0
Wednesday 23 Jan 2019 08:14

حملے سے پہلے شکست

حملے سے پہلے شکست
اداریہ
امریکہ نے ایران کے خلاف 13، 14 فروری کو پولینڈ کے شہر وارسا میں ایک عالمی کانفرنس کا اعلان کیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپیئو نے خلیج فارس سمیت مختلف ممالک کے دوروں کے بعد اعلان کیا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں ایران کی منفی پالیسیوں کے خلاف وارسا مین ایک عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا جائے گا، جس میں دنیا کے ستر سے زائد ممالک کے اعلیٰ سطحی وفود شرکت کریں گے اور اس میں ایران کے خلاف باقاعدہ سمجھوتے پر دستخط کئے جائیں گے۔ امریکی وزیر خارجہ کے اس اعلان کے فوراً بعد دنیا کے مختلف ممالک کے حکام اور اعلیٰ سیاسی شخصیات کی طرف سے ردعمل آنا شروع ہوگیا۔ سب سے پہلے یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ فیڈریکا موگرینی نے اس کانفرنس میں شرکت سے انکار کرکے سب کو حیران کر دیا۔ فیڈریکا موگرینی کے بیان کی بازگشت ابھی گونج رہی تھی کہ روس کے وزیر خارجہ نے بھی اس کانفرنس کو غیر اہم قرار دیتے ہوئے اس میں شرکت سے انکار کر دیا۔

روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کھلم کھلا اعلان کیا ہے کہ اس کانفرنس کے انعقاد سے علاقے کے مسائل کے حل میں کوئی مدد ملنے کے حوالے سے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ روس کے نقطہ نگاہ سے اس وقت واشنگٹن اور تل ابیب کا مقصد یہ ہے کہ اس کانفرنس کے ذریعے ایران کے خلاف پابندیوں میں شدت کے ساتھ ساتھ تشہیراتی مہم شروع کرے، تاکہ ایران کے علاقائی اثر و نفوذ کو محدود کرسکے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس کانفرنس کے میزبان یعنی پولینڈ کے وزیر خارجہ نے یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ اور روسی وزیر خارجہ کی عدم شرکت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کانفرنس میں شرکت سے انکار کرنے والے حکام کے بیانات کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ 13، 14 فروری کو ہونے والی کانفرنس میں صرف میں اور مائیک پمپیئو ہی ایران مخالف کسی سمجھوتے پر دستخط کریں گے اور ظاہر ہے کہ اس طرح کے کسی سمجھوتے کی کوئی بین الاقوامی حیثیت اور اہمیت نہیں ہوگی۔ پولینڈ کے وزیر خارجہ کے اس اعتراف کے بعد باآسانی یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ایران مخالف یہ کانفرنس انعقاد سے پہلے ہی ناکامی سے دوچار ہوگئی ہے اور امریکہ کا ایک اور حملہ، حملے سے پہلے ہہی شکست سے دوچار ہوچکا ہے۔
خبر کا کوڈ : 773666
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش