1
Tuesday 12 Feb 2019 14:31

*کبوتر حرم اور کبوتر بقیع*

*کبوتر حرم اور کبوتر بقیع*
تحریر: بنت الہدیٰ
 
آفتاب کی مانند چمکتی سنہری گنبد کے مقابل لگی سبز جھالیوں پر کبوتر حرم اپنے آقا و مولا امام رضا (ع) کی زیارت کے لئے آئے ہوئے زائرین کو دیکھنے میں مگن تھا کہ ایک سرمئی رنگ کا کبوتر گنبد کی جانب سے پرواز کرتا ہوا ان جھالیوں کے قریب آپہنچا۔۔۔
اس کبوتر کی بھوری آنکھیں اشکوں سے تر تھیں۔۔ وہ استراحت کے لئے ان جھالیوں پر رکا۔۔
کبوتر حرم زائرین امام کی کیفیت سے بخوبی واقف تھا۔۔ زائرین امام سے رخصت ہوتے ہوئے اسی طرح گریہ کرتے ان کی آنکھوں میں آنسو ہوتے اور لب پر دعائیں۔۔۔ 
کچھ دیر گزرنے کے بعد کبوتر حرم نے اسے اپنا تعارف کروایا۔۔
میں کبوتر حرم ہوں۔۔ تم کہاں سے ہو۔؟
 
میں مدینہ سے ہوں۔
سرمئی کبوتر نے دھیمے لہجے میں کہا۔
یہ سن کر کبوتر حرم نے مسکراتے ہوئے کہا:
مدینہ تو رحمت اللعالمین (ص) کا شہر ہے۔۔ میرے مولا و آقا (ع) کے جد کا شہر۔۔ مجھے بہت خوشی ہوئی تم سے ملکر۔۔
سرمئی کبوتر نے ہلکی سی مسکراہٹ ہدیہ کی۔
مدینہ منورہ تو نور کا شہر ہے۔۔ سنا ہے وہاں ہر گلیو ہر سمت نور ہی نور رہتا ہے۔۔ نور ہی نور ہے جگمگاتا ہوا۔۔۔
کبوتر حرم نے خوشی سے جھومتے ہوئے کہا۔
 
وہ ماضی کا مدینہ تھا، اب تو وہاں ظلمتوں کا راج ہے اور ہر سمت تاریکی۔۔
سرمئی کبوتر کے لہجے میں افسردگی تھی۔
نور کے روشن میناروں کے ہوتے ہوئے وہاں تاریکی کیسے ممکن ہے؟ کبوتر حرم کے چہرے پر فخریہ مسکراہٹ تھی۔۔
جہل سے۔۔۔ جب عقلوں پر جہل حاوی ہو جائے تو نور کو ظلمت سے بدل دیا جاتا ہے۔۔ اہل مدینہ نے نور پر ظلمت کو ترجیح دی۔
سرمئی کبوتر نے سنجیدگی سے کہا۔
کبوتر حرم نے اس بات پر اتفاق کیا۔
ٹھیک کہہ رہے ہو، اگر اہل مدینہ نور کے ستونوں سے وابستہ ہو جاتے تو آج بقیع تاریک نہ ہوتا۔۔
 
بقیع کا نام سن کر سرمئی کبوتر کی آنکھیں پھر نم ہوگئی۔۔ جسے کبوتر حرم نے محسوس کرلیا۔
افسردہ نہ ہو میرے دوست، تمہیں تو خوش ہونا چاہیئے کہ تم گنبد خضرا کے سائے میں پرواز کرتے ہو۔۔۔
سرمئی رنگ کے کبوتر نے اپنی بھیگی ہوئی بھوری آنکھوں سے ایک نظر کبوتر حرم کو دیکھا اور پھر سنہرے گنبد کی سمت نگاہ کرتے ہوئے کہا۔
کیا تم اپنے امام سے دوری اور جدائی کو سہ سکتے ہو۔۔۔؟
سوال سن کر کبوتر حرم نے برجستہ کہا۔۔
نہیں! ہرگز نہیں۔۔ میں ایک لمحے کے لئے بھی خود کو اپنے مولا و آقا سے جدا نہیں کرسکتا۔۔۔
 
سرمئی کبوتر نے اپنے آنسووں کو روکتے ہوئے کہا:
تمہارے سامنے صرف ایک ایسی ہستی ہے، جن سے تم خود کو دور نہیں کرسکتے اور میں چہار مقدس ہستیوں اور ان کے جد کی رحمتوں کے سائے میں پلا ہوں۔۔ اور آج ان سے دور ہوں، صرف اس لئے کہ ان کا اور اپنا درد دل منجئ آخر کے سامنے پیش کرسکوں۔۔۔
کبوتر حرم نے بات مکمل ہوتے ہی پوچھا
کیا تم کبوتر بقیع ہو۔۔۔؟
بھوری آنکھوں کے آگے لگا ضبط کا بند ٹوٹ چکا تھا اور آنسو پھر بہنے لگے۔۔ سرمئی کبوتر نے سر ہاں میں ہلاتے ہوئے کہا۔۔
ہاں۔۔! میں کبوتر بقیع ہوں۔۔ کبوتر بے حرم۔۔۔
 
یہ سننا تھا کہ کبوتر حرم کی آنکھیں بھر آئیں۔۔ اس نے کبوتر بقیع کی دلجوئی کی۔
میں تمہاری کیفیت سمجھ سکتا ہوں۔۔ تمہارے چہرے کی یہ اداسی بقیع کے تمام مصائب بیان کر رہی ہے۔۔
کبوتر بقیع نے اپنے اصل درد کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔۔
یہ اداسی بقیع کے غم سے کہیں زیادہ ہے۔۔ حرم کی مسماری کا غم سہنا آسان نہیں تھا، مگر اب جو سانحہ گزرا ہے، وہ دل چیر کر سینے سے باہر لے آیا ہے۔۔ میرا غم اس قدر زیادہ ہے کہ صرف مھدئ موعود (عج) ہی اس کا مداوا کرسکتے ہیں۔
میرے دوست میں جانتا ہوں مدینہ بعد رسول (ص) اہلبیت (ع) اور ان کے چاہنے والوں کے لئے مصائب کا شہر بن چکا ہے۔۔ مگر اب ایسی کیا مصیبت آگئی جو تمہارا زخمی دل تمہیں یہاں لے آیا۔۔ کبوتر حرم نے استفسار کیا۔
 
میں یہاں آیا ہوں کے فرزند پیامبر (ع) کو مدینہ کے اس دردناک سانحے سے آگاہ کروں، جس پر جنت البقیع اور جنت المعلیٰ ہی نہیں قبر پیمبر (ص) سے بھی فریادیں بلند ہوئی تھیں۔۔ 
یہ کہ کر کبوتر بقیع خاموش ہوگیا۔
حرم کی پرسکون فضا میں چلنے والی ہوائیں یکدم تیزی سے دوڑتی ہوئی آندھیوں میں بدل گئی گرد و غبار تیز ہواوں کے سہارے بلند ہوکر روضے کے گنبد اور مینار کو چھوں رہا تھا۔۔۔
کبوتر حرم نے اطراف پر نگاہ دوڑاتے ہوئے کہا:
مجھے بتلاو آخر ایسے کون سے سانحے کی خبر تم نے میرے مولا رضا کو دی ہے، جو ان کے گنبد کا چمکتا ہوا زرد رنگ بیٹھ سا گیا ہے۔۔ حرم کی یہ دلفریب فضائیں کیونکر سوگوار ہوگئی ہیں۔۔۔؟
 مدینہ میں اب کونسا نیا ظلم ڈھایا گیا ہے؟
 
چند لمحوں کی خاموشی کے بعد کبوتر بقیع نے اپنا سکوت توڑا۔۔۔
مدینہ اب آل محمد پر درود بھیجنے والوں کے لئے سوہان روح بن چکا ہے۔۔ پھر سے اس ظلم کی تکرار ہوئی ہے، جس کا بیان آج بھی مسجدوں کے مینار ہلا دیتا ہے۔۔
یہ کہ کر کبوتر بقیع پھر خاموش ہوگیا تو کبوتر حرم نے اپنی اضطرابی حالت بیان کرتے ہوئے کہا:
میرا دل بیٹھا جا رہا ہے۔۔ محسن (ع) کی شہادت سے شروع ہونے والا ظلم کا سلسلہ ہی انہدام بقیع تک پہنچا تھا۔۔ مجھے بتلاو آخر اب کس ظلم کی تکرار ہوئی ہے۔۔۔؟
مدینہ محبین علی (ع) کے لئے کبھی جائے امان نہیں رہا۔۔ وہ سرزمین جہاں درود بھیجنے کی وحی نازل ہوئی تھی۔۔ اسی مدینہ میں آل محمد (ص) پر درود بھیجنے کے جرم میں ایک ماں کی نظروں کے سامنے اس کے معصوم پانچ سالہ فرزند زکریہ کو نحر کر دیا گیا۔۔(خدا اس پہلے اور آخری ظالم پر لعنت کرے)
کبوتر بقیع نے پردرد لہجے میں سانحہ بیان کیا، جسے سن کر کبوتر حرم کی حالت غیر ہونے لگی۔۔
 
خدایا۔۔۔ خدایا۔۔ میرا دل شدت درد سے پھٹ رہا ہے۔۔ یہ تو کربلا کے مصائب معلوم ہوتے ہیں، جہاں طفل شیرخوار کو آغوش پدر میں نحر کیا گیا تھا۔۔
اے میرے غمخوار۔۔ مدینہ اب کربلا بن چکا ہے۔۔۔ حرملا کھلے عام پھرتے ہیں۔۔
یہ کہہ کر کبوتر بقیع نے پرواز کے لئے اپنے پروں کو آمادہ کیا۔۔
میں یہاں سے پرواز کرکے مسجد جمکران جا رہا ہوں، خدا کی بارگاہ میں استغاثہ بلند کرنے کہ خدا قائم آل محمد (عج) منتقم کربلا کو جلد اذن ظہور دے۔
کبوتر حرم نے بھی جھالیوں سے اپنے پیر جدا کرتے ہوئے اڑان بھری۔۔
اس کربناک خبر نے میرا سینہ غم سے چھلنی کر دیا ہے۔۔ رکو۔۔ میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔۔
اب مھدئ موعود ہی میرے غمزدہ دل کو سکون دے سکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 777575
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش