0
Tuesday 19 Feb 2019 15:39

جموں اور بھارتی ریاستوں میں کشمیری مسلمانوں پر تشدد

جموں اور بھارتی ریاستوں میں کشمیری مسلمانوں پر تشدد
رپورٹ: جے اے رضوی  

مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ میں مشکوک فدائین حملے کے بعد جس طرح سے ریاست جموں و کشمیر بھر میں صورتحال تبدیل ہوئی وہ انتہائی تشویشناک ہے۔ اس تباہ کن حملے پر ردعمل سامنے آنا فطری عمل ہے لیکن صورتحال کے تئیں انتظامیہ و پولیس کی غفلت سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندو انتہا پسندوں نے جموں میں چُن چُن کر مخصوص طبقہ کی گاڑیوں اور املاک کو نقصان پہنچایا اور مسلسل کئی دن تک لاقانونیت کا ننگا ناچ  برپا کردیا، جس سے نہ صرف ریاست جموں و کشمیر کے اندر تاریخی اور روایتی فرقہ وارانہ بھائی چارے کو شدید نقصان پہنچانے کی کوشش کرکے امن و قانون کا مسئلہ کھڑا کردیا گیا، بلکہ اسی طرح سے بھارت بھر میں بھی کشمیری طلباء اور تاجروں کو نشانہ بنانے کی جو مہم شروع کردی گئی، وہ انتہائی خطرناک و تشویشناک ہے۔ واضح رہے کہ جمعرات کو پیش آئے پلوامہ واقعہ کے خلاف جموں چیمبر آف کامرس اور بار ایسوسی ایشن جموں کی طرف سے جمعہ کے روز جموں بند کی کال دی گئی تھی، جس دوران جموں کے گرد و نواح کے ساتھ ساتھ خطہ چناب اور خطہ پیر پنچال میں بھی جزوی طور پر بند رہا اور متعدد مسلم اکثریتی علاقوں میں بھی اس کال کی حمایت کی گئی تاہم اس کے باوجود ایک منصوبہ بند طریقہ کے تحت جموں کے ہندو اکثریتی علاقوں گوجر نگر، پریم نگر، جوگی گیٹ، وزارت روڈ، شہیدی چوک، گمٹ، بس اسٹینڈ، نروال، جانی پور و دیگر مقامات پر کشمیری مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے لگ بھگ 90 گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا، جن میں سے 40 کے قریب گاڑیاں مکمل طور پر تباہ ہوگئی ہیں جبکہ مکانات، ہوٹلوں اور دیگر املاک پر بھی شدید پتھراؤ کرکے انہیں نقصان پہنچایا گیا۔

پُرامن بند کو جس طرح سے ہجوم کی طرف سے بغیر کسی جوازیت کے یکایک پرتشدد مہم میں تبدیل کیا گیا اور پولیس کی طرف سے جمعہ کو مسلسل چھ گھنٹوں تک بلوائیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ان کے خاموش تماشائی بنے رہنے سے بلوائیوں کے حوصلے بلند ہوئے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ اس دانستہ لاعملی پر طرح طرح کے سوالات کھڑے ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سنجیدہ فکر حلقوں میں انتظامیہ اور پولیس کی نیت کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا ہے۔ گورنر انتظامیہ اور پولیس کی طرف اتنے بڑے پیمانے پر تباہی مچانے کے بعد بھی اس قدر لاپرواہی کا مظاہرہ کیا گیا کہ کرفیو لگانے کے احکامات جاری کرتے کرتے دن کے ڈھائی بجا دیئے گئے اور پھر کرفیو کے بعد بھی بلوائیوں کی کارروائیاں بغیر کسی خوف و خطر کے تب تک جاری رہیں جب تک کہ فوج نے فلیگ مارچ نہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ جموں چیمبر نے بھی انتظامیہ کو اس کی ناکامی کے لئے مورد الزام ٹھہرایا اور ان واقعات کو جموں کے لئے شرمندگی کا باعث قرار دیا۔ اگر جموں کے باشعور حلقے مداخلت نہیں کرتے تو اس بات کا شدید خطرہ لاحق ہوگیا تھا کہ گوجر نگر اور تالاب کھٹیکاں میں فرقہ وارانہ کشیدگی سنگین رخ اختیار کرلیتی، جو ایک بدترین سانحہ سے کم نہ ہوتا تاہم مقامی ہندو اور مسلمان طبقوں کے وہ تمام افراد قابل ستائش ہیں، جنہوں نے اس نازک صورتحال کو بھانپتے ہوئے تصادم پر آمادہ دونوں گروہوں کے بیچ انسانی دیوار کھڑی کردی اور اس طرح سے ایک بہت بڑا سانحہ ہوتے ہوتے ٹل گیا۔

اس پوری صورتحال کے دوران اگر پولیس کے کردار پر بات کی جائے تو یہ سب نے دیکھا کہ پولیس کے سامنے ہندو انتہا پسند گاڑیوں کو نذر آتش کرتے رہے، دوکانوں کی تھوڑ پھوڑ کرتے رہے اور گھروں پر پتھر برساتے رہے، مگر ان کے خلاف موقع پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور نہ انہیں روکنے کی کوشش کی گئی۔ کیا یہ امن و قانون کے اس کلیدی ادارے کی بے بسی تھی یا پھر کچھ اور؟ اس بات کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ جموں خطہ خاص کر جموں شہر میں سیاسی غلبے کی دعویدار کچھ سیاسی جماعتوں کی طرف سے اس ظلم و تشدد کے خلاف جس عنوان سے مکمل خاموشی اختیار کی گئی اور ان کی طرف سے انتظامیہ کو متحرک ہونے پر آمادہ نہ کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس صورتحال سے کہیں نہ کہیں ان کے مفادات کی تکمیل ہورہی ہے۔ بھائی چارے کی آماجگاہ کہلائے جانے والے جموں میں فی الوقت اقلیتی طبقے خود کو غیر محفوظ تصور کرنے لگے ہے اور ریاست کے متعدد خطوں سے تعلق رکھنے والے اور مقامی لوگ محفوظ جگہوں پر پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں جبکہ سول سیکرٹریٹ کے ملازمین نے بھی سکیورٹی فراہم نہ ہونے پر وادی واپس چلے جانے کا انتباہ دیا ہے۔

جموں میں جہاں بلوائیوں نے کشمیری طلاب و ملازموں پر حملے جاری رکھے وہیں دوسری طرف بھارت کی دوسری ریاستوں میں کشمیری مسلمانوں کے خلاف لوگوں میں پائے جانے والے غصے کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ بہار میں ایک نمائش میں جن کشمیریوں نے اپنے سٹال قائم کئے تھے اور جہاں انہوں نے اپنا مال و اسباب جس کی قیمت کا اندازہ کروڑوں روپے لگایا جارہا ہے، سجایا تھا کو مقامی غنڈوں نے ان کے سٹال تہس نہس کرکے ان کی مارپیٹ کی اور ان کو چوبیس گھنٹے کا الٹی میٹم دے کر فوری طور بہار سے چلے جانے کے لئے کہا۔ اسی طرح چندی گڈھ میں بھی کشمیریوں سے کہا گیا کہ وہ فوری طور وہاں سے واپس چلے جائیں۔ اس سے قبل دہرہ ڈون، ہریانہ، امبالہ اور راجستھان کے تعلیمی اور تربیتی اداروں میں جو کشمیری طلاب زیر تعلیم ہیں ان کو بھی کالج خالی کرنے کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔ کئی ایک کی مارپیٹ بھی کی گئی۔ اسی طرح دہلی اور دوسری ریاستوں سے جو اطلاعات موصول ہوئی ہیں وہاں بھی کشمیریوں سے کہا گیا کہ وہ وہاں سے واپس چلے جائیں۔

پلوامہ میں جو واقعہ رونما ہوا اس کی آڑ میں پورے بھارت میں کشمیری مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ایسی آندھی چلائی جارہی ہے جس پر کشمیری عوام انتہائی پریشان کن صورتحال سے دوچار ہیں، اس وقت ہزاروں کشمیری ملازمین جن کے ساتھ ان کے معصوم بچے بھائی، بہن اور والدین بھی ہیں جموں کی مساجد میں موجود ہیں۔ دوسری جانب بھارت میں زیر تعلیم طلباء جان بچانے کی خاطر تعلیم ادھوری چھوڑ کر مقبوضہ کشمیر واپس لوٹنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ ایسے میں ہزاروں طلبہ و طالبات اور تاجر حضرات جموں اور بھارت کی دوسری ریاستوں میں قیام پذیر ہیں ان کو تحفظ دینے اور شرپسند عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی ضرورت ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی گورنر انتظامیہ کو چاہیئے کہ جموں میں رہ رہے کشمیریوں کے جان و مال کو تحفظ دینے کے لئے ہر ممکن اقدام کریں۔ پلوامہ واقعے کے خلاف ان کو اپنا ردعمل ظاہر کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے لیکن کشمیری ملازمین نے ان کا کیا بگاڑا ہے جو وہ ان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہیں۔ کشمیری لوگ امن و امان اور فرقہ وارانہ اتحاد کے حامی ہیں اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ جموں کے علاوہ بھارت کی دوسری ریاستوں جہاں کہیں بھی کشمیری مسلمان موجود ہیں کو بھرپور تحفظ فراہم کیا جائے ادھر مقبوضہ کشمیر کی مشترکہ مزاحمتی قیادت نے کہا ہے کہ کشمیری مسلمان اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ انہوں نے مقبوضہ کشمیر سے مکمل فوجی انخلاء کی بات بھی دہرائی۔
خبر کا کوڈ : 778685
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش