1
0
Tuesday 22 Jan 2019 08:21

طالبان اور طالبان

طالبان اور طالبان
اداریہ
طالبان پاکستان، طالبان امریکہ اور طالبان طالبان مذاکرات کا عمل ایک بار پھر عروج پر ہے، زلمے خلیل زاد ایک سے دوسرے ملک کے دورے پر ہیں۔ پاکستان میں بھی طالبان کے حوالے سے مختلف خبریں سرگرم ہیں۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی افغانستان سے ہو آئے ہیں۔ عمران خان افغان صدر اشرف غنی کی دعوت پر افغانستان جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ طالبان میں موجود کئی دھڑے اپنے اپنے پروڈیوسروں اور ہدایت کاروں کے اشارے پر سرگرم عمل ہیں۔ کوئی افغانستان کے اندر دھماکے اور قتل و غارت گری کی کارروائیاں انجام دے کر مذاکرات کی میز پر اپنی حیثیت مضبوط کرنے کا پیغام دے رہا ہے۔ کوئی گروپ ایران کے اعلٰی حکام سے پے در پے ملاقاتیں کرکے اپنے آپکو بہتر اور قابل اعتماد کھلاڑی ثابت کر رہا ہے۔ طالبان کا کوئی گروپ افغانستان میں داعش سے نبرد آزما ہے اور کوئی داعش کو طالبان میں بدلنے کی سعی کر رہا ہے۔ کوئی قطر، کوئی یو اے ای اور کوئی اسلام آباد میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہے۔ ملا عمر اور آئی ایس آئی کا طالبان اب کئی ملکوں اور کئی لابیوں میں بٹ چکا ہے۔ یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ طالبان میں چین، روس، ہندوستان، پاکستان، ایران، سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات سمیت دیگر ممالک کی باقاعدہ لابیاں اور پراکسیز موجود ہیں۔ ہر ملک اپنی اپنی لابی کو سیاسی و عسکری میدان میں فعال و سرگرم رکھے ہوئے ہے۔ کسی ملک کے اقتصادی مفادات ہیں، کسی کے فوجی اور کسی کے علاقائی۔

کسی زمانے میں یہ محاورہ بولا جاتا تھا کہ ایک انار سو بیمار آج "ایک طالبان اور خطے کے کئی ممالک پریشان" زیادہ مقبول ہے۔ طالبان کو استعمال کرنے کا کھیل گذشتہ ایک عشرے سے چل رہا تھا کہ تاجر پیشہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے افغانستان سے کم سے کم آدھے فوجی بلانے کا اعلان کرکے ہلچل مچا دی۔ اس اعلان نے طالبان کے تمام گروہوں، ان کے پروڈیوسروں اور ہدایت کاروں کو حیران و پریشان کر دیا ہے، سب جلدی جلدی میں اپنا اپنا حصہ بٹورنے کے لئے بے تاب ہو رہے ہیں۔ طالبان طالبان، طالبان پاکستان، طالبان امریکہ، طالبان ایران، طالبان قطر، طالبان۔۔۔۔۔ سب ملاقاتوں کا نتیجہ اس وقت تک برآمد نہیں ہوگا، جب تک افغان عوام کے مفاد اور جنگ زدہ ملک افغانستان کی ترقی و پیشرفت، ارضی سالمیت اور اقتدار اعلیٰ کے مستقل سطح پر تحفظ اور احترام کو ترجیح نہیں دی جائیگی۔ افغانستان میں داخلی امن کے لئے ضروری ہے کہ اسلام کے نام پر فرقہ وارانہ تصادم اور طاقت کے بل بوتے پر اپنے نظریات دوسروں پر مسلط کرنے کی روش ترک کی جائے۔ انتہا پسندانہ سوچ اور شدت پسندی کو خیرباد کہا جائے۔ افغانستان کو دوسرے ممالک کی لابیوں کا مرکز بنانے کی بجائے فکری و انتظامی جدوجہد کو نصب العین قرار دے کر ایک نئے عمرانی معاہدے کی طرف بڑھا جائے اور تمام ہمسایہ ممالک سے افغان عوام اور افغانستان کے مفاد کے تناظر میں تعلقات استوار کئے جائیں۔
خبر کا کوڈ : 773546
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
طالبان ایران تعلقات پر تفصیل سے روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے، اسطرح کے آرٹیکل تو تشنگی کو مزید بڑھاوا دیتے ہیں۔
ہماری پیشکش