0
Monday 28 Jan 2019 03:43
حکومت، پاک فوج، عدلیہ پہ مقررین کی کڑی تنقید

جے یو آئی (ف) کے ملین مارچ کا مکمل احوال

اسلامی نظام کا نفاذ ہی نظریہ پاکستان کی تکمیل کا باعث بنے گا، مولانا فضل الرحمن
جے یو آئی (ف) کے ملین مارچ کا مکمل احوال
رپورٹ: عمران خان

ڈیرہ اسماعیل خان میں تحفظ ناموس رسالت ملین مارچ کے نام پہ جعمیت علماء اسلام (ف) کا عوامی پاور شو پرامن طور پہ اختتام پذیر ہوگیا ہے۔ جمعیت علماء اسلام (ف) اور متحدہ مجلس عمل میں شامل مذہبی جماعتوں کا یہ مشترکہ ملین مارچ ڈی آئی خان کے لوگوں کے لیے اس لحاظ سے منفرد تھا کہ شہر کے وسط اور مرکزی چوک پہ ہونے والے اس ملین مارچ میں ڈی آئی خان کی مقامی آبادی کی شرکت تو خال خال تھی جبکہ دیگر علاقوں سے آنے والے ہزاروں افراد نے بھرپور شرکت کی۔ ڈی آئی خان سٹی اور تحصیل کے عہدیداران ڈی آئی خان میں موجود ہونے کے باوجود اس ملین مارچ میں شریک نہیں ہو پائے۔ جے یو آئی (ف) کے مقامی عہدیداران ملین مارچ کے انتظامات سے بھی دور رہے، جس کی وجہ سے انتظامات میں بہتری کی گنجائش بہرحال واضح طور پر محسوس کی گئی۔ ایک روز قبل جے یو آئی اور ایم ایم اے خیبر پختونخوا کے امیر کی پریس کانفرنس میں ناخوشگوار واقعہ کے بعد مقامی صحافیوں نے اس پروگرام کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا، تاہم عملی طور پر یہ بائیکاٹ نہیں ہوا۔

ملین مارچ تیاری اور راستوں کی غیر ضروری بندش
سٹیج کی تیاری کے نام پر 26 جنوری کو رات 9 بجے سے ہی جمعیت علماء اسلام کی ڈنڈا بردار فورس نے پولیس کے تعاون سے مختلف مقامات پہ سرکلر روڈ کو آمدورفت کیلئے بند کرنا شروع کر دیا چونکہ ملین مارچ کا سٹیج ڈسٹرکٹ سول ہسپتال کے مرکزی دروازے سے قدرے فاصلے پہ بنایا جانا تھا، جس کے باعث ہسپتال کا راستہ مریضوں بالخصوص ایمبولینسز کیلئے عملی طور پر بند ہوکر رہ گیا۔ دوسری جانب مرکزی انجمن تاجران نے جی پی او چوک سے فوارہ چوک کے درمیان تمام دکانداروں اور دفاتر کو بند رکھنے کا نوٹس جاری کیا تھا، جس کی وجہ سے مقامی شہریوں نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ راستوں کی بندش کی وجہ سے ڈنڈا بردار فورس کے جوانوں اور مقامی شہریوں کے درمیان مختلف مقامات پہ تکرار بھی ہوئی، تاہم کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ البتہ کئی مریضوں کو کندھوں یا کمر پہ اٹھا کر تقریباً سوا کلومیٹر پیدل چل کر ہسپتال منتقل کیا گیا۔

قافلوں کیصورت میں شرکاء کی آمد اور سکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات
گرچہ مقامی شہری آبادی نے تو ملین مارچ میں اپنی دلچسپی ظاہر نہیں کی مگر مضافاتی دیہی علاقوں، ایف آر ڈیرہ، ایف آر ٹانک، لکی، بنوں، کرک، پیزو، ٹانک، کلاچی و دیگر علاقوں سے شہریوں اور مدارس کے طالب علموں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ ہزاروں افراد پہ مشتمل سینکڑوں قافلوں کی آمد کا سلسلہ صبح سے لیکر نماز عصر تک جاری رہا۔ قافلوں کی گاڑیوں کیلئے پارکنگ کا انتظام مختلف مقامات پہ کیا گیا تھا۔ سکیورٹی کے انتظامات ایک دن پہلے مکمل کر لئے گئے تھے جبکہ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سمیت دیگر افسران ملین کے دوران کے موقع پہ موجود رہے۔ ملین مارچ کے موقع پہ شہر بھر میں سکیورٹی کے خصوصی انتظامات کئے گئے تھے۔ پنڈال سے لیکر ابتدائی داخلی دروازوں کے درمیان موجود تمام گلیوں اور گزرگاہوں کو مکمل طور پر سیل کیا گیا جبکہ سرکلر روڈ سمیت شہر کے تمام داخلی و خارجی مقامات پہ پولیس اور ایلیٹ کے جوان مستعد رہے۔ افسران بالا موقع پہ موجود جبکہ ٹریفک پولیس کے اہلکار ہر موڑ پہ ہمہ وقت دستیاب رہے۔

شرکاء کی تعداد اور انتظامات
انٹیلی جنس ذرائع اور سپیشل برانچ کے اہلکاروں نے اپنی رپورٹس میں جمعیت علماء اسلام کے ملین مارچ میں شرکاء کی تعداد 25 سے 27 ہزار بتائی ہے۔ مقامی میڈیا نے شرکاء کی تعداد 35 سے 50 ہزار کے درمیان بتائی ہے جبکہ منتظمین نے دعویٰ کیا ہے کہ ملین مارچ میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد شریک تھے۔ تحفظ ناموس رسالت ملین مارچ کے شرکاء کیلئے نماز، طہارت اور کھانے کا مناسب انتظام نہیں کیا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے نمازی شرکاء سڑک، فٹ پاتھ، گلیوں، پارکنگ
سمیت کوٹلی امام حسین (ع) بشمول شہداء کی مقابر کے نزدیک نماز ادا کرتے رہے۔

مقررین کے خطاب 
ڈیرہ اسماعیل خان میں جے یو آئی کے ملین مارچ سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ، متحدہ مجلس عمل میں شامل دینی جماعتوں کے قائدین علامہ علی محمد ابو تراب، مولانا سعید یوسف، مولانا عطاء الرحمن، مولانا راشد محمود سومرو، صوبائی صدر مولانا گل نصیب خان، مفتی کفایت اللہ اور دیگر قائدین نے خطاب کیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کو دھاندلی زدہ اور بیرونی ایجنڈے پہ قائم ہونے والی یہود دوست حکومت قرار دیا۔ مقررین نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ایک اسلامی، نظریاتی ریاست قرار دیتے ہوئے عالم اسلام کی قوت و طاقت کی علامت بتایا۔ مقررین کا کہنا تھا کہ گذشتہ انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے پی ٹی آئی کو اقتدار میں لایا گیا ہے۔ جو قوتیں پی ٹی آئی کو اقتدار میں لائی ہیں، وہ ملک و قوم کی خیرخواہ نہیں ہیں بلکہ وہ اس حکومت کے ذریعے یہاں کے شہریوں سے ان کا تشخص، ان کی پہچان اور ان کا ایمان چھین کر انہیں فحاشی و عریانی میں دھکیلنا چاہتی ہیں مگر اس حکومت کو ہم اپنے ایجنڈے میں کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ مقررین نے الزام عائد کیا کہ موجودہ حکومت اسرائیل اور بھارت کیلئے نرم گوشہ رکھتی ہے۔ اس لیے ایک طرف اسرائیل کے ساتھ راستے کھول رہی ہے تو دوسری طرف بھارت کیساتھ بھی۔ نیز یہ کہ حکومت عام آدمی کیلئے باعث زحمت ثابت ہوئی ہے۔

مولانا فضل الرحمان جلد ہی وزیراعظم ہونگے، مولانا عبدالجلیل خان
تحفظ ناموس رسالت ملین مارچ سے خطاب کرتے ہوئے مولانا عبدلجلیل خان کا کہنا تھا کہ قیام پاکستان میں ہمارے اکابرین کا خون شامل ہے۔ پاکستان کا مطلب کیا ہے، لاالہ الاللہ کے لیے یہ ملک بنا ہے۔ ہم اس ملک کے آئین و قانون میں کلمہ ہی چاہتے ہیں اور یہاں کے عوام بھی یہی چاہتے ہیں۔ ہم نے اس ملک کیلئے قربانیاں دی ہیں۔ ہمارے جلیل القدر علماء کرام کو شہید کیا گیا۔ ہمارے مولانا سمیع الحق کو شہید کیا گیا۔ ہم ہر قسم کی قربانی دینے کیلئے تیار ہیں۔ جو لوگ ختم نبوت سے انکار کرتے ہیں، اسرائیل کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ ان کو ہم کبھی بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قیادت نہیں کرنے دیں گے۔ جلد ہی جے یو آئی کی حکومت ہوگی اور مولانا فضل الرحمن وزیراعظم ہوں گے۔ جو لوگ پارلیمنٹ میں پہنچے ہیں، وہ ہمیں نامنظور ہیں۔ دعا ہے کہ ہمیں پیغمبر نبی کریم کی شفاعت روز قیامت حاصل ہو۔ آمین

حکومت عوامی ردعمل دیکھنے کیلئے متنازعہ فیصلے کرتی ہے، اکرم خان درانی
سابق ممبر قومی اسمبلی اور جے یو آئی کے مرکزی رہنما الحاج اکرم خان درانی نے بلوچی اور پشتو میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس خطے کے عوام، اس علاقے کے عوام غیرت مند ہیں جو کہ ناموس رسالت پہ کٹ مرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت مختلف اقدامات کے ذریعے ردعمل کا درجہ حرارت دیکھنا چاہتی ہے۔ اکرم خان درانی نے کہا کہ موجودہ حکومت نے پہلے آسیہ بی بی کو رہا کیا۔ اس پہ انہوں نے عوام کا ردعمل چیک کیا۔ پھر اس کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیا۔ یہ چیزیں عوامی ردعمل کو جانچنے کیلئے ہیں۔ اگر حکومت عوام کا ردعمل دیکھنے کی طلبگار ہے تو آج وہ مشاہدہ کرلے کہ عوام کیا چاہتے ہیں۔ جب بھی مناسب عوامی ردعمل آتا ہے تو یہ لوگ اپنے فیصلے واپس لیتے ہیں۔ ساہی وال کے معاملے پہ سپریم کورٹ سے گزارش ہے کہ وہ لارجر بینچ تشکیل دے۔

لوگ ہمیں ووٹ دیتے ہیں پھر بھی ہمارے باکس خالی نکلتے ہیں، مولانا عبدالغفور حیدری
جمعیت علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری جنرل، مولانا عبدالغفور حیدری نے اپنی تقریر کا آغاز علامہ اقبال کے اس مشہور زمانہ شعر سے کیا کہ جو سرکاری سکولوں کے پرائمری لیول کے بچے بچے کو ازبر
ہے۔ 
کی محمد (ص) سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں

تاہم مولانا عبدالغفور حیدری نے مفکر پاکستان کے اس شعرہ آفاق شعر کو غلط پڑھ کر اس کا حلیہ ہی بگاڑ دیا۔ ملین مارچ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے مولانا عبدالغفور حیدری کا کہنا تھا کہ ’’سلیکٹڈ وزیراعظم دیکھ لے کہ تا حد نگاہ لوگوں کا ہجوم ہے۔ جے یو آئی کے ساتھ ڈیرہ کے لوگ اظہار یکجہتی کر رہے ہیں۔ ڈیرہ کا ایم این اے بھی دیکھ لے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم آج کہتے ہیں کہ مجھے پتہ نہیں چلتا، پیرنی بتاتی ہیں کہ میں وزیراعظم ہوں، اب اس کیلئے کیا آپ کے لباس جوتوں پہ ٹیگ ہونے چاہیئے۔

مولانا عبدالغفور حیدری نے وزیراعظم پہ طنز کرتے ہوئے لطیفہ سنایا کہ ایک گاؤں میں جب گئے تو وہاں کی مسجد کا پیش نماز انتہائی مجہول سا شخص تھا۔ جس کے کپڑے، جوتے اور لباس اچھے نہیں تھے۔ گاوں کے چوہدری سے سوال کیا کہ تم نے یہ کیسا پیش نماز رکھا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ پیش نماز درحقیقت چور تھا۔ جب ہم نماز پڑھتے تو یہ جوتیاں چوری کرکے بھاگ جاتا تھا، ہم نے اس کا حل یہ نکالا کہ اسی کو ہم نے پیش نماز بنا لیا ہے۔ اب یہ ہمارے آگے ہوگا اور ہماری جوتیاں محفوظ رہیں گی۔ ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا ہے، جس سے جوتوں کی چوری کا خدشہ تھا، اس کو حکمران بنا دیا گیا ہے، تاہم قیادت کی موجودگی میں کہتا ہوں کہ یہ حکمران زیادہ دیر تک مسلط نہیں رہیں گے۔ مولانا عبدالغفور حیدری کا کہنا تھا کہ یہ کیسی حکومت ہے کہ جو اثاثے بیچ بیچ کر بجٹ پیش کرتے ہیں۔ کارکردگی یہ ہے کہ چھ ماہ میں تین بجٹ پیش کئے۔ موجودہ حکومت کے دور میں مہنگائی کا طوفان آچکا ہے، ان میں صلاحیت کا فقدان ہے۔

مولانا عبدالغفور حیدری کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے حکمران یہودی لابی کے لوگ ہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ ہماری فوج، ہماری آرمی، جنرل باجوہ کو کیا ہوا کہ اس میں کیا دیکھ لیا کہ اس کو اقتدار دیدیا۔ ایسے لوگوں کو ہمارے اوپر مسلط کر دیا۔ حالانکہ ہم اس ادارے کو وحدت و سلامتی کا ادارہ سمھتے ہیں۔ جو تم نے کیا وہ اچھا نہیں کیا۔ اس ملک کو ہمیں ترقی دینا ہے۔ اس کے نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ ہمارا راستہ مت روکیں۔ ووٹ لوگ دیتے ہیں، ہمارے بکسے خالی آتے ہیں۔ ہم بھکاری بن گئے ہیں۔ آرمی چیف، چیف جسٹس، وزیراعظم ملکر چندے کر رہے ہیں۔ ماضی میں چندے کیلئے آف شور کمپنیاں بنائیں۔ تینوں نے ملکر چندہ کیا، نو ارب بھی نہیں کرسکتے۔ بھکاری تم بنے قوم میں عادت ڈالی۔ علیمہ خان کو کون چندہ دیے گا۔ ان کا پیچھا چھوڑ دیں، تاکہ لوگ انہیں نیچے اتاریں۔

ساہیوال کیس حساس اداروں کی اطلاع پہ ہوا، حساس اداروں کو ختم کر دینا چاہیئے، مولانا اویس شاہ نورانی
ایم ایم اے ترجمان، جے یو پی کے مرکزی سیکرٹری جنرل نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان میں بہت سے لوگ تین قوتوں کے خلاف بھرپور محاذ کھولے ہوئے ہیں اور ان کو انتہاء پسندی، دہشتگرد، مولوی ازم کے نام پہ ایک معاشرے کے اندر بدنما کرکے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں حکومت ٹیریان کے ابو کی ہے۔ انہیں پاکستان پہ اس لیے مسلط کیا گیا ہے کہ اس قوم کو عریانی و فحاشی میں داخل کیا جائے اور دینی قوتوں کو بدنام کرنے کیلئے ان کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ جو لوگ حفاظت کیلئے تعین کئے گئے، وہ درندے بن گئے ہیں۔ ساہیوال کا کیس حساس اداروں کی رپورٹ پہ کیا گیا، حساس اداروں کو ختم کر دینا چاہیئے، جو چوکوں پہ چوراہوں پہ بندوں کو مارنے کا باعث ہیں۔ ایک چیف جسٹس ریٹائرڈ ہوکر تاریخ کے کوڑے دان میں جاچکا ہے۔ تاریخ میں مفتی محمود اور شاہ نورانی کا نام زندہ ہے۔ مسلمانوں کے زوال کی نشانی موجودہ حکمران ہیں۔ آج زوال اس لیے کہ صادق و امین کی نشانی زانی اور شرابی ہے۔ عدالتوں کے
فیصلے نہ کل قوم نے تسلیم کئے نہ آج کئے۔ ستر سال گزر گئے، اس کے بعد قوم کو مسیحا کی تلاش ہے۔

ہم یہ کہتے ہیں قوم کو کسی مسیحا کی تلاش نہیں بلکہ قوم اگر کلمہ کی بنیاد پہ اکٹھی ہو جائے تو دنیا پہ واضح ہو جائے کہ دینی قوتیں کل بھی اور آج بھی زندہ اور آگے ہیں۔ قوم پریشان ہے۔ کل ایک خبر آئی کہ امریکی فوج افغانستان سے انخلا کرے گی۔ میں یاد کر رہا تھا کہ سابق امریکی صدر جارج بش نے اقوام متحدہ میں تقریر کے دوران کہا تھا کہ ہم سپرپاور تھے، ہیں اور رہینگے۔ پاکستان کی سرزمین سے ایم ایم اے کے اکابرین نے پیغام دیا تھا کہ امریکہ اگر پاکستان پہ حملہ کر بھی دیگا، تب بھی امریکہ کا قبرستان افغانستان بنے گا۔ جو امریکہ عراق، افغانستان کو حاصل کرنے کیلئے اپنے اسلحہ کی نمائش سے لاکھوں کا خون کرکے وہ قابض ہو جائے گا، تو وہ ان کا اپنا قبرستان موجود ہے۔ جنہوں نے جہاد کیا، پرویز مشرف نے ان کا سودا کرنے کی کوشش کی۔ مشرف نے علماء کا وفد تیار کرکے کوشش کی کہ انہیں افغانستان بھیج دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنا موقف ضرور دینگے مگر امریکہ کا موقف ہرگز نہیں دینگے۔ وہاں بزرگ مجاہد نے اپنے خطاب میں یہ کہا کہ جہاد جاری رکھیں گے۔ آج افغانستان امریکہ سے پاک ہونے جا رہا ہے۔ یہ کسی ٹھیکیدار کا کام نہیں ہے اور کوئی اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش نہ کرے۔ تمہارا سیاہ چہرہ لوگوں نے دیکھ لیا ہے۔

مولانا فضل الرحمان آج اسمبلی میں تو نہیں مگر ہر صالح پاکستانی کے دل میں ہیں، حافظ منیر احمد خان
ملین مارچ سے خطاب کرتے ہوئے حافظ منیر احمد خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے تشخص پہ، ناموس رسالت، نظام مصطفیٰ پہ حرف نہیں آنے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ڈی آئی خان کے عوام نے انتخابات سے متعلق ہمارا شکوہ دور کر دیا ہے۔ ملک کی ہر گلی کوچے میں حفاظ، مقرر، مصنف، مفتی،مولوی پیدا ہوئے مگر ڈیرہ کی سرزمین نے علماء کا لیڈر پیدا کیا۔ ہمارا شکوہ تو یہ تھا کہ آپ نے انتخاب میں ساتھ نہیں دیا، مگر مجھے یقین ہوگیا ہے کہ بات یہ نہی،ں بات کچھ اور ہے۔ بقول شخصے کچھ قوتوں کو علم و دین کی یہ اعلٰی آواز اسمبلی میں پسند نہیں تھی، جس کی وجہ سے محبوب قائد کو اسمبلی سے روکا۔ مولانا فضل الرحمان آج اسمبلی میں تو نہیں مگر ہر صالح پاکستان کے دل میں میرا قائد بولتا ہے۔ دیا بجھے گا تو سحر ہوگی۔

پاکستان میں اسرائیل کے ایجنٹ کی حکومت آگئی ہے، مولانا فضل الرحمن سربراہ جے یو آئی کا خطاب
ملین مارچ سے اختتامی خطاب کرتے ہوئے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ملک کے اندر قادیانیت نوازی کی تاریخ رقم کی جا رہی ہے حکمران قادیانیوں کو کافر اقلیت قرار دینے والے قانون میں ترمیم کے لئے سازش کر رہے ہیں، کیونکہ موجودہ حکومت کو اسی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے ملک پر مسلط کیا گیا، مگر ہم یہ تمام سازشیں ناکام بنائیں گے۔ توہین رسالت کی مرتکب آسیہ کیس میں اسلام دشمن عناصر اور عالمی طاقتوں کو خوش کیا گیا، ہمارا سپریم کورٹ آف پاکستان سے مطالبہ ہے کہ وہ آسیہ کیس میں پر دوبارہ نظرثانی کرے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی قادیانیت نوازی کو کسی صورت میں ملک کے اندر پنپنے نہیں دیں گے۔ پاکستان میں اسرائیلی اور یہودی لابی قادیانیت کے ساتھ مل کر ملک کے اسلامی تشخص کو تباہ کرنے کے درپے ہے، اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں کی جا رہی ہے، جو کہ قیام پاکستان کے مقاصد اور نظریہ پاکستان سے غداری کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج اسرائیل میں جشن منایا جا رہا ہے کہ پاکستان میں ان کے ایجنٹ کی حکومت آگئی ہے۔

مولانا فضل الرحمن کا مزید کہنا تھا کہ ہم ہر سطح پہ فوج کی حکمرانی کے خلاف ہیں۔ فوج ہماری دفاعی قوت ہے، لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ خود حکمران بن بیٹھے ہیں۔ آپ عمران خان کے پشت پناہ ہیں، جتنے دن آپ عمران خان کی پشت
پناہی کریں گے، اتنا ہی آپ کی عزت پہ حرف آئیگا۔ ہم اس حکومت کو غیر ملکی حکومت سمجھتے ہیں اور یہ پاکستان کی حکومت نہیں ہے۔ ہم پاکستان میں کسی غیر ملکی حکومت کو برداشت نہیں کریں گے۔ اس کے خلاف ہمارا احتجاج جاری رہیگا۔ مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ پہلی بار اسرائیل سے طیارہ اڑتا ہے اور عمان میں رک کر اسلام آباد ائیرپورٹ پہ اترتا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ اسرائیلی طیارہ پاکستان میں کیسے آیا۔ بعد میں کہتے ہیں کہ یہ تو اردن کا طیارہ تھا۔ اگر اردن کا طیارہ تھا تو اردن تو ہمارا بھائی ہے۔ پھر خفیہ کیوں ہے۔ یہ جو خفیہ آیا، یہ دال میں کالا ہے، دال میں کالا نہیں بلکہ پوری دال ہی کالی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آج ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے والے شخص کو یہودی قرار دیا جاتا ہے، پھر اس کو اسرائیل جانے کی اجازت دی جاتی ہے کہ ایک معمولی سا راستہ کھل جائے۔ اسرائیل کے ساتھ آمدورفت کا۔ اسرائیل کے بارے میں کہتے ہیں کہ عربوں نے تسلیم کیا ہے، عربوں نے معاہدات کئے ہیں۔ ان معاہدات کے نتیجے میں کہ اسرائیل 1967ء کی پوزیشن پہ واپس چلا جائے۔ اسرائیل اس پوزیشن پہ واپس نہیں گیا اور عربوں کی سرزمین سے وہ ہٹا نہیں ہے۔ ان کو آزاد نہیں کیا ہے، تو پھر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں قانوناً بے معنی ہیں، ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ پاکستان کیلئے ان باتوں کیا حیثیت ہے۔ سرزمین عرب پہ کوئی یہودی قبضہ نہیں کرسکتا۔ فلسطینیوں کی سرزمین پہ یہودی بستیاں ناجائز ہیں۔ ہم نہیں مانتے۔ قیام پاکستان کی قرارداد کے ساتھ فلسطین کی بھی قرارداد منظور ہوئی تھی۔ اگر قیام پاکستان کی قرارداد حجت ہے تو 1940ء کی ہی قرارداد فلسطین بھی ہے۔

مولانا فضل الرحمن کا مزید کہنا تھا کہ آج قائد کا پاکستان کہاں گیا ہے۔ پاکستان کے ایک سال بعد اسرائیل قائم کیا گیا۔ پہلے اسرائیلی وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول یہ ہوگا کہ ایک نئے ابھرتے ہوئے اسلامی ملک پاکستان کا خاتمہ کرنا ہے۔ اسرائیل پاکستان کے خاتمے کو اپنی خارجہ پالیسی کا بنیادی حصہ تصور کرتا ہے اور ہمارا یہودی ایجنٹ اسرائیل کو تسلیم کرنے کو اپنی ترجیح قرار دیتا ہے۔ کیا یہ ہے قائداعظم کے پاکستان کا وارث۔ پاکستان کو نظریاتی اور اپنے دینی شناخت کے ساتھ ابھرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت نے معیشت کو تباہ کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کے پہلے دن ڈالر 106 روپے کا تھا جبکہ آج 140 روپے کا ہے۔ جتنے قرضے انہوں نے لیے ہیں، کسی اور نے نہیں لیئے۔ قرضوں پہ قرضے لئے جا رہے ہیں، عام آدمی کی قوت خرید چھین لی گئی ہے۔ ایک کروڑ نوکریاں دینے کی بجائے ایک کروڑ سے زائد افراد نوکریوں سے نکال دیئے گئے۔ پچاس لاکھ گھر بنانے کا وعدہ کیا اور تجاوزات کے خاتمے کے نام پہ لوگوں کے ایک کروڑ گھر گرا دیئے گئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ پچاس سال پہلے کا کراچی بنائیں گے۔ آج اگر وہ دو کروڑ آبادی کا شہر ہے اور آپ پچاس سال پہلے کا بنانا چاہتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ڈیڑھ کروڑ آبادی کا خاتمہ کیا جائے، تاکہ دوبارہ پچاس لاکھ آبادی کا کراچی بن سکے۔ کیا اسے حکمرانی کہتے ہیں۔
 
انہوں نے کہا کہ کشمیری خود کو تنہا نہ سمجھیں، ہم انکے ساتھ ہیں، موجودہ حکومت نے کہیں بھی کشمیریوں کے حقوق کی بات نہیں کی، ہندوستان کے ساتھ کوریڈور کھول رہے ہیں، کشمیریوں کو ایک دوسرے سے ملانے کے لئے کوریڈور کیوں نہیں کھولا گیا، حکومت کو سکھوں کی فکر ہے، کشمیریوں کی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ساہیوال اور خیسور کے واقعات انسانی ناموس پر بدنما داغ ہیں، جن لوگوں نے یہ حرکت کی ہے، کیا قوم کو اس پر عملی اقدامات سے مطمئن کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نظریہ پاکستان کے تحفظ کے لیے میدان میں نکلے ہیں، نظریہ پاکستان ملک کے اسلامی تشخص کا نام ہے، اس ملک میں اسلامی
نظام کا نفاذ ہی نظریہ پاکستان کی تکمیل کا باعث بنے گا، مگر موجودہ حکمران پاکستان کو نظریہ پاکستان کی مخالف سمت میں لے جانے کے لیے مسلط کئے گئے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو مزید پسماندہ کیا جا رہا ہے اور تبدیلی کا نعرہ لگا کر حکمران اس پر فخر محسوس کرتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ہم ان تمام سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔ اٹھارہویں ترمیم میں ترمیم نہیں کرنے دی جائے گی، ہم اس ترمیم کا مکمل دفاع کریں گے۔ قوم کے ووٹ کی اہمیت اور اس کی حیثیت کو ختم کر دیا گیا ہے، جس کو ہم دوبارہ بحال کرآئیں گے، ہمارا یہ احتجاج مرحلہ وار جاری رہے گا۔ انہوں نے اس موقع پر اعلان کیا کہ 17 فروری کو مردان میں ملین مارچ کا انعقاد کیا جائے گا جبکہ چوبیس فروری کو سندھ میں ملین مارچ ہوگا اور اس کے بعد مزید اعلانات کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا آخری مارچ اسلام آباد کی جانب ہوگا، جس کے لیے عوام کے ذہن تیار ہیں، عوام متحدہ مجلس عمل کی کال کا انتظار کر رہے ہیں، ان شاء اللہ ہم اس ملک کو ہر لحاظ سے بچانے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔

حاصل کلام، مشاہدہ
ا۔ تحفظ ناموس رسالت کے نام پہ ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے یہ کثیر الجماعتی عوامی اجتماع تھا، جس میں مقامی آبادی کی شرکت نہایت قلیل تھی، شرکاء کی بیشتر تعداد مدارس سے تعلق رکھنے والے افراد پہ مشتمل تھی۔

۲۔ زیادہ تر افراد نے طویل عرصے بعد ڈی آئی خان دیکھا اور پی ٹی آئی دور حکومت میں ہونے والا تعمیری، ترقیاتی کام بہرحال ان کے لیے باعث کشش تھا، بالخصوص حقنواز پارک، لیاقت پارک، سرکاری دیواروں کی تزئین و آرائش کے ساتھ ساتھ سنٹرل سیوریج پائپ لائن وغیرہ۔

۳۔ پی ٹی آئی یہودی ہو بھی مگر کام کرتی ہے، یہ ماننا پڑیگا۔ مدرسے کے ایک نوجوان طالب علم کا جملہ۔

۴۔ میڈیا نے جب راستوں کی بندش بالخصوص ہسپتال کے سامنے ملین مارچ کے انعقاد پہ سوال اٹھایا تو وہ اس کا کوئی جواب نہیں دے پائے، بس اتنا کہ ہاں کسی اور جگہ بھی کیا جا سکتا تھا۔

۵۔ جمعیت علماء اسلام سے تعلق رکھنے والے تقریباً تمام مقررین نے نہ صرف موجودہ حکومت کو کڑی اور بے جا تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ پاک فوج اور عدلیہ پہ بھی تنقید کے نشتر چلائے۔

۶۔ مولانا عبدالغفور حیدری نے نام لیکر آرمی چیف اور پاک فوج پہ انتخابات میں مداخلت کا الزام عائد کیا جبکہ سابق چیف جسٹس کے لیے بھی معیار سے ساقط الفاظ کا استعمال کیا۔

۷۔ مولانا فضل الرحمن نے اپنے خطاب میں عمران خان پہ جہاں کئی بے جا الزامات عائد کئے، وہیں اعداد و شمار کے بیان میں بھی دروغ گوئی سے کام لیا۔ مثلاً حکومت نے پچاس لاکھ افراد کو بے روزگار کیا، حکومت نے ایک کروڑ مکان گرا دیئے، وغیرہ وغیرہ

۸۔ پاک فوج اور عدلیہ پہ تنقید کو زیادہ تر افراد نے ناپسند کیا۔

۹۔ مولانا اویس شاہ نورانی نے افغانستان سے امریکی انخلاء کو ایم ایم اے کا کارنامہ گردانتے ہوئے کہا کہ کوئی ٹھیکیدار اس کا کریڈٹ نہ لے، انہوں نے نام لئے بناء کہا کہ تمہارا سیاہ چہرہ دنیا نے دیکھ لیا ہے۔ کس سے مخاطب تھے۔؟

۱۰۔ ناموس رسالت کے نام پہ ہونے والے اس عوامی پاور شو کے ذریعے ایم ایم اے نے اسلام آباد میں دھرنے کی سنوائی بھی دی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ اس حکومت کو گرائیں گے۔ حکومت پہ قادیانیت نوازی، اسرائیل نوازی، بھارت دوستی، غلط معاشی پالیسی، ناکام خارجہ پالیسی کے الزامات، اداروں پہ تنقید، آرمی چیف، چیف جسٹس پہ کڑی تنقید بھی کی گئی، حکومت گرانے کی دھمکیاں بھی دی گئیں، مردان اور ٹنڈو علی میں بھی اسی عنوان سے ملین مارچ کا اعلان کیا گیا، شائد کہ متحدہ مجلس عمل میں شامل مذہبی جماعتوں کے پاس رسالت کی ناموس کے تحفظ کا یہی طریقہ کار ہے۔
خبر کا کوڈ : 774644
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش