QR CodeQR Code

پاراچنار، اپنے دیرینہ مطالبات کے حق میں اہلیان بالشخیل و ابراہیم زئی کی پریس کانفرنس

22 Jan 2019 16:11

اسلام ٹائمز: 2000ء کی دہائی میں جب طالبان کی اجارہ داری کیوجہ سے پورا خطہ دہشتگردی کے لپیٹ میں آگیا، تو اسی دوران اس علاقے میں ناجائز آباد کاری پر ماسوزئی اور پاڑہ چمکنی قبائل کے مابین دوبارہ جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ تاہم طالبان کمانڈر حکیم اللہ محسود نے مداخلت کرکے 2005ء میں بالش خیل اور خار کلی کی مشترکہ اراضی کو ناجائز طور پر چمکنی اور ماسوزئی کے مابین بانٹ دیا۔ جس پر بالش خیل اور لوئر کرم کے دیگر تمام طوری قبائل نے حکومت وقت سے احتجاج کیا مگر حکومت نے اس پرکوئی توجہ نہیں دی۔


رپورٹ: ایس این حسینی

بالش خیل کا شاملاتی رقبہ گذشتہ تین چار دہائیوں سے  ڈسٹرکٹ کرم کے اصل مالک اور قابض قبائل کے مابین خطرناک صورت اختیار کررہا ہے۔ مقامی، صوبائی اور مرکزی حکومتوں کی پراسرار اور معنی خیز خاموشی، ان قبائل کے مابین جنگ و جدل کا باعث بن سکتی ہے۔ پاراچنار پریس کلب میں پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حاجی سید صادق حسین، مولانا سید نقی شاہ اور حاجی محمد حسن نے کہا، ھم نے بارہا حکومت کو صورتحال سے آگاہ کیا تاہم انتظامیہ حقیقت کو نظرانداز کرتے ہوئے جنگ کی حالت پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ قبائلی عمائدین نے واضح کیا کہ سن 80 کی دہائی میں افغان مہاجرین کی آمد کے دوران حکومت کی درخواست پر طوری اقوام نے بالش خیل سمیت کرم بھر میں متعدد مقامات پر اپنی اراضی مہاجرین کو کیمپ بنانے کے لئے پیش کی۔ طوری بنگش قبائل نے نہایت فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انکی پوری طرح سے مہمان نوازی کی۔ تاہم 1990ء تا 2000ء مہاجرین کی رخصتی پر طوری قبائل کی طرف سے پیش کردہ زمین پر بعض غیر بندوبستی قبائل نے قبضہ کرلیا۔ یوں بالش خیل کی فراہم کردہ اراضی میں موجود کچے مکانات پر غیر بندوبستی قبیلے پاڑہ چمکنی اور ماسوزئی قبیلے نے ڈیرے ڈال دیئے۔ تاہم بالش خیل کے احتجاج پر اس وقت کے پی اے محمد سلیم اور اے پی اے بصیر خان نے ناجائز قابضین کو بیدخل کرتے ہوئے کچے کیمپ کو مکمل طور پر مسمار کردیا۔

2000ء کی دہائی میں جب طالبان کی اجارہ داری کیوجہ سے پورا خطہ دہشتگردی کے لپیٹ میں آگیا، تو اسی دوران اس علاقے میں ناجائز آباد کاری پر ماسوزئی اور پاڑہ چمکنی قبائل کے مابین دوبارہ جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ تاہم طالبان کمانڈر حکیم اللہ محسود نے مداخلت کرکے 2005ء میں بالش خیل اور خار کلی کی مشترکہ اراضی کو ناجائز طور پر چمکنی اور ماسوزئی کے مابین بانٹ دیا۔ جس پر بالش خیل اور لوئر کرم کے دیگر تمام طوری قبائل نے حکومت وقت سے احتجاج کیا۔ مگر حکومت نے اس پرکوئی توجہ نہیں دی۔ 2007ء میں کرم میں طالبان کے علاقہ گیر فسادات کے دوران انہیں مزید موقع میسر آیا، تو چمکنی قوم نے آبادکاری میں تیزی لائی۔ تاہم فسادات کے کم ہونے پر بالش خیل کی التجا اور استغاثہ پر طوری بنگش اقوام نے سمیر عباس میں متفقہ طور پراحتجاج کیا۔ جس پر اس وقت کے پی اے محمد بصیر خان وزیر نے 13 مارچ 2010ء کو تمام مکانات کی مسماری کا حکمنامہ جاری کردیا۔ تاہم گنتی کے چند مکانات کے مسمار ہونے کے علاوہ، اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا۔ اس وقت سے آج تک بالش خیل اور خار کلی کے اہلیان نے بار بار حکومت سے شکایات کیں مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

صرف یہی نہیں، بلکہ بالش خیل کی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے انہوں نے ابراہیم زئی کی حدود میں قدم رکھے۔ اس دوران اہلیان ابراہیم زئی نے حکومت سے فریاد کی، تاہم کوئی داد رسی نہیں ہوئی، اور نتیجتا 30 دسمبر 2018ء کو جب ابراہیم زئی کے نہتے جوان اپنے ہی جنگل میں کام کر رہے تھے، کہ اس دوران چمکنی قبیلے کے پہلے سے تاک میں بیٹھے مسلح افراد نے ان پر فائرنگ شروع کی۔ جس کے نتیجے میں ہمارے دو افراد زخمی، جبکہ درجن بھر افراد گھنٹوں تک انکے محاصرے میں رہے۔ خیال رہے، یہ ایک حساس علاقہ ہے، پاراچنار کا امن و امان اسی علاقے سے وابستہ ہے۔ اب چونکہ قابضین مزید تجاوزات کررہے ہیں، جس سے مسئلہ مزید گھمبیر ہوتا جارہا ہے۔ ہر وقت جنگ کا شدید خدشہ ہوتا ہے، جبکہ مقامی انتظامیہ نے اس حوالے سے اپنی بے بسی کا برملا اظہار کیا ہے۔ چنانچہ مقامی سول اور فوجی انتظامیہ، صوبائی نیز وفاقی حکومت سے ایک بار پھر ہماری عاجزانہ گزارش ہے کہ وہ ریونیو ریکارڈ اور کاغذات مال کی روشنی میں ظالم اور مظلوم کا تعین کرتے ہوئے حق پر مبنی فیصلہ صادر فرمائے اور سابق پی اے بصیر خان کے فیصلے کے مطابق مقبوضہ علاقے کو غیر قانونی قابضین سے واگزار کرا کے اصل مالکان کے حوالے کیا جائے تاکہ آئندہ جنگ و جدل سے بچا جا سکے اور عوام امن و سکون سے رہ سکیں۔


خبر کا کوڈ: 773443

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/773443/پاراچنار-اپنے-دیرینہ-مطالبات-کے-حق-میں-اہلیان-بالشخیل-ابراہیم-زئی-کی-پریس-کانفرنس

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org