9
Thursday 14 Feb 2019 01:53

ذکریا الجابر کی شہادت پر ’’ریاست مدینہ‘‘ کی خاموشی!

ذکریا الجابر کی شہادت پر ’’ریاست مدینہ‘‘ کی خاموشی!
تحریر: عرفان علی 

پاکستان کی انصافین حکومت کے وزیراعظم عمران خان نے متعدد مرتبہ پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرح کی ریاست بنانے کی بات کی۔ انہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ ریاست مدینہ وجہ تخلیق کائنات حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی ریاست کو کہا جاتا ہے۔ آقا و مولا خاتم الانبیاءﷺ کے ایک خطبے کو حقوق انسانی کا عالمی چارٹر قرار دینے والے کھلاڑی سے کوئی یہ پوچھے کہ اس خطبے کا اطلاق اس چھ سالہ بچے ذکریا ال جابر پر کیوں نہیں کیا گیا، جس کو اس کے شیعہ ہونے کی وجہ سے اس کی ماں کے سامنے بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ عربستان نبویﷺ، شہر پیامبر اعظم مدینہ منورہ میں دن دہاڑے کھلے عام ٹوٹے ہوئے شیشے سے اس کے نازک جسم پر ضربیں لگائی گئیں۔ اس کا جرم یہ تھا کہ وہ اور اس کی ماں شیعہ مسلمان تھے، انہوں نے خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰﷺ اور انکی آل مطھر پر درود و سلام بھیجا۔ اس قابل مذمت اور افسوسناک قتل پر پاکستان کی بزعم خویش ریاست مدینہ کا کوئی ردعمل۔؟؟

مسٹر پرائم منسٹر! ریاست مدینہ نے عام شہری کو بھی حکومتی عمال سے سوال کا حق دے رکھا تھا۔ اگر جان کی امان پاؤں تو عرض کروں تو ذرا یہ تو بتایئے کہ ریاست مدینہ نے کس بادشاہ یا سلطان کے آگے کشکول، ہاتھ یا جھولی پھیلا کر قرضہ لے کر ریاست چلائی تھی؟ ذرا یہ بھی بتا دیجیئے کہ ریاست مدینہ میں کس بادشاہ یا ولی عہد سلطنت کو شوقیہ شکار کی اجازت دی گئی؟ اور سب سے زیادہ اہم سوال یہ کہ ریاست مدینہ میں کون سے بادشاہ یا ولی عہد سلطنت کا ایسا استقبال کیا گیا، جیسا کہ آج کل اسلام آباد میں تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ ایک ایسے وقت کہ جب مدینہ میں ننھے ذکریا ال جابر کی مظلومانہ شہادت ہوئی ہے، نیا پاکستان جنرل ضیاء کے پاکستان میں تبدیل کیا جا رہا ہے، اور ضیاء صاحب کا پسندیدہ مشغلہ بھی اپنے نظریات کو مذہبی و مقدس اسلامی رنگ دینا ہی تھا۔ ایک سپر پاور کی دوسری سپر پاور سے بذریعہ پراکسی جنگ کو افغان جہاد کا مقدس نام دیا گیا تھا۔ ایک ایسے وقت کہ جب سعودی و اماراتی یمن میں بلاوجہ کی جنگ مسلط کرکے مسلم عرب کشی میں مصروف ہیں، جب جمال خاشقچی کے قتل پر عالمی رائے عامہ مخالف ہے، تب اس سے قرضے لے کر پاکستان کو ایک اور مرتبہ جنرل ضیاء کی افغان پالیسی کے دور کے ریورس گیئر میں ڈال دینا اور پھر اسی پرانے امریکی ڈرامے کا ری میک تیار کرنا، یہ انصافین حکومت کا خودکش حملہ تو ہوسکتا ہے، ریاست مدینہ کی طرف جانے والا راستہ نہیں ہوسکتا۔

ریاست مدینہ کا سپہ سالار بادشاہوں کا ملازم نہیں بنا کرتا۔ ریاست مدینہ کا سپہ سالار کسی ولی عہد سلطنت کے دورے کے لئے اپنے ہی ملک میں سلطنت کا پروٹوکول افسر بن کر نہیں آتا۔ ریاست مدینہ تو دور کی بات، اقوام متحدہ کے تحت جو انٹرنیشنل لاء نافذ ہے اور اس کے تحت بین الاقوامی تعلقات کی تاریخ میں بھی ایسی کوئی مثال ڈھونڈنے سے نہیں ملے گی۔ ریاست مدینہ اپنی شرائط پر دنیا سے تعلقات رکھتی ہے اور خاص طور پر ظالم و جابر سلطنتوں اور بادشاہتوں سے ریاست مدینہ کبھی بھی دوستانہ تعلقات رکھنے کے حق میں نہیں رہی۔ ریاست مدینہ انسان کش مسلم شیوخ و شاہ کی جنگوں میں سہولت کار نہیں بنا کرتی۔ ریاست مدینہ میں حکومتی عمال یو ٹرن نہیں لیا کرتے، ان کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہوتا، اگر حق پر مبنی کوئی موقف اختیار کر لیا تو پھر پہاڑ تو اپنی جگہ سے ہل سکتا ہے، ریاست مدینہ کو اس کے مبنی بر حق موقف سے ہٹانا لوح محفوظ پر بھی تحریر نہیں ہوتا۔ ریاست مدینہ دوغلی نہیں ہوا کرتی۔ علی الاعلان ڈنکے کی چوٹ پر آزاد فیصلہ کرتی ہے۔ ریاست مدینہ میں مظلوم کی مدد فوری طور کی جاتی ہے، کیونکہ ریاست مدینہ کو اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ مظلوم کی دادرسی نہ ہوئی تو اس کی آہ نے عرش الٰہی کو ہلا دینا ہے۔

جناب وزیر اعظم! ریاست مدینہ سلطنتوں سے ڈکٹیشن بھی نہیں لیا کرتی۔ ریاست مدینہ کسی ٹرمپ، کسی زلمے خلیل زاد کے لئے دیدہ و دل فرش راہ نہیں کرتی۔ ریاست مدینہ میں پینٹاگون کے حکام کے دورے بھی نہیں ہوا کرتے۔ ریاست مدینہ اپنی شرائط پر امن و جنگ کی قائل ہوا کرتی ہے، مسلط کردہ امن کو بھی قبول نہیں کرتی۔ یوں ہی پاکستان میں جشن آزادی کے ایام میں یہ نغمہ نہیں گونجتا: ہم تا بہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں۔ ریاست مدینہ میں عدلیہ کی نظر میں مریم نواز اور علیمہ خان برابر ہوتے ہیں، ان کے لئے دو الگ معیار قضاوت نہیں ہوا کرتے۔ ریاست مدینہ کے حکام کی گردن میں سریا نہیں ہوا کرتا یعنی اکڑفوں، تکبر نہیں ہوا کرتا۔ ریاست مدینہ جائز تنقید و مخالفت و شفاف احتساب پر کاربند رہتی ہے، ریاست مدینہ میں بلدیاتی ادارے کے کرائے دار دکاندار کی دکان نہیں گرائی جاتی اور ریاست مدینہ میں بنی گالہ کی غیر ریگولر زمین کو ریگولرائزیشن کی سہولت نہیں دی جاتی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ریاست مدینہ کے حکام و عمال پردیس کے پلے بوائے بھی نہیں ہوا کرتے۔ ریاست مدینہ ایک مقدس ریاست کا نام ہے، الٰہی ریاست کو ریاست مدینہ کہا جاتا ہے۔ ریاست مدینہ کے حکام اس طرح کی بونگیاں نہیں مارا کرتے، دیگر اداروں کے معاملات میں نہ ٹانگ اڑاتے ہیں، نہ دیگر کی مداخلت کو برداشت کرتے ہیں۔

ریاست مدینہ فلسطین پر اپنا حاکم مقرر کرتی ہے، دشمنوں کا قبضہ نہ تسلیم کرتی ہے اور نہ ہی سرنگوں ہوتی ہے۔ ریاست مدینہ کا ایسا کوئی مفاد نہیں ہوتا، جو کسی نیتن یاہو، کسی ریبائی کے ذریعے پورا ہوتا ہو۔ مدینہ جائے امن ہے۔ مدینہ شہر پیغمبر خاتم ﷺ ہے۔ مدینہ ایسی مقدس سرزمین ہے، جہاں خاتون جنت بی بی سیدہ زہراء سلام اللہ علیہا کا وہ گھر ہوا کرتا تھا، جو رحمت عالمینﷺ کو بہت ہی پیارا ہوا کرتا تھا۔ ریاست مدینہ نے دنیا کو اسلام کی دعوت دی، انسانوں کو دین حنیف اسلام پر عمل کرکے مسلمان و مومن بننے کی دعوت دی اور بی بی سیدہ سلام اللہ علیہا کے نورعین امام حسن و امام حسین علیہما السلام کو جنت کے جوانان کا سردار قرار دیا۔ یہ ریاست مدینہ کی آئیڈیالوجی ہے۔ مدینہ شہر پیغمبرﷺ ہے۔ ریاست مدینہ اس نظریئے کی امین ہے۔ یہ ریاست مدینہ کی ڈاکٹرائن ہے۔ ریاست مدینہ تکفیریوں کی سرپرستی نہیں کرتی۔ ریاست مدینہ قانون کی حکمرانی کا مظہر ہوتی ہے، ریاست مدینہ نے ہمیشہ اسٹیٹ ایکٹرز کے ذریعے معاملات چلائے، یہ نان اسٹیٹ ایکٹرز کو نظریہ ضرورت کے تحت بھی قبول نہیں کیا کرتی۔

ریاست مدینہ مجسم عدل و انصاف ہوا کرتی ہے۔ شہر پیغمبرﷺ میں ذکریا ال جابر جیسے معصوم بچے کو اس کی ماں کی آنکھوں کے سامنے بے دردی سے قتل کرنے والوں، ایسے قتل کے حق میں تبلیغات کرنے والوں اور اس جرم کی اعانت و حمایت کرنے والوں کو جو ریاست سزا نہ دے سکے، وہ سب کچھ ہوسکتی ہے، ریاست مدینہ نہیں ہوسکتی اور جو اس قاتل آئیڈیالوجی کے سرپرست ولی عہد سلطنت کے استقبال کی مد میں بیت المال سے بے دریغ خرچہ کرے، وہ قیصر و کسریٰ کی استبدادی ریاست تو کہلائی جاسکتی ہے، ریاست مدینہ ہرگز نہیں کہلائی جاسکتی۔ اگر ریاست مدینہ ہوتی تو مدنی مدینے والے پر درود و سلام بھیجنے والے شش سالہ شہید بچے کی ماں کی فریاد ضرور سنتی اور انصاف بھی کرتی۔ ذکریا الجابر شہید مدینہ ہے، اس لئے اس کیس کا فیصلہ ریاست مدینہ کے بانی کی عدالت ضرور کرے گی، آج نہیں تو کل سہی!
خبر کا کوڈ : 777900
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش