0
Friday 25 Jan 2019 23:16

یورپ امریکہ سے اسٹریٹجک خودمختاری کی کوشش میں

یورپ امریکہ سے اسٹریٹجک خودمختاری کی کوشش میں
تحریر: ڈاکٹر سید رضا میر طاہر

ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکہ کے صدر بننے کے بعد امریکہ اور یورپی یونین میں اختلافات پیدا ہونا شروع ہو گئے۔ یہ اختلافات خاص طور پر دفاعی امور، نیٹو کی اہمیت اور کردار اور یورپی یونین سے برطانیہ کے نکل جانے (بریگزٹ) سے متعلق ہیں۔ ان اختلافات کے باعث یورپی ممالک نے دفاعی اور سکیورٹی شعبوں میں علیحدہ حکمت عملی کے تحت اقدامات انجام دینا شروع کر دیے ہیں۔ یورپ کے بڑے اور اہم ممالک یعنی فرانس اور جرمنی کے حکمران اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی یکطرفہ اور دھونس پر مبنی پالیسیوں کے تناظر میں یورپ کی سکیورٹی کیلئے واشنگٹن پر انحصار ممکن نہیں رہا لہذا یورپی ممالک کو خود اپنے دفاع اور سکیورٹی کے بارے میں سوچنا ہو گا۔ خاص طور پر یہ کہ امریکی صدر بارہا نیٹو کے اخراجات میں یورپی ممالک کے حصے کو بڑھانے پر زور دے چکے ہیں اور اس مقصد کیلئے یورپی ممالک پر دباو ڈال رہے ہیں۔ دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ کئی بار یہ دھمکی بھی دے چکے ہیں کہ اگر یورپی حکام نے ان کے مطالبات پورے نہ کئے تو وہ نیٹو چھوڑ دیں گے۔
 
اس وقت جرمنی اور فرانس کے حکام یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ انہیں جلد از جلد یورپ سے مخصوص خودمختار فوجی اور دفاعی سیٹ اپ تشکیل دینا ہے جس میں یورپی فوج کی تشکیل بھی شامل ہے۔ لہذا جرمنی کی صدر اینگلا مرکل اور فرانس کے صدر ایمونوئل میکرون نے مشترکہ موقف اپناتے ہوئے یورپی فوج کی تشکیل کی بات کی ہے جس کے خلاف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منفی ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں کہا ہے: "میں نے نیٹو رکن ممالک پر واضح کر دیا ہے کہ اگر انہوں نے اخراجات برداشت نہ کئے تو امریکہ نیٹو سے باہر نکل جائے گا۔" فرانس کے صدر ایمونوئل میکرون نے گذشتہ برس کے آخر میں ایک خودمختار یورپی سکیورٹی سیٹ اپ کی بات کی تھی جس پر امریکی صدر نے شدید تنقید کی تھی۔ دوسری جرمنی کی صدر اینگلا مرکل نے فرانس کے صدر کے اس موقف کی حمایت کی تھی۔ اسی تناظر میں منگل 22 جنوری کو فرانس اور جرمنی کے سربراہان مملکت کے درمیان ایک اہم معاہدہ طے پایا ہے جسے "دوستی اور تعاون" کا معاہدہ کہا گیا ہے۔ اس معاہدے میں یورپی فوج کی تشکیل پر زور دیا گیا ہے۔
 
فرانس اور جرمنی کے درمیان طے پانے والے دوستی اور تعاون معاہدے میں کہا گیا ہے: "دونوں ممالک خارجہ پالیسی، دفاعی امور، سکیورٹی اور ملکی ترقی کے شعبوں میں ایکدوسرے سے قریبی تعاون کریں گے۔ اسی طرح خودمختار اقدامات انجام دینے میں یورپ کی صلاحیتوں کو بھی بڑھایا جائے گا۔" اس معاہدے میں پیرس اور برلن کے درمیان سکیورٹی شعبے میں قریبی تعاون پر زور دیا گیا ہے اور دونوں ممالک نے عہد کیا ہے کہ کسی بھی فوجی خطرے کے مقابلے میں دونوں مل کر دفاع کریں گے۔ دوستی اور تعاون معاہدے میں کہا گیا ہے کہ فرانس اور جرمنی مل کر ایک مشترکہ سکیورٹی و دفاعی کونسل تشکیل دیں گے۔ اس سے پہلے جرمنی کی صدر اینگلا مرکل نے نومبر 2018ء میں پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے یورپ کی مشترکہ فوجی کی تشکیل پر زور دیا تھا اور اسے "نیٹو کا اچھا ساتھی" قرار دیا تھا۔ دوسری طرف فرانس کے صدر ایمونوئل میکرون بھی یورپ کی دفاعی خودمختاری پر زور دیتے ہیں اور یورپی فوج کی تشکیل کے ساتھ ساتھ یورپی ممالک کے درمیان دفاعی تعاون بڑھانے پر تاکید کرتے ہیں۔
 
دوسری طرف یورپی فوج کی تشکیل کا نظریہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ برس کے آخر میں اپنے فرانس کے دورے کے دوران فرانس کے صدر کی جانب سے یورپی فوج کی تشکیل پر مبنی نظریے کو "توہین آمیز" قرار دیا تھا اور کہا تھا: "بہتر ہے یورپ مشترکہ فوج تشکیل دینے کی بجائے نیٹو کے اخراجات میں اپنا حصہ ادا کرے جس کے زیادہ تر اخراجات امریکہ کے ذمے ہیں۔" امریکی صدر کا یہ موقف درحقیقت یورپی ممالک کی جانب سے دفاعی اور سکیورٹی امور میں امریکہ پر انحصار ختم کرنے کی کوششوں پر واشنگٹن کی پریشانی ظاہر کرتا ہے۔ یورپ کی سکیورٹی سے متعلق یہ اختلاف اب مزید وسعت اختیار کر چکا ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ نے تاریخی تجربے کی یاددہانی کرواتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ یورپ اس وقت امریکہ کی سکیورٹی اور فوجی مدد کے بغیر اپنی خودمختاری محفوظ بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ دوسری طرف فرانس کے صدر ایمونوئل میکرون کا دعوی ہے کہ یورپی فوج کی تشکیل کا مقصد نیٹو کو کمزور کرنا نہیں بلکہ نیٹو بدستور ایک اہم اور اسٹریٹجک باقی رہے گا۔
خبر کا کوڈ : 774250
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش