0
Saturday 16 Feb 2019 03:29

سینچری ڈیل اور دورہ پاکستان

سینچری ڈیل اور دورہ پاکستان
اداریہ
امریکی نائب صدر مائیک پینس نے پولینڈ کے شہر وارسا میں منعقدہ کانفرنس کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ یورپی ممالک نے ایران سے رابطہ رکھا تو دوست ممالک میں خلیج بڑھے گی۔ پینس نے کہا ایران کی انتہاء پسند حکومت نئے ہولوکاسٹ کی سازش کر رہی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ یورپی پارٹنرز ایران کے خلاف واشنگٹن کے ساتھ کھڑے ہوں۔ ادھر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے  امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ ایران کا مقابلہ کیے بغیر  مشرق وسطیٰ میں سلامتی اور امن کو یقینی نہیں بنایا جاسکتا۔ در این اثناء صدر ایران ڈاکٹر حسن روحانی نے وارسا کانفرنس کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پولینڈ میں جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں، اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ فلسطینی حکام نے بھی وارسا کانفرنس کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی قبضے کو ایک معمول قرار دینے کے علاوہ کچھ نہیں۔ صدر محمود عباس کے مشیر نبیل شعث نے اپنے کالم میں لکھا  ہے کہ وارسا میں امریکہ نے جس طرح اسرائیلی حکومت کو مکمل سپورٹ کیا، وہ اسرائیلی قبضے کو جائز قرار دینے کی کوشش اور فلسطینیوں کے حق خود ارادیت سے انکار کے علاوہ کچھ نہیں۔

دنیائے عرب کے سیاسی ماہرین نے اس کانفرنس میں امریکی بیانات اور وارسا میں نتین یاہو سے عرب حکام کی خفیہ و آشکارا ملاقاتوں کا مقصد سینچری ڈیل کو آگے بڑھانا اور عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش قرار دیا۔ اس کانفرنس پر سب سے دلچسپ تبصرہ قطر کے سابق وزیر خارجہ حمد بن جاسم بن جبر آل ثانی کا ہے، انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک ٹوئٹ میں یہ اعلان کرتے ہوئے کہ وارسا کانفرنس فلسطینیوں کے حقوق کے خلاف تھی، لکھا ہے کہ منگنی پہلے ہی ہوچکی تھی، اب شادی وارسا میں ہوئی ہے اور وہاں موجود لوگ یا گواہ تھے یا تقریب میں بلائے گئے مہمان تھے۔ مصری اخبار الشروق کے ایک تجزیے میں آیا ہے کہ امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں امن و صلح کو فروغ دینے کا دعویٰ کرکے وارسا میں ایک کانفرنس کی، تاکہ پہلے مرحلے میں ایران کے خلاف اپنی اقتصادی اور سیاسی پابندیوں کو وسعت دے اور پھر نہایت ڈھٹائی سے مشرق وسطیٰ میں اپنی سینچری ڈیل کو آگے بڑھائے۔ امریکہ کی ٹرمپ حکومت نے گذشتہ دو برسوں میں کئی بار کوشش کی کہ سینچری ڈیل کے منصوبے کو سرکاری سطح پر متعارف کرائے، تاہم عالم اسلام کی رائے عامہ کی بڑے پیمانے پر مخالفت اور اس منصوبے کے سلسلے میں عرب ممالک کے درمیان کھلے اختلافات اسکے راستے میں رکاوٹ بنے۔

وارسا کانفرنس اپنے انعقاد سے پہلے ہی شکست  سے دوچار ہوچکی تھی، کیونکہ اس کے مزموم اہداف سب کو سمجھ آگئے تھے، یہی وجہ ہے کہ فلسطین کے تمام گروہوں سمیت اردن، عراق، لبنان سمیت عرب دنیا کے عوام نے اسے سختی سے مسترد کر دیا تھا۔ اس کانفرنس کے فیصلے جوں جوں سامنے آئیں گے، اس کانفرنس کے انعقاد کرنے والوں اور ان میں شریک افراد کے خلاف نفرتیں بڑھیں گی۔ عالم اسلام اور حریت و آزادی کے دلدادہ افراد چاہے وہ کسی بھی ملک میں بستے ہوں، وہ اس ناانصافی کو اتنی آسانی سے ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کانفرنس کے ایک اہم ستون اور فلسطینیوں کے خون کا سودہ کرنے والا آل سعود کا کھلنڈرا ولی عہد ایم بی ایس پاکستان اور ملائشیا کو سنچری ڈیل پر اعتماد میں لینے کے لئے ان ملکوں کا دورہ کرنے والا ہے، اب دیکھیں ان ملکوں کے عوام اس پر کیا ردعمل دکھاتے ہیں۔ حکومت پاکستان نے تو ڈکٹیٹر شپ اور انسانی حقوق کی پامالی کے اعلانیہ مرتکب اور ایک صحافی کے قاتل کے خلاف عوام کی آواز کو دبانے کے لئے پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع کرکے اپنے موقف کا اظہار کر ہی دیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 778222
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش