0
Monday 11 Feb 2019 14:29

بالش خیل شاملات کی بابت گرینڈ قومی جرگہ

بالش خیل شاملات کی بابت گرینڈ قومی جرگہ
رپورٹ: ایس این حسینی

کل بروز اتوار سیکرٹری انجمن حسینیہ حاجی سردار حسین کے کہنے پر مرکزی امام بارگاہ میں مقامی طوری بنگش اقوام کے عمائدین کا ایک گرینڈ جرگہ بلایا گیا تھا۔ جس میں لوئر اور اپر کرم کے عمائدین نے بھرپور طور پر شرکت کی۔ میٹنگ کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ اسکے بعد حاجی سردار حسین نے میٹنگ کا ایجنڈا پیش کرتے ہوئے لوگوں سے ان کی رائے طلب کی۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ کئی دنوں سے بالش خیل اور ابراہیم زئی کے عوام مرکز اور تحریک حسینی کے پاس جاکر اپنی فریاد پیش کر رہے ہیں۔ ان کی اراضی پر پاڑہ چمکنی قبائل نے زبردستی قبضہ جما رکھا ہے۔ حکومت کے پاس بار بار اپنی فریاد پہنچانے کے بعد بھی کوئی عملی اقدام اٹھایا نہیں جا رہا، بلکہ حکومت قابضین کو سرکاری پراجیکٹس کی صورت میں مراعات دیتی ہے۔ چنانچہ بالش خیل اور ابراہیم زئی کے عوام اب حکومت کی بجائے مرکز اور آپ کو اپنی فریاد پہنچا رہے ہیں۔ آپ میں سے ہر ایک سے گزارش ہے کہ نہایت مختصر وقت میں اپنی اپنی رائے کے علاوہ اس مسئلے کا فوری حل نکالنے کیلئے تجاویز پیش کریں۔ اسکے بعد سٹیج سیکرٹری نے ابراہیم زئی کے مشر سید حسین بادشاہ کو دعوت دی۔

سید حسین بادشاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 1980ء کے عشرے میں جب ہماری حکومت کو افغان مہاجرین کیمپوں کیلئے اراضی کی ضرورت پڑی تو انہوں نے اہلیان بالش خیل سے زمین کی فراہمی کی خواہش ظاہر کی، بالش خیل نے نہایت خندہ پیشانی سے اپنی ہزاروں ایکڑ زمین انہیں پیش کر دی۔ پھر یہاں ٹھہرے ان کو پندرہ سولہ سال گزر گئے۔ اس دوران اہلیان بالش خیل نے ان کی خوب مہمان نوازی اور خاطر مدارت کی، تاہم 1990ء کے عشرے میں مہاجرین کی رخصتی پر غیر علاقے کے پاڑہ چمکنی قبائل نے ان کے بنے بنائے مکانات پر ڈیرے ڈال دیئے۔ بالشخیل کے احتجاج پر اس وقت کے پی اے سلیم خان اور اے پی اے نے فوری اقدام کرتے ہوئے انہیں بیدخل اور مہاجرین کے مکانات کو مسمار کر دیا۔ جس سے کم از کم یہ تو ثابت ہوگیا کہ اراضی کا تعلق پاڑہ چمکنی سے نہیں تھا۔ اسلئے تو بالش خیل کی آواز پر انہیں بیدخل ہونا پڑا۔

اسکے بعد 2005ء میں طالبان کی اجارہ داری کے دوران انہوں نے ایک بار پھر اس علاقے میں ڈیرے ڈال دیئے۔ اس دوران ماسوزئی قبیلہ بھی میدان میں اترا۔ دونوں نے پرائی زمین پر دھڑا دھڑ مکانات کی تعمیر شروع کر دی۔ مگر مکانات کی تعمیر کے دوران ان کے مابین لڑائی شروع ہوگئی۔ اہلیان بالش خیل نے ایک بار پھر حکومت سے رجوع کیا۔ جس پر حکومت نے مداخلت کرتے ہوئے مکانات کی تعمیر روک دی۔ تاہم 2007ء میں پاک آرمی اور ہزاروں پاکستانیوں کے قاتل دہشتگرد طالبان کمانڈر حکیم اللہ محسود نے بنفس نفیس آکر بالش خیل کی یہ زمین پاڑہ چمکنی اور ماسوزئی کے مابین بانٹ دی، ان کے درمیان سرحد قائم کر دی، جس کی وجہ سے انکے مابین لڑائی رک گئی۔ پھر کیا تھا کہ وہ آبادکاری میں تیزی لے آئے۔ اس پر اہلیان بالش خیل و ابراہیم زئی نے بار بار حکومت سے درخواست کی، مگر حکومت کی اجارہ داری کمزور ہونے کی وجہ سے یا چمکنی قبائل کے ساتھ ہمدردی کی وجہ سے آباد کاری روکنے کی بجائے بڑھتی گئی۔

جس کے بعد اہلیان بالش خیل نے تحریک حسینی کے سربراہ علامہ سید عابد حسینی سے فریاد کی۔ انہوں نے 2010ء میں نکل کر سمیر عباس میں ڈیرے ڈال دیئے اور الٹی میٹم دیا کہ اگر حکومت قابضین کو بیدخل نہیں کرسکتی تو ہم خود ہی ہتھیار اٹھا کر قابضین سے اپنی اراضی چھڑوانے میں حق بجانب ہونگے۔ اس پر حکومت کے ساتھ مذاکرات کے متعدد دور ہوئے۔ بالآخر اس وقت کے پولیٹیکل ایجنٹ محمد بصیر خان وزیر نے کافی پس و پیش کے بعد بالآخر حکم جاری کیا کہ تمام غیر قانونی مکانات کو مسمار کر دیا جائے۔ اس پر عمل کرتے ہوئے درجن بھر مکانات ڈھائے گئے۔ (تاہم اس دوران بعض عاقبت نا اندیش قومی مشران کی معاندانہ پالیسی کی بنا پر پولیٹکل ایجنٹ کو غلط مشورہ دیا گیا، جس کی وجہ سے مسماری کا عمل روک دیا گیا اور بالش خیل کو کوئی اور جھانسہ دیکر کام کو سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔) انہوں نے کہا کہ پاڑہ چمکنی قوم پانچ بڑے بڑے قبائل پر مشتمل ایک بڑی قوم ہے۔ ان کے مقابلے میں ہم کمزور ہیں۔ اب قوم سے ہماری اپیل ہے کہ اس سلسلے میں ہماری مدد کریں۔
۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 777284
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش