0
Wednesday 23 Jan 2019 19:05

بڑے سمگلروں کی نشاندہی اور حکومتی اقدامات

بڑے سمگلروں کی نشاندہی اور حکومتی اقدامات
رپورٹ: ایس علی حیدر

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے قبائی اضلاع میں سمگلنگ میں ملوث عناصر میں سے 130 بڑے سمگلروں کی فہرست تیار کرلی ہے اور ان کے خلاف موثر کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لنڈی کوتل سے پشاور اور پشاور سے پنجاب غیرملکی کپڑا، سپیئر پارٹس، چائے اور دیگر سامان کی سمگلنگ میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی شامل ہیں۔ کسٹم انٹیلی جنس نے رپورٹ ایف بی آر کے حوالے کر دی ہے جس میں 50 خواتین سمگلروں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ اس تمام تر صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ایف بی آر نے سمگلروں کے نیٹ ورک کو توڑنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ غیرملکی اشیاء کی سمگلنگ سے قومی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کے خسارے کا سامنا ہے۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ نان کسٹم پیڈ غیرملکی اشیاء افغانستان کے راستے سے ہوتے ہوئے قبائلی اضلاع کے ذریعے پشاور پہنچائی جاتی ہیں اور پشاور سے یہی نان کسٹمز آئٹمز پنجاب کے مختلف اضلاع کو سپلائی کئے جاتے ہیں۔ منشیات اور انسانی سمگلروں کی طرح غیرملکی اشیاء کی سمگلنگ میں ملوث عناصر بھی قومی مجرم ہیں اور ملکی معیشت کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔

ایف بی آر کی ہدایات پر کسٹمز انٹیلی جنس نے تو سمگلروں کی فہرست تیار کی ہے تاہم غیرملکی اشیاء کی سمگلنگ میں تعاون کرنے والی حکومتی مشینری اور حکومتی اداروں کے خلاف کون کارروائی کرے گا؟ کیونکہ حکومتی مشینری اور حکومتی اداروں کے تعاون کے بغیر نان کسٹم پیڈ گاڑیوں اور نان کسٹمز پیڈ اشیاء کی سمگلنگ مکن نہیں۔ جب سے پاک افغان سرحد پر باڑ اور بالخصوص طورخم پر پاسپورٹ کے بغیر سفر کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے تب سے آزادانہ طور پر سمگلنگ بند ہوئی ہے۔ تاہم اس کے ناوجود حکومتی مشینری اور حکومتی اداروں کی سرپرستی میں سمگلروں کے وارے نیارے ہیں۔ اب سمگلروں اور ان کے ساتھ تعاون کرنے والے حکومتی اداروں اور مشینری کی غیرقانونی آمدنی میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ اطلاعات کے مطابق زخہ خیل بازار کے راستے غیرملکی نان کسٹمز آئیٹمز سے بھرے فی ٹرک سے 10 لاکھ روپے کی بجائے اب 30 لاکھ روپے رشوت لی جاتی ہے اور بدقسمتی سے یہ رقم قومی خزانے میں جمع نہیں ہورہی ہے بلکہ روزانہ کروڑوں روپے مخصوص جیبوں کو چلے جاتے ہیں۔

عجیب و غریب صورتحال یہ ہے کہ افغانستان کے ساتھ لگی سرحدوں پر پاک فوج اور فرنٹیئر کور کے اہلکار ڈیوٹی دے رہے ہیں۔ سرحدوں کی حفاظت انتہائی سخت ہے اس کے باوجود غیرملکی اشیاء اور منشیات کی سمگلنگ کیوں اور کیسے ہورہی ہے یہ ایک سوالیہ نشان ہے؟ ایک اطلاع کے مطابق نان کسٹمز اشیاء انتہائی سخت سکیورٹی میں کارخانوں مارکیٹ تک پہنچائی جاتی ہیں، نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی سمگلنگ میں حکومتی ادارے سمگلروں کی معاونت کررہے ہیں۔ افغانستان سے پشاور اور خیبر پختونخوا کے دوسرے اضلاع کو نان کسٹمز پیڈ گاڑیوں اور دیگر اشیاء کی زیادہ تر سمگلنگ قبائلی اضلاع خیبر، کرم، شمالی اور جنوبی وزیرستان سے ہوتی ہے۔ پاک افغان سرحد طورخم اور کرم میں افغانستان کے ساتھ لگی ہوئی سرحد سمگلروں کیلئے جنت بن چکی ہے۔ ان سمگلروں کی معاونت کرنے والے حکومتی اداروں کے سربراہان اور ذمہ داروں کو بھاری بھرکم رقم ملتی ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان سے افغانستان اور افغانستان سے پاکستان سمگلنگ رُکنے کا نام نہیں لے رہی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ سمگلروں کے ساتھ ساتھ ان حکومتی اداروں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے جو سمگلنگ میں معاونت کرتے ہیں۔ معاونت کرنے والوں کے ہاتھ بہت لمبے ہیں ان پر ہاتھ ڈالنا مشکل اور کٹھن مرحلہ ہے، تاہم ایف بی آر سمیت وفاقی حکومت کو سخت فیصلے کرنے ہونگے۔ اگر حکومتی اداروں نے سمگلروں کے تعاون سے ہاتھ کھینچ لیا تو اسی روز سمگلنگ رُک جائے گی۔ قبائلی اضلاع میں انٹیلی جنس اداروں کا مضبوط نیٹ ورک قائم ہے اس کے باوجود نان کسٹم پیڈ گاڑیوں اور دیگر نان کسٹمز پیڈ اشیاء کی سمگلنگ نہیں رک رہی جس کیوجہ سے ذہنوں میں یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ آخر کار ان انٹیلی جنس اداروں کی موجودگی کا کیا فائدہ ہے؟ اگر ان انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ہوتے ہوئے سمگلنگ ہورہی ہے تو ان کی کارکردگی پر سوال تو بنتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 773803
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش