0
Saturday 19 Jan 2019 22:44

نئی دہلی، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی آر ایس ایس کے نشانے پر

نئی دہلی، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی آر ایس ایس کے نشانے پر
رپورٹ: جے اے رضوی

گذشتہ دنوں جواہر لعل یونیورسٹی (جے این یو) نئی دہلی کے اسٹوڈنٹ یونین کے سابق صدر کنہیا کمار، عمر خالد، انربن بھٹاچاریہ اور دیگر سات کشمیری کے خلاف دہلی پولیس نے تین سال بعد عدالت میں غداری کا مقدمہ درج کیا۔ 9 فروری 2016ء کو شہید افضل گورو کی یاد میں ’’جے این یو‘‘ میں منعقدہ تقریب کو آر ایس ایس کی طلبہ تنظیم ’’اَکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد‘‘ نے سبوتاژ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اکھل بھارتیہ پریشد نے تقریب کے منتظمین پر ’’قابل اعتراض‘‘ نعرہ بازی کا الزام لگا کر اسٹوڈنٹ یونین کے چند عہدیداروں اور کچھ دیگر طلاب کے خلاف پولیس میں ’’ایف آئی آر‘‘ درج کرائی تھی۔ قانون کی رُو سے ’’ایف آئی آر‘‘ پر نوے دن کے اندر پولیس ملزمان کے خلاف چارج شیٹ عدالت میں پیش کرنے کی مکلف تھی، مگر پولیس نے تین سال بعد ملزمان پر فردِ جرم عائد کرنے کی زحمت گوارا کی۔ ملزمان کو اب عدالت میں اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنا ہوگا۔ دہلی پولیس نے نجی موبائلوں پر ریکارڈ ’’قابل اعتراض‘‘ نعرہ بازی کی فوٹیج کو اپنی تفتیش کی بنیاد بناکر بارہ سو صفحات سیاہ کرکے مذکورہ طلاب کو ملزم ٹھہرایا ہے۔ دہلی کی پٹیالہ ہاؤس عدالت میں ملزمان کے خلاف آگے کی قانونی کارروائی ہوگی۔

اگر بالفرض عدالت پولیس چارج شیٹ کی روشنی میں جرح و تعدیل کے بعد ملزمان پر غداری کا مقدمہ حق بجانب قرار دیتی ہے تو جے این یو اسٹوڈنٹ یونین کے سابق صدر کنہیا کمار سمیت دیگر نو ملزموں کو عمر قید کی سزا مل سکتی ہے۔ واضح رہے کہ تین سال قبل 9 فروری کو جے این یو میں پھانسی یافتہ کشمیری نوجوان افضل گورو کی برسی کی تقریب اس غرض سے منائی جا رہی تھی کہ بھارت سے سزائے موت کو موقوف کیا جائے۔ اسٹوڈنٹ یونین کی جانب سے مجوزہ تقریب کے انعقاد پر اَکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کی مخالفانہ پوسٹر بازی اور شدید برہمی کے سبب یونیورسٹی حکام نے تقریب کی اجازت واپس لے لی تھی، مگر یونیورسٹی کیمپس میں طلاب نے بالآخر تقریب کا انعقاد عمل میں لایا تھا۔ تقریب کے چار روز بعد طلاب کو ’’قابل اعتراض نعرہ بازی‘‘ کی اکھل بھارتیہ پریشد کی شکایت پر گرفتار کرکے تہاڑ جیل پہنچا دیا گیا۔ طلاب کو بہت جلد عدالت نے ضمانت پر رہائی دلائی، مگر یہ تنازعہ بھارت میں ایک بڑے مباحثے کا حصہ بنا رہا۔

اس واقعہ پر رائے عامہ دو خیموں میں منقسم پائی گئی۔ ایک جانب آزاد خیال اور جمہوریت نوازوں کا مکتبۂ فکر تھا، جس نے جے این یو کے طلاب لیڈروں کے آزادی اظہار اور آزادی اجتماع کی کھل کر حمایت کی۔ دوسری جانب ہندو انتہا پسند تھے، جنہوں نے طلاب کی بھرپور مخالفت کی۔ اس دوران بھارتی میڈیا نے عادت سے مجبور ہوکر جلتی پر تیل ڈالا اور اس معاملے کو بہت اُچھال کر رائے عامہ گمراہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ میڈیا نے اس بارے میں جو فوٹیج ٹیلی کاسٹ کی، اس کے صحیح اور حقیقی ہونے پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا رہا۔ ماہرین برملا چیختے رہے کہ ویڈیو جعلی ہے اور ان سے طلاب لیڈروں کے خلاف کوئی قابل اثر قانون کیس نہیں بنتا، مگر وہ سب بے سود رہا۔ بہرصورت جے این یو اسٹوڈنٹ یونین اور اس کے سابق صدر کنہیا کمار کے سیاسی نظریات اور سماجی خیالات چاہے جو کچھ بھی ہوں، اُن کی حُب الوطنی اور حق گوئی کسی سوال یا شک و ریب سے بالاتر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہندو انتہا پسند طلاب یونین کنہیا کمار کی حب الوطنی پر اُنگلی اٹھا کر اُن سے اپنا پرانا حساب چگتا کرنا چاہتے ہیں، اگرچہ کنہیا کمار نے کئی بار فرقہ پرستوں کو دندان شکن مدلل جواب دیئے، پھر بھی آج کی تاریخ میں اُنہیں عدالت کے کٹہرے میں ’’قومی غدار‘‘ کے طور پر کھڑا کیا گیا ہے۔

جے این یو میں زیر تعلیم ان سابق اور موجودہ طلاب کے خلاف عدالتی کارروائی کا حتمی نتیجہ کیا ہوگا، اُس پر قبل از وقت کوئی رائے زنی نہیں کی جاسکتی، البتہ مقدمہ کے بارے میں کنہیا کمار کا تبصرہ قابل توجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ تقریباً تین سال بعد عین پارلیمانی انتخابات سے قبل واقعہ کی چارج شیٹ پولیس کی جانب سے عدالت میں پیش کرنا اصلاً بھاجپا کے سیاسی مقاصد کی تکمیل کا رقص نیم بسمل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مودی حکومت نوٹ بندی اور بے روزگاری و مہنگائی کے حوالے سے اپنی ناکامیاں چھپانے کے لئے ووٹروں کو اب انہی چیزوں سے لبھاتی ہے۔ کنہیا کمار نے طنزاً مودی حکومت کا یہ کہہ کر شکریہ ادا کیا ’’پولیس پر دباؤ ڈال کر ہی مجھ اور دیگر طلاب پر غداری کا مقدمہ قائم کیا جاچکا ہے۔‘‘ قابل ذکر ہے کہ یہ پہلا موقعہ ہے جب کشمیر کے بارے میں بات کرنے کی جسارت پر غیر کشمیری طلاب لیڈروں کے خلاف اس نوعیت کا سنگین مقدمہ بھارتی عدالت میں چلے گا۔ مقدمے کے حوالے سے چونکہ سات کشمیری طلاب بھی عدالتی کارروائی کا سامنا کریں گے، اس لئے اس خبر پر کشمیر کے عوامی اور سیاسی حلقوں میں شدید ردعمل ظاہر ہوا۔

حسب توقع اس حوالے سے مقبوضہ کشمیر کے مزاحمتی حلقوں نے بھارتی حکومت کی کڑی نکتہ چینی کی اور کہا کہ جواہر لعل یونیورسٹی میں زیر تعلیم سات کشمیری طلاب پر غداری کا مقدمہ چلانا ان کے تعلیمی مستقبل سے کھلواڑ کرنا ہے۔ تادم تحریر متحدہ مزاحمتی قیادت، جماعت اسلامی کشمیر، تحریک حریت، لبریشن فرنٹ (حقیقی)، انجمن شرعی شیعیان اور مسلم لیگ نے اس معاملے پر اپنے الگ الگ بیانات میں یہی نکتہ اُبھارا کہ اس مقدمے کو واپس لیا جائے۔ غور طلب ہے کہ پی ڈی پی کی صدر اور مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیراعلٰی محبوبہ مفتی نے اس کارروائی پر اپنی فکر و تشویش ظاہر کی۔ انہوں نے بھارتی حکومت کو اس سلسلے میں آڑے ہاتھوں لے کر کہا کہ 2014ء میں کانگریس نے پارلیمانی انتخابات سے ذرا قبل افضل گورو کو بھی تختۂ دار پر لٹکا کر فی الاصل الیکشن میں رائے دہندگان کو اپنی جانب مائل کرنے کی لاحاصل کاوش کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ آج کی تاریخ میں بھاجپا اسی طرزِ سیاست کا اعادہ کر رہی ہے۔ بہرحال اس بحث کو ٹالتے ہوئے اب عدلیہ ہی ایک واحد سہارا ہے، جو مقدمہ غداری میں حق و انصاف کا پلڑہ ہر صورت میں بھاری رکھے گی۔
خبر کا کوڈ : 772943
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش