1
Tuesday 5 Feb 2019 23:54

انقلابِ اسلامی ایران اور پاک ایران تعلقات

انقلابِ اسلامی ایران اور پاک ایران تعلقات
تحریر: محمد رمضان توقیر
مرکزی نائب شیعہ علماء کونسل پاکستان


قرن ہا قرن سے انسان تبدیلی لانے کے دعوے سنتے چلے آرہے ہیں۔ ہر دور کے حکمران، ہر زمانے کے سیاسی قائدین، ہر خطے کے قومی رہنماء اور ہر مذہب و مسلک کے علماء و بزرگان لوگوں کو مختلف اقسام اور مختلف انداز کی تبدیلیوں کی طرف راغب، مائل، قائل اور عامل کرتے رہے ہیں۔ مذہبی و سیاسی افکار، معاشی و نظامی افکار، لسانی و قبائلی ضروریات اور ثقافتی افکار ہر زمانے میں تبدیلی کی بنیاد بنتے چلے آئے ہیں۔ بعض اوقات ظالم و جابر حکمرانوں کے مظالم نے لوگوں کو تبدیلی کے لیے کھڑا ہونے پر مجبور کیا۔ بعض اوقات کرپشن اور اقرباء پروری نے عوام کو تبدیلی کی طرف گامزن کیا۔ بعض اوقات مذہبی افکار پر ضرب پڑنے سے اہل مذہب تبدیلی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے، بعض اوقات معاشی استحصال نے لوگوں کے اندر تبدیلی کا جذبہ پیدا کیا، بعض اوقات بیرونی جارحیت اور وطن پر قبضے نے لوگوں کو تبدیلی کے لیے ابھارا، حتیٰ کہ مختلف وجوہات و اسباب کے تحت لوگ خود تبدیلی کا احساس کرتے رہے یا پھر قیادتوں نے انہیں تبدیلی کی طرف نشاندہی کی اور اسی تبدیلی کا نام ہی انقلاب ٹھہرا۔

یہ بھی انسانی تاریخ کی حقیقتوں میں سے ایک حقیقت ہے کہ انقلاب کے نام پر جہاں لوگوں کی رہنمائی اور خیر کا وظیفہ انجام دیا گیا، وہاں انقلاب ہی کے نام پر لوگوں کو گمراہ بھی کیا جاتا رہا اور ان کے لیے شر کا سامان پیدا کیا گیا۔ جہاں انقلاب کو لوگوں کے اجتماعی مفاد کے لیے برپا کیا جاتا رہا، وہاں اسی انقلاب کو اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔ جہاں انقلاب کو عوام الناس کی فلاح و ترقی کے لیے ذریعے کے طور پر سامنے لایا گیا، وہاں اسی انقلاب کو ذاتی تجوریاں بھرنے کا ذریعہ بھی بنایا گیا۔ جہاں انقلاب کو لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کی ضمانت قرار دیا گیا، وہاں اسی انقلاب کے ذریعے لاکھوں بے گناہ عوام کو موت کی وادی میں دھکیل دیا گیا۔ غرض یہ کہ انقلاب کو منفی اور مثبت دونوں حوالوں سے انسانوں پر آزمایا گیا اور اس سے اچھے اور برے نتائج سامنے آتے رہے اور ہر انقلاب کی نوعیت کے مطابق انسانوں نے اس سے استفادہ کیا یا اس کے منفی اثرات بھگتے۔

ہماری موجودہ دنیا کی گذشتہ صدی میں مختلف خطوں پر مختلف افکار کے تحت مختلف انقلابات برپا ہوئے، ان میں انقلابِ فرانس، انقلابِ چین، انقلابِ سوویت یونین، انقلابِ افغانستان، انقلابِ پاکستان اور انقلابِ ایران نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔ اگر ہم ایشیائی ممالک میں آنے والے انقلابات پر بحث شروع کریں یا ان کا تقابلی جائزہ لیں تو بات طوالت اختیار کر جائے گی اور لامحالہ اس میں مختلف اور مخالف آراء بھی سامنے آئیں گی، جس کے نتیجے میں گفتگو کا رخ کسی اور سمت چلا جائے گا اور ہم اپنے اصل موضوع سے ہٹ جائیں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ انقلابِ ایران کے علاوہ دیگر انقلابات یا تو اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکے ہیں یا پہنچنے والے ہیں یا ان کی شکل ہی تبدیل ہوچکی ہے یا پھر ان کے بنیادی خد و خال ہی تبدیلی کا شکار ہوگئے ہیں، لیکن انقلابِ ایران واحد انقلاب ہے، جو اپنی اصل شکل میں موجود ہے، جس میں اب بھی وہی آب و تاب باقی ہے، جو چالیس سال پہلے موجود تھی۔

انقلابِ اسلامی ایران آج بھی انہی بنیادوں پر قائم و ایستادہ ہے، جن پر روزِ اول سے قائم تھا۔ آج بھی انقلاب کی سیاسی و خارجی پالیسیاں انہی بنیادوں پر تشکیل دی جاتی ہیں، جن بنیادوں پر آغاز میں دی جاتی تھیں۔ آج بھی انقلاب کے اوائل میں بتائے گئے افکار و نظریات قائم ہیں اور انہی افکار و نظریات پر پالیسیاں تشکیل دی جاتی ہیں اور اقدامات تجویز کیے جاتے ہیں۔ رہبرِ انقلاب حضرت امام خمینی ؒ نے اس انقلاب کی قیادت 1963ء سے لے کر 1979ء تک اور اس کے بعد 1989ء تک جس انداز سے کی تھی، اسی ہی انداز سے رہبرِ معظم سید علی الخامنہ ای اس انقلاب کی قیادت کا فریضہ انجام دے کر نہ صرف انقلاب کو محفوظ کیے ہوئے ہیں بلکہ اسے روز بہ بروز اور لمحہ بہ لمحہ آگے بڑھا رہے ہیں۔ ایران اپنی داخلی ترقی میں اسی انقلاب کا مرہون منت ہے اور اپنے خارجی ارتقاء میں بھی اسی انقلاب کا مرہونِ احسان ہے۔

آج اگر ایران کو دنیا میں حریت کا امام کہا جاتا ہے تو اس کا سبب بھی یہی انقلاب ہے۔ آج اگر ایران اپنے دور کی نام نہاد سپر طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے تو اس کے پس منظر میں اسی انقلاب کی طاقت موجود ہے۔ آج اگر ایران دنیا کے مظلوموں کے لیے سہارا اور دنیا کی حریت پسند تحریکوں کے لیے آسرا بن چکا ہے تو خود ایران کا سہارا و آسرا یہی انقلاب ہے۔ آج اگر ایران دنیا میں مذہب کی بنیاد پر قائم رہنے والی ریاست کی ایک لازوال مثال بن کر چار دہائیوں سے کرہ ارض پر موجود ہے تو اس استقامت کا سبب بھی یہی انقلاب ہے۔ اگرچہ انقلابِ اسلامی کے اثرات براہ راست دنیا کے مختلف ممالک اور خطوں تک پہنچ چکے ہیں اور بہت ساری تحاریک کی بنیادوں میں اسی انقلاب کی فکر موجود ہے، مگر جس انداز سے موجودہ قیادت اس انقلاب کو آگے لے جا رہی ہے، اس سے لگتا ہے کہ انقلاب کے اثرات دنیا کے باقی تمام خطوں تک جلد پہنچیں گے، جہاں تک ابھی نہیں پہنچ سکے۔

انقلابِ اسلامی ایران کے بعد سے لے کر اب تک اس کے مختلف پہلووں کے حوالے سے منفی و مثبت پروپیگنڈہ ہوتا رہا ہے اور ہو رہا ہے۔ دیگر ممالک کی طرح ہمارے وطنِ عزیز پاکستان میں بھی اس کے اثرات روزِ اول سے موجود ہیں، حکومتی اور ریاستی سطح پر تشکیل پانے والی پالیسیاں اس کی غماز ہیں، جبکہ عوامی سطح پر قائم کیا گیا مخصوص تصور اس کا شاہد ہے۔ لیکن اس کے باوجود ایران و پاکستان کے عوام کے درمیان موجود بے شمار مشترکات اپنے مقام پر ایک روشن حقیقت ہیں، انہی مشترکات کے سبب آج ایران و پاکستان کے عوام باہمی محبت کے رشتے سے منسلک ہیں۔ دونوں ممالک کے عوام مذہبی اور ثقافتی سطح پر ایک لازوال لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک کے عوام کے متعدد مفادات مشترک ہیں۔ عالمی سطح پر دونوں ممالک کی پالیسیوں میں اشتراک نظر آتا ہے، بالخصوص اسرائیل جیسے قابض ملک اور مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے دونوں ممالک کی فکر ایک ہے۔

اسی طرح کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کے حوالے سے دونوں ممالک ایک نظریئے کے حامل ہیں۔ (کشمیر کے حوالے سے رہبر معظم کے متعدد بیانات اس کا بین ثبوت ہیں، جس میں انہوں نے نہ صرف مظلوم کشمیری عوام پر ظلم و جارحیت کی مذمت کی ہے بلکہ مسئلہ کشمیر جلد حل کرنے کا مطالبہ کیا ہے)۔ اتحاد بین المسلمین کی لاثانی پالیسی کی ترویج کے لیے آج بھی یہی دونوں ممالک پوری دنیا بالخصوص عالمِ اسلام کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ دنیا میں موجود مظلوموں کی تحاریک میں شامل ایک ایک مظلوم انہی دو ممالک کو اپنا سہارا اور امید سمجھتا ہے۔ پاکستان اور ایران ایک دوسرے کے محافظ ہیں، ایک دوسرے کا راز ہیں، ایک دوسرے کا پردہ ہیں، ایک دوسرے کی ضرورت ہیں اور ایک دوسرے کے دکھ کا مداوا ہیں۔ پچھلی تین دہائیوں سے پاکستان جس معاشی بحران کا شکار ہے، اس کا سب سے بہترین حل ایران کے پاس ہے۔ ہمارے سیاسی قائدین اور ریاستی اکابرین دائیں بائیں ٹامک ٹوئیاں مارنے کی بجائے اگر اپنے ہمسایہ اور دوست ملک ایران کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی معاہدے کریں تو گھر کا مسئلہ گھر میں ہی حل ہوسکتا ہے۔

ہم جہاں سے امدادیں لیتے ہیں، وہاں کی بھی اپنی داخلی و خارجی پالیسیاں ہیں، عین ممکن ہے کہ ہم ان میں سے بعض پالیسیوں سے اتفاق رکھتے ہوں اور بعض سے اختلاف۔ اس اتفاق اور اختلاف کے باوجود اگر دیگر مسلم و غیر مسلم ممالک سے معاہدے ہوسکتے ہیں تو ایران سے کیوں نہیں؟ اگر ایک ہی وقت میں مختلف سوچ اور پالیسی کے حامل مختلف ممالک کے ساتھ معاہدات ہوسکتے ہیں تو انہی فارمولوں کی بنیاد پر ایران سے کیوں نہیں؟ حالانکہ ماہرینِ اقتصادیات تو اپنی جگہ عام شہری اور پاکستان کا ایک عام کاروباری بھی اس حقیقت سے آشنا ہے کہ ایران ہر معاملے میں پاکستان کے ساتھ سستے نرخوں پر معاہدے کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ چاہے گیس کی فراہمی ہو یا بجلی کی فراہمی۔ چاہے پیٹرول کی فراہمی ہو یا ڈیزل سمیت دیگر پٹرولیم مصنوعات ہوں۔ اس کے علاوہ قدرتی ذخائر و وسائل کی تلاش کے معاملات ہوں یا درآمدی و برآمدی معاملات، ہر جگہ ایران ہمیں بہترین تعاون فراہم کرسکتا ہے۔ حتیٰ کہ ہمارے سب سے بڑے مسئلے یعنی دہشت گردی اور امن و امان کے حوالے سے بھی ایران بہترین معاون ثابت ہوسکتا ہے، کیونکہ ایران نے جس طرح تمام داخلی و خارجی خطرات کے باوجود اپنے ملک کو سنبھالا ہوا ہے اور دہشت گردوں کو تختہ دار پر لانے کے ذریعے جس طرح عدل و انصاف قائم کیا ہوا ہے اور جزاء و سزا کا عمل جاری کیا ہوا ہے، پاکستان بھی اس حوالے سے ایران کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

غرض یہ کہ بے شمار میدان ہیں، جن میں یہ دونوں ممالک کسی تیسرے ملک کو شامل کیے بغیر ایک دوسرے کو براہ راست فوائد پہنچا سکتے ہیں مگر ایسا کب اور کیسے ممکن ہے؟ دونوں ممالک کے عوام تو ہمیشہ اسی درد اور خواہش کا اظہار کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ دونوں ممالک کی قیادت اپنی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کے مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے کب باہم قربت اختیار کرتے ہیں؟ کب ایک دوسرے کا حقیقی سہارا بنتے ہیں؟ کب ایک دوسرے کے عوام کی آنکھوں میں خوشی کی روشنی لاتے ہیں؟ کب اپنے مشترکہ دشمنوں کی سازشوں کو خاک میں ملانے کے لیے ایک دوسرے کے سینے سے سینہ ملاتے ہیں؟ اور کب دونوں ممالک کی ترقی و خوشحالی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرتے ہیں؟ انسان کو تمام تر حالات میں ناامید نہیں ہونا چاہیئے، ہم اسی مثبت فکر کے تحت امید رکھتے ہیں کہ انقلابِ اسلامی ایران جہاں اپنی طاقت و توانائی کے ساتھ رواں دواں رہے، وہاں اپنی مذہبی، سیاسی، سماجی، معاشی، اقتصادی اور ثقافتی روشنی ہمارے وطنِ عزیز تک بھی پہنچاتا رہے اور وطنِ عزیز کے ذمہ داران ان روشنیوں کے حصول کے لیے اپنے خلوص اور تعاون کا مظاہرہ کرتے رہیں، تاکہ دونوں ممالک خوشحالی کے راستے سے ہوتے ہوئے اقوام عالم کی رہنمائی کی منزل تک پہنچ سکیں۔
خبر کا کوڈ : 776361
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش