0
Thursday 17 Jan 2019 11:36

افغانستان میں قیام امن اور اسفندیار ولی خان کی رائے

افغانستان میں قیام امن اور اسفندیار ولی خان کی رائے
رپورٹ: ایس علی حیدر

عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان نے موقف اختیار کیا ہے کہ اگر تحریک طالبان افغانستان کی قیادت نے افغان حکومت کے ساتھ قیام امن کیلئے مذاکرات نہ کئے تو اس کا فائدہ داعش کو پہنچے گا۔ مختلف مواقع پر اجتماعات سے خطاب اور پارٹی قائدین سے گفتگو کے دوران اسفندیار ولی خان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں قیام امن کیلئے ضروری ہے کہ افغان قیادت اور طالبان کے درمیان باہمی اور بامقصد مذاکرات ہوں جس کے باعث افغانستان میں داعش کو شکست دی جاسکتی ہے اور اس کے خطرات سے بخوبی نمٹا جاسکتا ہے۔ اسفندیار ولی خان پختونوں کی ایک بڑی جماعت کے قائد ہیں اور ان کے افغان صدر اور افغان قیادت سے اچھے روابط ہیں۔ ان کے دل میں افغانستان قیادت کیلئے نیک خواہشات اور نرم گوشہ موجود ہے، تاہم ان کی دلیل اور موقف انتہائی کمزور ہے۔ تحریک طالبان افغانستان اور داعش ایک سکے کے دو رخ ہیں۔ داعش کی اکثریت طالبان کے باغیوں کی ہے جب افغانستان میں تحریک طالبان افغانستان کی حکومت تھی تو امریکہ نے نائن الیون کی آڑ میں طالبان حکومت کا تخمینہ الٹ دیا۔

سیاسی تجزیہ کاروں اور دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ جب سے افغانستان میں طالبان کی حکومت ختم ہوئی اور امریکہ کی قیادت میں اتحادی افواج کی تعیناتی ہوئی تب سے عام انتخابات کے ذریعے حامد کرزئی اور اشرف غنی سمیت دیگر حکومتیں قائم ہوئیں، مگر اسکے باوجود افغانستان میں امن قائم نہ ہوسکا جس کی بنیادی وجہ طالبان کی مسلح جدوجہد ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت کابل تک محدود ہے، اس سے قبل حامد کرزئی کی حکمرانی بھی محدود رہی۔ اربوں ڈالرز خرچ کرنے کے باوجود امریکہ افغانستان میں امن قائم کرنے میں ناکام رہا اسی طرح امریکہ کو افغانستان میں پنجے گاڑنے کا موقع میسر نہ آسکا اور نہ ہی امریکہ کی سر پرستی میں قائم منتخب حکومت کامیاب ہوسکی۔ یہی وجہ ہے کہ بالآخر امریکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور ہوا۔ تحریک طالبان افغانستان کا واضح اور دوٹوک موقف ہے کہ افغانستان سے امریکی سمیت اتحادی افواج کا انخلاء ہو، طالبان کے زیرحراست قیدی رہا کئے جائیں اور طالبان کے قائدین کے نام بلیک لیٹ سے خارج کئے جائیں۔ ان کے بیرون ممالک میں نقل و حرکت پر عائد پابندی ہٹائی جائے۔ طالبان کی ان شرائط کو تسلیم نہ کرنے پر امریکہ اور طالبان قیادت کے درمیان مکنہ شروع ہونے والے مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔

دوحہ قطر میں مقررہ تاریخ پر مذاکرات نہ ہوسکے اور نہ ہی نئی تاریخ کا اعلان کیا گیا۔ سیاسی اور دفاعی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسفندیار ولی خان کے موقف کی تائید نہیں کی جاسکتی کیونکہ افغانستان میں دوبارہ طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو وہ بہتر انداز میں داعش سے نمٹ سکے گی۔ واضح رہے کہ تحریک طالبان افغانستان اور داعش دونوں گوریلا اور زمینی جنگ لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ داعش کے خاتمہ کیلئے ضروری ہے کہ تحریک طالبان کی افغانستان میں حکومت قائم ہو۔ امریکہ نے کئی بار طالبان قیادت کو افغانستان کے عام انتخابات میں حصہ لینے کی دعوت دی تاہم طالبان قیادت نے وہ پیشکش ٹھکرا دی اور موقف اپنایا کہ انتخابات میں حصہ لینے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے امریکی افواج کا انخلاء ہو۔ افغانستان میں تحریک طالبان اور افغان حکومت کی شمولیت کے بغیر مستقل اور پائیدار امن کا قیام ممکن نہیں۔ امریکہ نے خود طالبان کی مسلمہ حقیقت تسلیم کرلی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ طالبان قیادت سے مذاکرات کرنے پر آمادہ ہے حکومت پاکستان نے واضح کیا ہے کہ وہ طالبان کو افغانستان کی حکومت سے مذاکرات کرنے پر آمادہ نہیں کرسکتی اور نہ ہی افغان حکومت کو طالبان سے مذاکرات پر آمادہ کرنے کی پوزیشن میں ہے، تاہم حکومت پاکستان نے قیام امن کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کی حامی بھری ہے۔
خبر کا کوڈ : 772549
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش