0
Sunday 27 Jan 2019 23:36

وینزویلا میں مشرق اور مغرب آمنے سامنے

وینزویلا میں مشرق اور مغرب آمنے سامنے
تحریر: رضا حجت

عالمی سطح پر شدت اختیار کرتے ہوئے بحران نے ان دنوں وینزویلا میں اپنے وجود کا اظہار کیا ہے۔ یہ بحران اس وقت معرض وجود میں آیا جب سابق سوویت یونین کے زوال اور چین کی جانب سے 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں عالمی سطح پر سیاسی اور فوجی معاملات میں مداخلت کرنے سے پرہیز کرنے کے بعد امریکہ نے دنیا کا مرکز بننے کی کوشش شروع کر دی۔ لیکن ایک عشرے سے بھی کم عرصے میں روس بھی بین الاقوامی سیاست میں واپس آنا شروع ہو گیا جبکہ چین بھی اپنی اقتصادی طاقت پر سوار ہو کر عالمی سطح پر سیاسی میدان میں اثرانداز ہونے کی کوشش کرنے لگا۔ ماضی کے بائیں بازو والے رجحانات اور موجودہ استعمار مخالف نظریات نے چین اور روس کو ایسے اتحادی ممالک میں تبدیل کر دیا ہے جن کا مدمقابل امریکہ ہے اور وہ عالمی سطح پر فیصلہ ساز میدانوں میں واپس آنا چاہتے ہیں۔
 
دوسری طرف مغربی ایشیا میں بھی ایران اپنے اسلامی انقلاب کے ساتھ امریکی آرڈر کے خاتمے اور نئے ورلڈ آرڈر کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ یہ رجحانات جو 2010ء میں مشرق وسطی میں انقلابی تبدیلیوں کے ہمراہ ہو گئے استعمار مخالف ممالک کا اسلامی مزاحمت کے مرکز کے طور پر ایران کے قریب آنے کا باعث بنے۔ اس کی واضح ترین مثال شام ہے۔ ایسے میں امریکہ کا صدر ایسا شخص ہے جو ہر لمحہ دنیا کے کسی حصے میں بحران پیدا کرنے کا محتاج ہے۔ اس تناظر میں ڈونلڈ ٹرمپ کو عالمی نظام میں ایک "انارکی کا خواہاں شخص" قرار دیا جا سکتا ہے۔ لیکن جب یوکرائن، شمالی کوریا، شام وغیرہ میں اسے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوئے تو اس نے وینزویلا کا انتخاب کیا۔ خاص طور پر ایسے وقت جب موجود شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ ایران مخالف وارسا اجلاس میں بھی مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر پائے گا۔ لہذا بحران ساز پالیسیوں کا رخ اس وقت جنوبی امریکہ کی سمت ہو چکا ہے۔
 
ایسا دکھائی دیتا ہے کہ تاریخ کے اس اہم موڑ پر امریکہ ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ "مخالف ممالک میں بدامنی اور بغاوت ایجاد کر کے کٹھ پتلی قوتوں کو سامنے لانا۔" یوں ایک طرف دنیا میں نیا بحران پیدا ہو جائے گا اور دوسری طرف وینزویلا میں خوان گوایدو کی طرح ہر حکومت کے مخالفین کو قانونی حیثیت دے کر امریکہ کے حق میں سیاسی تبدیلی کا امکان بھی پیدا ہو جائے گا۔ اگر امریکہ کی یہ نئی پالیسی وینزویلا میں کامیابی سے ہمکنار ہو جاتی ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اسے دیگر ممالک میں بھی آزمانے کی کوشش کرے گا۔ امریکہ گذشتہ چند برس میں لاطینی امریکہ میں روس، چین، ایران وغیرہ کی موجودگی اور سرگرمیوں کے بارے میں بہت زیادہ حساس ہو چکا ہے۔ مثال کے طور پر برازیل جو روس اور چین سے قربتیں بڑھا کر بریکس اتحاد میں شامل ہونے کے بعد ایک نئی اقتصادی طاقت بن کر ابھر رہا تھا گذشتہ چند سالوں میں امریکی مداخلت کے بعد اپنی برتر اقتصادی پوزیشن کھو چکا ہے۔
 
ان اقدامات نے دنیا کو ایک بار پھر دو بلاکس میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک بلاک امریکہ کا اتحادی جبکہ دوسرا بلاک امریکہ مخالف ہے۔ بعض مغربی ممالک جیسے کینیڈا، برطانیہ اور حتی جرمنی اور فرانس امریکہ کے حامی ممالک ہیں جبکہ روس، چین، ایران، ترکی امریکہ کی مخالفت میں قدم اٹھا رہے ہیں۔ یہ صورتحال انسان کے ذہن میں سرد جنگ والے زمانے کی یاد تازہ کر دیتی ہے۔ البتہ اس بار روس اور چین ماضی کے تجربات سے سبق سیکھ چکے ہیں۔ یہ دونوں ممالک 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں کے برعکس اب آپس میں ٹکر نہیں لیتے۔ روس زیادہ تر سکیورٹی ایشوز پر زور دیتا ہے جبکہ چین نے اقتصادی طریقہ کار اپنا رکھا ہے۔ البتہ دونوں نے امریکہ سے مخالفت پر مبنی مشترکہ نکتہ اختیار کر رکھا ہے۔ اسی طرح روس اور چین ماضی کے برعکس علاقائی اور عالمی سطح پر اتحاد سازی کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ اس کی ایک مثال روس کا ایران اور ترکی سے اتحاد ہے۔ دوسری طرف امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ جیسی شخصیت نے دیگر ممالک حتی مغربی ممالک سے اتحاد سازی کی راہ میں بہت زیادہ مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ یورپ میں بھی قومیت پرستانہ رجحانات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ لہذا ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اس بار جو نظام ٹوٹے گا وہ امریکہ اور مغرب کا نظام ہو گا۔
خبر کا کوڈ : 774638
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش