0
Saturday 16 Feb 2019 13:58

جناب جان کا تحفظ درکار ہے، کونسا در کھٹکھٹائیں۔؟

جناب جان کا تحفظ درکار ہے، کونسا در کھٹکھٹائیں۔؟
تحریر: عمران خان

بیروزگار نوجوان ہے، پندرہ دن پہلے والد کا انتقال ہوا، گھر میں جوان بہنوں، بیوہ والدہ اور چھوٹے بھائی کی ذمہ داری کندھوں پہ ہے۔ والد کی زندگی کی ساری جمع پونجی آخری دو برسوں کی علالت کھا گئی۔ کام، کاروبار، روزگار اور دیگر مسائل منہ پھاڑے سفید پوشی کا بھرم ہڑپنے کو تیار ہیں کہ اچانک سرشام تین پولیس اہلکار آن حاضر ہوئے۔ دعا سلام کے بعد انہوں نے ایڈوائزری نوٹ تھما دیا۔ زبانی کلامی بس اتنا بتایا کہ شہر کے حالات سازگار نہیں ہیں۔ آپ کی جان کو خطرہ ہے۔ زیادہ گھر سے باہر نکلنے سے اجتناب کریں، آمدروفت سے متعلق کسی کو آگاہ نہ کریں، راستے اور وقت کی روٹین روزانہ کی بنیاد پہ تبدیل رکھیں۔ اپنے ساتھ کارآمد اسلحہ رکھیں۔ کیوں۔؟ کیونکہ آپ ٹارگٹ کلرز کی ہٹ لسٹ پہ ہیں۔ وجہ۔؟ وجہ محض اتنی ہے کہ آپ کے والد امام بارگاہ کے جھاڑو بردار تھے، ان کی وفات کے بعد لازماً آپ یہ خدمت سرانجام دیں گے، چنانچہ آپ کی جان کو خطرہ ہے۔ چوبیس سالہ بیروزگار نوجوان اتنا بھی نہ کہہ سکا کہ اگر خطرہ میری جان کو ہے تو مجھے تحفظ دینے کی ذمہ داری کس کی ہے۔؟ جن سے مجھے خطرہ ہے، انہیں گرفتار کرنے کی ذمہ داری کس کی ہے۔؟

سب سے بڑھ کر یہ کہ نہ میں نے کسی کو تکلیف دی، نہ کسی کو گالی دی، نہ کسی کو جانی و مالی نقصان پہنچایا، پھر ’’کوئی‘‘ میری جان کا دشمن کیوں ہے۔؟ اور اگر کوئی بلاوجہ یا اپنے پاگل پن کی وجہ سے میری جان لینے کے درپے ہے اور پولیس و اداروں کو اس کے بارے میں علم بھی ہے تو ’’آپ‘‘ انہیں گرفتار کریں۔ ان کے اس پاگل پن کا علاج کریں۔ پولیس اہلکاروں سے اس ملاقات کے بعد پریشان نوجوان اس سوچ میں ہے کہ گھر میں والدہ، بھائی اور بہنوں کے ساتھ بھوک و افلاس اور غربت کی موت قبول کرے یا گھر سے باہر روزگار کے تلاش کرکے محنت و ہمت سے گھر والوں کا پیٹ پالے اور ذہنی و فکری افلاس کا شکار ’’نامعلوم‘‘ ٹارگٹ کلرز کے ہاتھوں قتل ہو جائے۔ شائد کہ ٹارگٹ کلنگ کی موت کو بھی ترجیح دے، مگر ماں، بھائی اور بہنیں والد کے بعد کیا یہ صدمہ برداشت کر پائیں گی۔؟ یہ جان لیوا سوال بھی اپنی جگہ ایک حقیقت۔

جان کا تحفظ کون دے گا اور کیسے دے گا۔ ڈی آئی خان کی تحصیل پروآ میں زخمی ایس ایچ او طاہر کو تھانے کا چارج لئے تھوڑا عرصہ ہوا تھا۔ تھانے کی دیگر موبائل بھی معمول کے گشت پہ تھیں، مگر دہشت گردوں کے لشکر نے مخصوص مقام پہ طے شدہ منصوبے کے تحت مکمل پلاننگ کے ساتھ حملہ کیا۔ پولیس موبائل پہ ہونے والے اس دہشت گردانہ حملے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، ہمیشہ کی طرح اس سانحہ کے بعد بھی رسمی مذمتی بیانات کا سلسلہ جاری ہے، جبکہ ایسے سانحات کی مستقل روک تھام یا پائیدار قیام امن کیلئے جو حکمت عملی درکار ہے، وفاقی، صوبائی حکومتوں اور اداروں کی جانب سے اس کا فقدان محسوس ہوتا ہے۔ دہشت گردوں کے باخبر اور منظم نیٹ ورک کا اندازہ لگانے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ جس دن نئے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر نے چارج سنبھالا، اسی دن سی ٹی ڈی اہلکار محمد کامران کو اس کے گھر کے قریب ہی گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا۔

گلی قریشاں والی میں پڑے اس کا لہو ابھی پوری طرح خشک بھی نہیں ہوا تھا کہ پولیس موبائل پہ دہشت گردوں کے لشکر نے حملہ کرکے دہشت گردی کے خلاف اب تک کے تمام اقدامات و انتظامات پہ سوالیہ نشان ثبت کر دیا۔ جہاں موٹر سائیکل پہ سوار کوئی ٹارگٹ کلر کسی اہلکار یا مسلک، مکتب کی بنیاد پہ کسی بے گناہ کو شہید کریں تو کہا جاسکتا ہے کہ دہشتگردوں کی باقیات ہیں، انفرادی سطح پہ سرگرم فراری دہشتگرد ہیں، مگر جہاں درجن بھر مورچہ زن دہشت گرد پولیس موبائل پہ تربیت یافتہ انداز میں حملہ کرکے اہلکاروں کو شہید کریں اور پھر اس کی فخر کے ساتھ ذمہ داری قبول کریں تو وہاں عوام میں عدم تحفظ اور غیر یقینی صورتحال کا احساس نہ صرف شدت اختیار کر جاتا ہے بلکہ امن و امان کے حوالے سے کئے گئے اقدامات کے دعوے بھی کمزور اور کھوکھلے محسوس ہوتے ہیں۔

ڈی آئی خان کی تحصیل پروآ میں دہشت گردی یا ٹارگٹ کلنگ کی یہ کوئی پہلی کارروائی نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی یہاں پولیس اہلکاروں اور مسلکی شناخت رکھنے والے اہل تشیع کو مسلسل نشانہ بنایا گیا۔ جس کے خلاف یہاں کے لوگوں نے شدید احتجاج بھی کیا، یہاں تک کہ جنازے سڑکوں پہ رکھ کر کئی کئی گھنٹے دھرنے دیکر بیٹھے رہے۔ ہر قتل کے بعد اعلٰی افسران نے وعدہ کیا کہ وہ دہشتگردوں اور ان کے سہولتکاروں کو نشان عبرت بنائیں گے، مگر شہیدوں کی تدفین کے ساتھ یہ تسلیاں اور وعدے بھی دفن کئے گئے۔ 12 فروری کو تھانہ پروآ کی پولیس موبائل معمول کے گشت پہ تھی کہ ملتان روڈ ماہڑہ اڈا اباسین فلنگ سٹیشن کے قریب گھات لگائے درجن بھر دہشت گردوں نے اچانک حملہ کر دیا۔ مختلف اطراف سے فائرنگ اور دستی بموں کے ہونے والے حملے نے اہلکاروں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ نتیجے میں ایس ایچ او تھانہ پروا طاہر نواز خان اور دیگر پولیس اہلکار ڈرائیور محمد جاوید، ڈی ایف سی آصف نواز اور گن مین کانسٹیبل سرفرار اور کانسٹیبل میر باز شدید زخمی ہوگئے۔

ایس ایچ او طاہر نواز کی جوابی فائرنگ سے دہشت گرد پیچھے ہٹ گئے۔ دہشت گردوں کی فائرنگ کے نتیجے میں گاڑی میں موجود چاروں پولیس اہلکار زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موقع پر ہی شہید ہوگئے جبکہ یسٰین اور حمید نامی دو راہ گیر بھی شدید زخمی ہوگئے۔ جائے وقوعہ کے قریب ہی دہشت گردوں نے بارودی مواد سے بھرا ایک رکشہ تیار کرکے کھڑا کیا ہوا تھا۔ دہشت گردوں کا ممکنہ پروگرام یہی تھا کہ جائے وقوعہ پہ جب اعلیٰ افسران، پولیس اور سکیورٹی فورسز کے اہلکار اور میڈیا کے نمائندے جب اکٹھے ہوں تو دھماکہ کرکے مزید تباہی کی جائے۔ تاہم موقع پہ پہنچنے والے پولیس اہلکاروں نے اس منصوبے کا بروقت ادراک کر لیا اور بی ڈی ایس نے رکشہ کو فائرنگ کے ذریعے تباہ کر دیا اور مزید نقصان سے بچت ہوگئی۔

حملے کی ذمہ داری حزب الاحرار نے قبول کی جبکہ اس حملے کے چند گھنٹوں بعد ہی سوشل میڈیا پہ تحریک طالبان کا ایک کھلا خط جاری کیا گیا، جس میں اس کارروائی کو ردعمل قرار دیا گیا اور اس خط میں دھمکی دی گئی کہ پولیس اور فورسز پہ مزید حملے نہ صرف عوامی مقامات اور دفاتر پہ کئے جائیں گے بلکہ اب گھروں کے اندر بھی اہلکاروں اور دیگر مسلکی شناخت کے حامل افراد کو نشانہ بنایا جائے گا۔ اسی دوران سوشل میڈیا پہ کالعدم لشکر جھنگوی کے نام سے بھی ایک پیغام جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا تھا کہ ہمارے حملہ آور ابھی متحرک نہیں ہیں، اگر وہ حرکت میں آئے تو مزید تباہی پھیلے گی۔ (کھلے خط اور پیغام میں جو الفاظ استعمال کئے گئے وہ تحریر میں قابل استعمال نہیں)۔

آرمی پبلک سکول پشاور پہ حملہ کرنے والے دہشتگردوں کی تعداد تقریبا 10 تھی جبکہ پروآ پولیس پہ حملہ آوروں کی تعداد اس سے زیادہ ہے۔ درجن بھر یہ حملہ آور تاحال آزاد ہیں اور اس سے زیادہ تباہی پھیلانے کا ارادہ اور منصوبہ بھی رکھتے ہوں گے۔ ان کے سہولت کار بھی موجود ہوں گے۔ اس حملے سے قبل انہوں نے منصوبہ بندی کی ہوگی۔ اسی علاقے کے اندر یا نزدیک ٹھکانے پہ اکٹھے ہوئے ہوں گے۔ ایک کڑا سوال تو اطلاعات کے نظام پہ اٹھتا ہے کہ درجن بھر دہشت گردوں کی اس منصوبہ بندی کی خبر اداروں کو کیوں نہ ہوئی۔؟ ضرب عضب کے بعد جاری ردالفساد کے تحت ہونے والے کومبنگ آپریشنز سے یہ عناصر کیونکر محفوظ رہے۔؟ اتنی مقدار میں اسلحہ اور بارود کی فراہمی کیسے اور کیونکر ممکن ہوئی۔؟ کون سے چور راستے ہیں کہ جو تاحال قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ جہاں سے دہشت گرد آتے ہیں اور مذموم عزائم حاصل کرنے کے بعد اسی میں روپوش ہو جاتے ہیں۔

مذکورہ حملے کی ذمہ داری پہ مبنی بیان اور ٹی ٹی پی کے دھمکی آمیز کھلے خط روایتی اور سوشل میڈیا پہ کن ذرائع سے جاری ہوئے۔؟ ’’دہشت گردوں نے کیا اور کیسے کیا ہے‘‘ سے زیادہ تشویشناک سوال ’’دہشت گرد کیا کرسکتے ہیں‘‘ ابھر کر سامنے آرہا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ پروآ سے ہی تعلق رکھنے والے اقبال عرف بالا نامی مفرور دہشت گرد گروہ پولیس، سکیورٹی فورسز اور اہل تشیع پہ مسلسل حملہ آور ہے۔ مذکورہ دہشت گرد کے خلاف پولیس اور سکیورٹی فورسز نے آپریشنز بھی کئے ہیں۔ پروآ سے اس کے ٹھکانے بھی ختم کئے، اس کے باوجود یہ دہشتگرد اپنے گروہ کے ساتھ اسی علاقے میں سرگرم ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کوئی روزانہ یا ہفتوں کی بنیاد پہ افغانستان تو نہیں جاتا، تخت سلمان اور بلوچستان کے نزدیکی علاقوں میں روپوش ہوتا ہے اور کارروائیوں کیلئے اس علاقے کا رخ کرتا ہے۔ پروآ پولیس موبائل پہ حملے میں 7 موٹر سائیکل استعمال ہوئے، یقینی طور پہ ان میں کئی موٹر سائیکل وہ ہوں گے کہ رواں برس تھانہ کینٹ اور سٹی کی حدود سے جو یکے بعد دیگرے چوری ہوئے۔ جن میں سے بعض کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی موجود ہیں۔

حملے کی ذمہ داری تو حزب الاحرار نے قبول کی، مقامی ذرائع بالے کے گروپ کو ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ حملہ درجن بھر افراد نے نصف درجن سے زائد موٹر سائیکلوں پر سوار ہو کر کیا ہے اور موٹر سائیکل چوری کے واقعات سٹی اور کینٹ کی حدود میں ہوئے ہیں۔ بالفرض اگر ان تمام کے مابین معمولی سا بھی کوئی تعلق ہے تو دہشت گردوں کا یہ نیٹ ورک تشویشناک حد تک وسیع اور بااثر ہے، جو کہ شہر کے اندر مکمل منظم انداز میں آپریٹ کر رہا ہے، یہ تحصیل پروآ میں پولیس پر لشکر کشی کرنے کے ساتھ ساتھ تھانہ سٹی کی حدود میں واقع امام بارگاہ کے جھاڑو بردار کو بھی نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے، دہشت گردی کے ایسے وسیع نیٹ ورک کے خاتمے کیلئے غیر معمولی اور ہنگامی اقدامات درکار ہیں، یہ اقدامات کس نے اور کیسے لینے ہیں، اس کا فیصلہ تاحال نہیں کیا گیا۔ شہری پریشان ہیں کہ جان کے تحفظ کیلئے کونسا دروازہ کھٹکھٹائیں۔؟
خبر کا کوڈ : 778312
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش