھر کے سیاحوں اور کوہ پیماوں کو اپنی جاذبیت اور رعنائی کے ذریعے کھینچ لاتے ہیں، وہاں ان میں موجود بیش بہا معدنیات بھی دنیا بھر کے سرمایہ داروں اور محققین کے لئے بھی دلچسپی کا باعث ہیں۔ انہی پہاڑوں کے سینے میں جہاں 60 اقسام سے زائد لعل و جواہرات اور جیمز پوشیدہ ہیں، وہاں تانبا، لیڈ، سنگ مرمر، چونے کا پتھر، سونا اور یورنیم کے نہ ختم ہونے والے سلسلے موجود ہیں۔ لیکن ان پہاڑوں کے اوپر موجود جی بی کے عوام بنیادی سہولیات زندگی سے بھی محروم اور پست ترین سطح زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

گلگت بلتستان میں عوامی سطح پر پہاڑوں میں موجود قیمتی پتھروں کو نکالنے، کاٹنے اور پالش کرکے بیرون ملک بیچنے کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا ہے جو کہ مستحن اقدام ہے۔ یہاں کی مقامی اور چھوٹی صنعتوں کے قیام خطے کے معاشی مسائل کو حل میں ممدومعاون ثابت ہوسکتا ہے۔ اگرچہ اس سلسلے میں وفاقی حکومت رکاوٹیں کھڑی کرتی نظر آتی ہے۔ اس کے باوجود کسی نہ کسی حد تک علاقی سطح پر کام ہورہا ہے جن کی پذیرائی کی ضرورت ہے۔ جی بی میں مقامی صنعت جیسے چھرا بافی، چادر بافی، چٹائی سازی، برتن سازی وغیرہ جیسے کاموں کو فروغ دے کے خطے کی تعمیروترقی کے لیے اقدام اٹھایا جاسکتا ہے۔ مغربی این جی اوز اور وفاقی حکومت کی طرف ہاتھ پھیلانے کی بجائے مقامی وسائل کے ذریعے مقامی صنعتوں کو فروغ دینا معاشی اور معاشرتی نکتہ نگاہ سے بہت اہم ہے۔ اس سلسلے میں کے ٹو کے دامن واقع ضلع شگر میں قائم زہر مہرہ کی صنعت انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

گلگت بلتستان کے دیگر خطوں کی طرح وادی شگرقدرتی حسین مناظر کا مجموعہ ہے جو کہ اسکردو سے 23 کلومیٹر کے فاصلے پرشمال کی جانب واقع ہے۔ اس وادی کے خوبصورت اور دلکش قدرتی مناظر، بلند پہاڑی چوٹیاں، لہلہاتے کھیت، چشمے اور آبشاریں ملکی و غیرملکی سیاحوں کے لیے اپنے اندر ایک منفرد کشش رکھتی ہے۔ اس وادی کی سرحدیں مشرق میں خپلو، مغرب میں نگر گلگت اور جنوب کی وادی اسکردو سے ملتی ہیں۔ شمالی طرف دنیا کی دوسری بلندترین چوٹی کے ٹو اور کوہ قراقرم کی دیگر پہاڑی چوٹیاں اور گلیشیرز ہیں۔ جن کو سرکرنے کی کوشش میں لاتعداد کوہ پیماء اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ وادی شگر کے مہمان نواز، بہادر اور جفاکش لوگوں کا پیشہ کھیتی باڑی اور مویشی پالنا ہے۔ بہت کم لوگ ملازمت پیشہ ہیں۔ یہ وادی پھلوں اور میووں کے لحاظ سے بہت مشہور ہیں۔ ان میں خوبانی، بادام، سیب، ناشپاتی، انگور، آلوبخارا، چیری، شہتوت، اخروٹ اور دیگر پھل شامل ہیں۔ وادی کے پہاڑوں میں قدرت کا پیش بہا اور قیمتی خزانہ پوشیدہ ہیں۔

شگر میں واقع پہاڑوں میں چھپی معدنیات کے علاوہ بہت ہی دوسری قیمتی اشیاء ہیں، جن میں سے چند مشہور معدنیات میں ابرق (یہاں خاص مقدار میں ابرق پایا جاتا ہے جو شیشہ سازی کے کام آتا ہے)، کچا چونا جو کہ شگر میں کئی جگہوں پر موجود ہے، جن کو کارخانوں میں پکا کر عمدہ قسم کا چونا تیار کیا جاتا ہے۔ یہاں کے پہاڑوں سے نیلم بھی ملتے ہیں، یہ پتھر جواہرات کی دنیا میں بڑی قیمت پاتے ہیں۔ اس کے علاوہ زہرمہرہ شگر سے تیس میل مشرق کی سمت پہاڑی نالوں کو عبور کرنے کے بعد ایک تیز سبز رنگ کا پہاڑ ہے، جسے مقامی زبان میں پزول کہتے ہیں، بھی موجود ہے۔ یہ سبزرنگ کا پتھر عام پتھروں کی نسبت نرم ہے، جس سے ہر قسم کے برتن اور دوسری نمائشی چیزیں بنائی جاسکتی ہیں۔ اس پتھر سے بنے ہوئے برتنوں کے بارے میں یہی مشہور ہے کہ اگر ان میں زہر ملاکر کھانا ڈالا جائے تو کھانا خود بہ خود ابلنے لگتا ہے اور زہر کے اثرات زائل ہوتے ہیں۔

چند سال قبل شگر کے چند افراد نے بلتستان زہرمہرہ ورکس کے نام سے زہرہ مہرہ کا کام شروع کیا ہے، جس کے ذخائر شگر میں بہت زیادہ موجود ہے۔ طبعی و کیمیائی خواص پر مبنی اس پتھر کی کٹنگ، پالیشنگ کے لیے منی فیکٹری بھی بنائی گئی ہے۔ جہاں زہر مہرہ کے بڑے بڑے پتھروں کو لاکر زیورات، برتن اور نمود و نمائش کے سامان میں بدل دیا جاتا ہے۔ اگرچہ انکا کام چھوٹے پیمانے پر ہے لیکن امید کرتے ہیں کہ وہ اس کو وسعت دیں گے اور بین الاقومی سطح پر اسکی پذیرائی حاصل کریں گے۔ انہوں نے اپنی مصنوعات کی نمائش اور خریداری کے لیے اسکردو موسوی مارکیٹ جبکہ شگر میں خانقاہ معلی شگر کے قریت ہی دکان سجائی ہوئی ہے۔ یہ صنعت کام میں نفاست اور خوبصورتی بھی داد طلب ہے۔ زہرمہرہ جو کہ مختلف خصوصیات کا حامل ہوتا ہے اس سے بننے والے برتن بھی دیدہ زیب اور دلکش ہوتے ہیں۔ ملکی و غیرملکی لوگ اس پتھر کی مصنوعات کو یکساں طور پر پسند کرتے ہیں۔ کام کی نفاست اور خصوصیت کے سبب ملک سے زیادہ بیروں ملک سے آنے والے سیاح اسے حرز جاں بنالیتے ہیں۔ شگر کی مذکورہ صنعت کو سرکاری سطح پر معاونت کی ضرورت ہے۔ اس ّصنعت کو توسیع دیکر علاقے کے روزگار میں اضافے اور آمدنی میں اضافے کا ذریعہ بنانا چاہیے۔ یہ اور اس طرح کی دیگر صنعتوں کو فروغ دیکر خطے کی تعمیر و ترقی میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی حکومت ایسے مثبت کام کرنے والی کی حوصلہ افزائی کرے جس سے خطے پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہوں۔
خبر کا کوڈ : 772304
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش