0
Tuesday 29 Jan 2019 15:18

مرغی، انڈے اور گائے، تبدیلی کی سمت کا تعین، مگر کیسے؟

مرغی، انڈے اور گائے، تبدیلی کی سمت کا تعین، مگر کیسے؟
تحریر: لیاقت تمنائی

تبدیلی کے اعصاب شکن انتظار کے بعد آخر وہ موقع عمران خان کے ہاتھ آ ہی گیا ہے تو ایسے میں دیکھنا یہ ہے کہ تبدیلی کی سمت کیا ہے؟ مضبوط سیاسی سٹیٹس کو کی بنیادیں ہلانے کی ابتدا ہی تبدیلی کی پہلی سیڑھی تصور کی جانی چاہیئے، کیونکہ تین عشروں سے قابض سیاسی اشرافیہ کو تبدیل کرنا کسی عام و خاص بندے کا کام تو نہیں ہے۔ پاکستان کے ہر شعبے میں ''سٹیٹس کو'' موجود ہے، سٹیٹس کو کا یہ وجود تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، سیاست کے بڑے بڑے ''برجوں'' کو تو انہوں نے الٹا ہی دیا ہے لیکن ملکی معاملات کی سمت درست کرنے میں ابھی ''عشق کے امتحان'' تو شروع ہوچکے ہیں، ابھی دلی بہت دور ہے۔ مجھ جیسے ایک عام آدمی کو بنیادی طور پر عمران خان سے کوئی ہمدردی نہیں، تاہم دوسرے کروڑوں پاکستانیوں کی طرح ہم بھی حقیقی تبدیلی کی امید آنکھوں میں سجائے انتظار کی گھڑیاں گن رہے ہیں، تبدیلی ہو مگر کیسے۔؟

 ایک عام آدمی کیلئے تبدیلی یہ ہے کہ دودھ کی قیمتیں آدھی سے بھی کم ہوں، پٹرول اور ڈیزل مشرف والے دور سے بھی سستا، چینی ساڑھے چالیس روپے فی کلو، بجلی کی قیمتیں تو زیادہ سے زیادہ پانچ روپے فی یونٹ ہونی چاہیں، بجلی پورے چوبیس گھنٹے چاہیئے، چاہے بجلی آئی پی پیز سے لیں یا انڈیا سے، گیس کا ہیٹر کمر توڑ سردی میں تو چوبیس گھنٹے گرم ہونا چاہیئے، چاہے یہ گیس شاہد خاقان والی قطری ایل این جی ہی کیوں نہ ہو۔ ڈالر پچاس روپے کی سطح پر آنا چاہیئے، چاہے پچھلی حکومتوں نے خزانہ اگلی حکومتوں کیلئے بالکل خالی ہی کیوں نہ چھوڑا ہو؟ یہ تبدیلیاں لانے کے دو طریقے ہوسکتے ہیں، مصنوعی یا منصوبہ بندی۔

عمران خان کو بھی خوب معلوم ہوگیا ہوگا کہ کنٹینر یا مینار پاکستان کے میدان میں لاکھوں کا مجمع دیکھ کر فرط جذبات میں دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کی پرجوش تقریر کرنے اور بطور وزیراعظم ملک کو چلانے میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ کنٹینر پر قرضہ لینے سے خودکشی کرنے کو دل کر رہا تھا، لیکن وہ عملی زندگی میں قرضوں کیلئے مارے مارے پھر رہے ہیں، پولیس اور پٹواری نظام کو کمپوٹرائزڈ کرتے ہوئے شفافیت لانے کا وعدہ کم از کم ایک درجن بار کیا گیا تھا، جلسوں اور جلوسوں میں زیادہ زور ادارہ جاتی اصلاحات پر دیا گیا تھا، لیکن عملی زندگی میں کیا ہو رہا ہے، کیا کچھ جھیل رہا ہے۔؟

عمران خان کو یہ بھی معلوم ہوا ہوگا کہ خارجہ پالیسی کنٹینر والی تقریر سے کتنی مشکل ہے، ایسے میں جب ان کا سامنا ٹرمپ کے ٹویٹ سے ہو اور پھر مودی بھی سر پر کھڑے ہوں، آگے پھر بھارت میں الیکشن بھی قریب ہوں، سب کو پتہ ہے کہ بھارتی انتخابات میں ''پاکستان فیکٹر'' اہم ترین کرداروں میں شمار ہوتا ہے۔ عمران خان کی حکومت کو ابھی آئے ڈیڑھ ماہ بھی نہ ہوئے تھے کہ اچانک ڈالر نے اڑان بھرنا شروع کر دی، جس سے مہنگائی کا طوفان آگیا، جب یہ مہنگائی اپوزیشن کے ہاتھ لگ گئی تو حکومت کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ہوا کیا ہے اور کرنا کیا؟ ابھی سانس لینے کاموقع بھی نہ ملا تھا کہ پتہ چلا خزانہ تو خالی ہے، قرضوں پر سود ادا کرنے کیلئے مزید قرضے چاہئیں، ادائیگیوں کا توازن بری طرح بگڑ چکا تھا، ملک دیوالیہ ہونے کی افواہیں گردش کرنے لگیں، پاکستان کے پاس معمول کے مطابق آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دینے کے سوا کوئی اور راستہ نظر نہیں آرہا تھا۔ اس وقت عمران خان کو کیا کرنا چاہیئے تھا؟ کیا اسحاق ڈار ڈاکٹرائن کے مطابق مستقبل سے بے پرواہ تمام تر شرائط کے ساتھ آئی ایم ایف سے دھڑا دھڑ قرضے لے لیتے۔؟

قرضے تو لئے ہیں لیکن ابھی تک آئی ایم ایف سے نہیں۔ عمران خان کی کوشش یہ رہی ہے کہ جتنا ہوسکے آئی ایم ایف سے ملک کا دامن بچا کر رکھا جائے، جس کیلئے ''دوست'' ملکوں کا آپشن استعمال میں لایا گیا۔ خلیجی ڈالروں کی آمد کے ساتھ ہی ادائیگی کا توازن مکمل درست نہیں ہوا ہے تو کم از کم بگڑنے سے تو بچا ہے، مہنگائی کا شور بھی کم ہوا ہے، پھر اسد عمر کے متعارف کردہ منی بجٹ نے پاکستان کے کارپوریٹ سیکٹر کے ساتھ نچلے طبقے کو بھی خوش کر دیا ہے۔ اسد عمر نے منی بجٹ کے ذریعے مستقبل کی پلاننگ سے قوم کو آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عمران خان کی حکومت بہت اچھی ہے یا بہت بری ہے، دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کی سمت کیا ہے اور ایجنڈا کیا۔؟

ڈالر کی قیمتیں سٹیٹ بنک کے دباؤ سے بھی کم کی جاسکتی ہیں، لیکن ڈالر کی قیمتیں کم کرنے کی بجائے ''ہونے'' پر مجبور کیا جائے، مہنگائی مصنوعی دباؤ سے بھی کم ہوسکتی ہے، اس کی بجائے عوام کی قوت خرید کو بڑھانے پر زور دیا جائے۔ انہیں متوقع تبدیلیوں پر جاری مباحثے کے ساتھ ملکی سیاسی بحث میں مرغی اور انڈوں کے بعد اب گائے اور دودھ بھی شامل ہوگیا ہے، تنقید کرنا جمہوری حق ہے، لیکن اس حق کو استعمال کرنے سے پہلے دیکھنا یہ ہے کہ دودھ، انڈے، مرغی، گائے اور دودھ کا بیانیہ نچلے طبقے کو اوپر لانے کی منصوبہ بندی بھی ہے، یا سیاسی پوائنٹ سکورنگ؟ عوام کے اجتماعی شعور کا تعین یہیں سے ہوگا کہ وہ میٹرو اور موٹروے سے پہلے دیکھے کہ حکومت کے پاس نچلے طبقے کو اوپر لانے کا کوئی ویژن بھی ہے؟ چاہے یہ دودھ، انڈے اور مرغیاں ہی کیوں نہ ہوں اور ہاں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسے ترقی یافتہ ممالک کی معیشت کی بنیادیں گائے اور مرغیوں پر ہی کھڑی ہیں۔!!
خبر کا کوڈ : 774976
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش