0
Thursday 24 Jan 2019 07:51

امریکہ غلطی کا اعتراف کرے

امریکہ غلطی کا اعتراف کرے
اداریہ
افغانستان کے چیف ایگزیکٹو نے کہا ہے کہ ملک میں امن و امان کی برقراری کے بعد امریکی فوجی موجودگی کی ضرورت نہیں رہے گی۔ افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے دائوس میں منعقدہ عالمی اقتصادی فورم کے موقع پر یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ افغانستان اور امریکہ کے درمیان افغانستان میں امریکہ کے مستقل فوجی اڈوں کی موجودگی کی کوئی شق شامل نہیں ہے، لہذا افغانستان میں امن و سلامتی کے قیام کے بعد کسی ایک بھی غیر ملکی فوجی کی افغانستان میں موجودگی کا کوئی جواز نہیں رہے گا۔ دوسری طرف ایکسپریس ٹریبونل نامی اخبار نے جنوری کے اوائل میں افغان حکومت کے حوالے سے اپنے تجزیے میں لکھا تھا کہ امریکہ نے متحدہ عرب امارات میں طالبان سے ہونے والے مذاکرات میں افغانستان میں امریکی فوجی اڈوں کے باقی رہنے پر تاکید کی ہے۔ اس اخبار کی رپورٹ سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ طالبان سے جاری مذاکرات میں طالبان کو اس بات پر آمادہ کر رہا ہے کہ وہ افغانستان میں امریکی اڈوں کی موجودگی کو قبول کر لیں۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہو رہی ہے کہ امریکہ کے لئے افغانستان میں امن و امان کا تحفظ ضروری نہیں بلکہ وہ یہ سب کچھ اپنے موجودگی کے مصنوعی جواز کے لئے کر رہا ہے۔ اففانستان اور امریکہ کے درمیان 2014ء میں منعقد ہونے والے معاہدے میں امریکہ کی فوجی موجودگی کو قبول کیا گیا ہے، تاہم افغانستان کے چیف ایگزیکٹو کے اس حالیہ بیان سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ممکن ہے اس معاہدے کی مدت کے خاتمے کے بعد افغانستان کی حکومت اس معاہدے پر دوبارہ دستخط نہ کرے۔

واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے امریکی تجزیہ نگار رچرڈ کوہن لکھتے ہیں "امریکہ کی پالیسیوں پر نگاہ ڈالی جائے تو اس سے محسوس ہوتا ہے کہ اففانستان میں جنگ کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ امریکہ اس جنگ میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتا، لہذا اسے چاہیئے کہ افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کی حقیقت کو تسلیم کرے۔ افغان حکومت یہ سمجھتی ہے کہ اگر افغانستان کے تمام سیاسی گروہ ملک میں امن و صلح کی برقراری پر متفق ہو جائیں تو نہ صرف افغانستان میں غیر ملکی فوجوں کی ضرروت نہیں رہے گی بلکہ یہ ملک خطے میں امن و سلامتی اور سیاسی استحکام کا محفوظ مورچہ بن جائے گا۔بلاشک و شبہ یہ صورتحال افغانستان کے سیاسی و سماجی ماحول، جس میں غیروں کو قبول نہ کرنا شامل ہے، سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہوگی، البتہ اس سے ایک اور بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ امریکی تصورات کے خلاف افغان عوام امریکہ کو اپنے ملک میں مستقل بنیادوں پر قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

اسے سے پہلے افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے بھی ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ افغانستان میں گذشتہ اٹھارہ سالوں میں ناامنی، عدم استحکام اور دہشت گردی کی اصل وجہ افغانستان کے حوالے سے امریکہ کی غلط پالیسیاں ہیں۔ حامد کرزئی نے یہ بات زور دے کر کہی کہ دوسری بڑی مشکل یہ ہے کہ امریکہ اپنی ان غلطیوں کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ بہرحال امریکہ افغانستان کو اپنے ایک فوجی اڈے میں تبدیل کرکے علاقے میں انتہاء پسندی اور دہشت گردی کے ٹرانزیٹ کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو اس سے افغانستان میں بدامنی، افراتفری اور سیاسی و فوجی بحران جاری رہے گا، جس کا حتمی نتیجہ یہ برآمد ہوگا کہ افغانستان میں سماجی اور اقتصادی ترقی کے مختلف منصوبے مزید تاخیر کا شکار ہو جائیں گے نیز اس ملک کے عوام مستقبل میں بھی جنگ و جدل، منشیات کی پیداوار، بیرونی طاقتوں کی آماجگاہ، سیاسی عدم استحکام اور سماجی افراتفری جیسے بحرانوں میں مبتلا رہیں گے۔
خبر کا کوڈ : 773910
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش