کارواں اپنا ابھی تک پہلی ہی منزل میں ہے
18 Jan 2019 14:21
اسلام ٹائمز: ایک مستقل مسئلہ گلگت بلتستان کی عوام کیساتھ بھی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ علاقہ ملک کا آئینی حصہ نہیں۔ سب یہ بھی جانتے ہیں کہ جب تک عوام یکجا ہوکر احتجاج نہ کرے، کوئی مطالبہ کسی حکومت نے آج تک نہیں مانا۔ لوگ بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اتفاق و اتحاد کا بہت زیادہ فقدان ہے اور ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے، الزامات لگانے، غلط زبان اور غلط لہجہ استعمال کرنے سے اتفاق و اتحاد کو فروغ نہیں ملنے والا۔ اسکے ساتھ ساتھ یہ بھی جانتے ہیں کہ کسی جماعت کی وفاق میں بننے والی حکومت آج تک گلگت بلتستان کے حقوق کے ایشو کو پارلیمنٹ میں لیکر نہیں گئی۔
تحریر: شریف ولی کھرمنگی، بیجنگ
بہتر سال سے لٹکائے گئے گلگت بلتستان کے حقوق سے متعلق کیس کا "فیصلہ" سپریم کورٹ نے سنا دیا۔ سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی سفارشات کے مطابق "اپنا حکم" دے ڈالا۔ نہ آزاد کشمیر طرز کا سیٹ اپ دیا گیا، نہ جموں کشمیر طرز کا اور نہ ہی عبوری صوبہ بنانے کی قطعی سفارش کی گٸی۔ وہی پرانی بات دہرائی گئی کہ تنازعہ کشمیر کے تصفیئے تک ”تمام تر حقوق“ دیئے جائیں۔ یہ تو آنیوالے صدارتی حکم نامے سے واضح ہوگا کہ ”تمام تر“ سے کیا مراد ہے۔ نئی بات یہ ہوئی کہ اب غیر آئینی علاقے پر آئینی عدالت کی عملداری ہوگی۔ سپریم کورٹ کے 1999ء کے فیصلے کا ذکر کرکے بھی یہ حکم نہیں دیا گیا کہ گلگت بلتستان کو ملک کا ”De'facto & De'jure“ حصہ بنایا جائے۔ حالانکہ یہ اُس تاریخی فیصلے کے حکم میں شامل تھا، جسکا حوالہ خود چیف جسٹس نے اس حالیہ فیصلے میں بھی دیا ہے۔ کئی سالوں کی مشاورت کے بعد طے پانے والی سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات پر بھی من و عن عملدرآمد کرنے کا حکم نہیں دیا، جس میں علاقے کو عبوری حیثیت دیکر کشمیر کاز کو مضبوط کرنے کا کہا گیا تھا اور یہی کمیٹی کے رکن وزیراعلیٰ گلگت بلتستان سمیت موجودہ حکومت کی طرف سے متعین علاقے کے گورنر کا بھی موقف ہے۔
اب اس تناظر میں گلگت بلتستان کی عوام کالونیل سسٹم کو یقیناً قبول نہیں کرتی۔ عدالت کا حکم کہ تمام وہ حقوق دیئے جائیں، جو دوسرے صوبوں کو حاصل ہیں تو سوال بنتا ہے کہ دوسرے صوبے ملک میں حکمران چننے کا حق رکھتے ہیں، قانون سازی میں حصۃ دار ہیں، پالیسی ساز اداروں میں شامل ہیں، آئینی طور پر اپنی شہریت کو ببانگ دہل بیان کرنے کا حق رکھتے ہیں، تو کیا گلگت بلتستان کو بھی یہ ”تمام حقوق“ دیئے جا رہے ہیں؟ اگر نہیں تو دوسرے صوبوں کے برابر حقوق کا مطلب کیا ہوگا؟ اگر برابر یعنی دوسرے امور سمیت درج بالا متذکرہ حقوق حکومت نہیں دیتی تو کیا عدالت عالیہ حکومت پر ”contempt of court“ کریگی؟ اور اب جبکہ سپریم کورٹ تک گلگت بلتستان والوں کی رسائی ہوگئی ہے تو عدالت کے احکام کی خلاف ورزی یعنی برابر حقوق نہ دینے کی صورت میں علاقے کے عوام اور حکومت، وفاقی حکومت کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع بھی کریگی؟ یہ سوالات غور طلب ہیں۔
گلگت بلتستان کی عوام خصوصاً یوتھ کیلئے یہ فیصلہ کئی حوالوں سے بیدار ہونے کا سبب بن رہا ہے۔ لوگ اچھی طرح جانتے تھے کہ خطہ پاکستان کا آئینی حصہ نہیں، باوجود اسکے یہاں پاکستان کی مخالفت کی کوٸی قابل قدر تحریک نہیں چلی، حالانکہ ملک کے کٸی دیگر علاقوں میں باقاعدہ علیحدگی پسند قوتیں وقتاً فوقتاً سر اٹھاتی رہی ہیں، بلکہ یہ سو فیصد درست بات ہے کہ گلگت بلتستان کی عوام دنیا کی واحد آبادی ہے، جو اپنے قوت بازو سے آزادی لینے کے بعد سات دہاٸیوں سے ملک کا آٸینی حصہ بننے کیلٸے تحریکیں چلا رہی ہے، مگر وفاق کی بدلتی حکومتوں نے انکے مطالبات کو تسلیم نہیں کیا۔ سات دہاٸیاں گزر گٸیں، اب عوام خطے کو آرڈر کے ذریعے چلانے کو قبول نہیں کرتی۔ گذشتہ آرڈر کے بعد جو صورتحال پیش آئی، وہ سب کے سامنے ہے۔ اب نئے آرڈر کی صورت میں بھی عوام خاموشی سے راضی ہرگز نہیں ہوگی، گو کہ وفاقی حکومت عدالتی فیصلے کے بعد پارلیمان سے عوام کی اکثریتی رائے کے مطابق فیصلہ لینے کا حق محفوظ رکھتی ہے، مگر اٹارنی جنرل کے ذریعے سپریم کورٹ میں حکومتی سفارشات اور ممکنہ ریفارمز پیکیج سے سامنے آنیوالی معلومات سے ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس طرح لوگوں کو وقتی طور پر بھی آمادہ کرنے کا ایک ہی طریقہ رہ جاتا ہے، وہ یہ کہ علاقے کیلئے غیر آئینی علاقے کے مکمل حقوق دے دیئے جائیں۔ وہ چاہے جموں کشمیر طرز کے سیٹ اپ کی شکل میں ہو یا آزاد کشمیر کے طرز کا سیٹ اپ دیکر۔
خبر کا کوڈ: 772830