0
Sunday 17 Feb 2019 12:03

کمپیوٹر اور استاد کا کیا مقابلہ

کمپیوٹر اور استاد کا کیا مقابلہ
تحریر: اسماء طارق، گجرات
 
 اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ دور سب سے تیز رفتار اور ترقی یافتہ دور ہے، یہ ساری ترقی ٹیکنالوجی کے مرہون منت ہے اور یہاں کمپیوٹر کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ جہاں پہلے کسی معلومات کیلئے کئی کتابوں کو کھوجنا پڑتا تھا، اب وہیں ساری معلومات ایک کلک پر آپ کے سامنے جن کی طرح حاضر ہو جاتی اور آپ اس سے مستفید ہوسکتے ہیں۔ ہر شعبے سے وابستہ لوگوں کیلئے تجربہ کار افراد کی رہنمائی صرف سرچ کے ایک کلک پر موجود ہے۔ سوشل میڈیا رابطے کا آسان اور سستا ذریعہ ہے، آپ جہاں اور جس جگہ بھی ہوں، وہیں سے میلوں دور بیٹھے افراد سے نہ صرف بات کرسکتے بلکہ انہیں دیکھ بھی سکتے ہیں نیز جب چاہیں اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کریں۔ گویا فاصلے سمٹ گئے اور دوریاں ختم ہوگئی ہیں۔ اب آپ کے لیے کسی بھی چیز تک رسائی حاصل کرنا قطعاً مشکل نہیں رہا ہے، مگر اس سب کے باوجود کمپیوٹر استاد کا نعم البدل نہیں ہوسکتا ہے۔

بےشک آپ کو کمپیوٹر کی مدد سے ہر طرح کی معلومات تو ایک کلک پر میسر ہیں، مگر یہ ضروری نہیں کہ یہ معلومات صحیح اور درست بھی ہوں۔ کمپیوٹر ہمیں معلومات تو دے سکتا ہے، مگر صحیح اور غلط کی تمیز نہیں سکھا سکتا، جو استاد ہمیں سکھاتا ہے۔ کمپیوٹر انسان کو ذہین تو بنا سکتا ہے مگر اس کی تربیت نہیں کرسکتا۔ گویا کہ ٹیکنالوجی کی مدد سے کمپیوٹر کتنی ہی جدت اختیار کیوں نہ کر لے، مگر استاد کا مقابلہ نہیں کرسکتا ہے، کیونکہ استاد آپ کو اپنے تجربات اور مشاہدات سے سکھاتا ہے جبکہ کمپیوٹر کے پاس ایسا کوئی نظام نہیں ہے، جہاں وہ اچھائی برائی کو پرکھ کرسکے۔ استاد آپ کو ہاتھ پکڑ کر چلنا سکھاتا ہے جبکہ کمپیوٹر صرف سکرین دکھا سکتا ہے اور کمپیوٹر تو بجلی اور انٹرنیٹ کا محتاج ہے۔

استاد آپ کی زندگی میں بہت اہمیت کا حامل  ہوتا ہے، شاید ہی ماں باپ کے علاوہ کوئی ذات آپ کی ذات پر اتنا اثر رکھتی ہے، جتنا استاد رکھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم ہمیشہ اپنے استاد کی طرح بننے کی کوشش کرتے تھے، ہم ان کے جیسا دکھنا چاہتے ہیں۔ استاد کا کردار ہمیشہ سے آپ کی زندگی کا اہم جزو ہوتا ہے اور یہ کردار آپ کی ذات سے جھلکتا بھی ہے، کیونکہ استاد ہمیں صرف پڑھاتے ہی نہیں بلکہ وہ ہماری ذات کی تشکیل بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی لیے تو استاد کا مقام بہت بلند ہے۔ مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ ٹیچنگ کے شبعے میں جتنا ظلم اب ہو رہا ہے، شاید ہی پہلے کبھی ہوا ہو۔ ہمارا استاد کورس، بچوں کی بھرمار اور مہنگائی میں پس رہا ہے، بچہ نمبروں کے پیچھے بھاگ رہا ہے، اس دوڑ میں نہ کوئی کچھ سکھا پا رہا ہے اور نہ کوئی سیکھنا چاہتا ہے، جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے ہر ملک میں استاد سے زیادہ کسی شخص کا پروٹوکول نہیں ہے اور ہمارے ملک میں استاد پستی کے انتہائی درجے پر ہے۔

اسی لئے تو یہاں کوئی اپنی مرضی سے استاد نہیں بننا چاہتا، جس کے پاس کوئی راستہ نہیں بچتا، وہ اس شعبے کی طرف آجاتا ہے اور صد افسوس کہ ہمیں ہمارے ٹیچر سے یہ سننے کو ملتا ہے کہ کبھی استاد نہ بننا، بڑی ذلالت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ایک مفلوج قوم پیدا ہو رہی ہے، کیونکہ یہ قوم  استاد کی اہمیت کو سمجھ نہیں پا رہی، جبکہ استاد ہی وہ ذات ہے، جو پوری قوم کو بناتا اور اسے تشکیل دیتا ہے۔ ہمارا تو یہ حال ہے کہ میٹرک تک ہم سوال سے بھاگتے ہیں اور اگر کبھی کر دیں تو سب آپ کو ایسے دیکھتے ہیں، جیسے کوئی پاگل ہو اور پھر زندگی ہمیں ٹھوکریں مار کر سب سکھاتی ہے۔ جب تک ہم استاد کے وقار کو معاشی اور معاشرتی ہر لحاظ سے بلند  نہیں کرتے، ہم یونہی پستے رہیں گے، کیونکہ استاد ایک ایسی نعمت ہے، جسکا کوئی نعمت البدل نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 778496
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش