1
Monday 18 Feb 2019 17:57

شاہی مہمان کی نفرت انگیز پریس کانفرنس، عزائم آشکار

شاہی مہمان کی نفرت انگیز پریس کانفرنس، عزائم آشکار
رپورٹ: ایس اے زیدی
 
کسی بھی ترقی پذیر یا ترقی یافتہ ملک کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ خطہ میں موجود ممالک کے ساتھ اپنے عوام اور مملکت کے مفاد میں اچھے تعلقات استوار کرے، یہ تعلقات برابری کی بنیاد اور باوقار ہوں تو اس ملک کے عوام کا سر فخر سے بلند ہوتا ہے، پاکستان میں جولائی 2018ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی عمران خان کی حکومت سے کئی دہائیوں سے مختلف نوعیت کی مشکلات اور مسائل میں گھرے پاکستان کے عوام کو کئی امیدیں وابستہ تھیں، ان مسائل و مشکلات میں ایک عنصر ملک کی خارجہ پالیسی تھا۔ عمران خان کے اقتدار میں آنے سے قبل سیاسی جدوجہد بالخصوص انتخابی مہم کے دوران سابق حکومتوں کی خارجہ پالیسیوں پر تنقید اور اقتدار میں آنے کی صورت میں مضبوط، باوقار اور بیلنس خارجہ پالیسی کی تشکیل کے وعدوں کیوجہ سے عوام کو قوی امید تھی کہ اب پاکستان کو خارجہ پالیسی کے حوالے سے بھی ایک مقام ملے گا۔ پاکستان کے عوام کے مزاج، سابقہ تجربات اور یہاں موجود مختلف مکاتب فکر کی موجودگی کی وجہ سے ضروری تھا کہ نئی حکومت پاکستان امت مسلمہ کے دو اہم ممالک سعودی عرب اور ایران کیساتھ تعلقات میں توازن رکھے۔
 
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے سعودی عرب کا پہلا دورہ کرنے بعد سے مختلف چہ مہ گوئیاں شروع ہوگئی تھیں، پھر یہ بھی اطلاعات آنا شروع ہوئیں کہ سعودی حکومت ایک بار پھر پاکستان کے سیاسی نظام میں مداخلت کرتے ہوئے شریف خاندان کی کرپشن مقدمات سے جان چھڑوانا چاہتی ہے، جس پر عوام میں خاصی بے چینی بھی دیکھنے میں آئی۔ عمران خان نے اقتدار میں آنے کے بعد ملک کی گرتی ہوئی معیشت اور بری اقتصادی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئی آئی ایم ایف سے قرضے لینے کی بجائے دوست ممالک سے رابطے کئے اور ان سے سرمایہ کاری اور تجارت بڑھانے کے معاہدے کئے، جو کہ ایک خوش آئند اقدام تھا۔ تاہم گذشتہ ماہ سے یہ خبریں گردش کرنے لگیں کہ حکومت پاکستان سعودی عرب سے تاریخی معاہدے دستخط کرنے جا رہی ہے، جو کہ لگ بھگ 20 ارب ڈالر کے ہوں گے۔ اتنے بڑے سرمایہ کاری معاہدے کیلئے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پاکستان آئیں گے۔ اسی سلسلے میں گذشتہ روز محمد بن سلمان ایک بھاری وفد کے ہمراہ پاکستان کے تاریخی دورہ پر پہنچ گئے۔ ملکی دگرگوں اقتصادی صورتحال کو دیکھتے ہوئے پاکستانی عوام نے محمد بن سلمان جیسے متنازعہ شخص کے دورہ پاکستان کو بھی برداشت کر لیا۔
 
سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان کے دوسرے روز ان کے ہمراہ آئے سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے اپنے میزبان ہم منصب شاہ محمود قریشی کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کی۔ اس دوران سعودی وزیر خارجہ نے اس دورہ کے پس پردہ مقاصد کا اظہار کر دیا، وہ بظاہر دورہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ایران مخالف روٹ پر پلٹ گئے اور کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ ایران خود دہشتگردی برآمد کرنے والا ملک ہے، لیکن دوسروں پر دہشت گردی کا الزام لگا رہا ہے، ایرانی وزیر خارجہ دہشت گردی کے پھیلاؤ کا ذریعہ ہیں، انقلاب ایران کے بعد سے ایران دہشت گردی کا سب سے بڑا پشت پناہ ہے، جس نے لبنان میں حزب اللہ اور یمن میں حوثی جیسی دہشت گرد تنظیمیں بنائی ہیں، امریکا اور سعودی عرب سمیت متعدد ممالک میں دہشت گرد حملوں میں ایران ملوث رہا ہے اور دہشت گرد تنظیموں کو اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کرتا ہے۔ عادل الجبیر نے مزید الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ نائن الیون کے بعد سے ایران نے القاعدہ کی قیادت اور اسامہ بن لادن کے بیٹے کو پناہ دے رکھی ہے، دہشت گرد آزادانہ ایران میں نقل و حرکت کرتے ہیں، سعودی عرب خود اس کی دہشت گردی کا نشانہ ہے، لیکن ہم ہوشیار ہیں اور دہشت گردوں اور ان کے مددگاروں کے خلاف کارروائی میں بے رحم ہیں۔
 
سعودی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ایران کی جانب سے یمن، شام اور دیگر ممالک کے داخلی معاملات میں مداخلت کی جاتی ہے، لیکن ایرانی حکومت کو خود اپنے عوام کی مخالفت کا سامنا ہے۔ عادل الجبیر کی اس نفرت انگیز پریس کانفرنس نے سعودی عرب کے عزائم کو مزید واضح کر دیا۔ واضح رہے کہ محمد بن سلمان کے اس دورہ پاکستان پر ملک کے اہم طبقات کو شدید تحفظات تھے، خاص طور پر پاکستان میں بسنے والے اہل تشیع شہریوں نے اس متنازعہ شخص کے دورہ پر اپنے شدید ردعمل کا اظہار بھی کیا۔ وفاقی وزیر سید علی زیدی کی جانب سے محمد بن سلمان کے دورہ سے قبل شیعہ قائدین سے رابطہ اور ملکی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی قسم کے احتجاج سے گریز کرنے کی اپیل پر ملک کی شیعہ قیادت نے تمام تر اختلافات اور تحفظات کے باوجود محض ملکی مفادات کی خاطر کسی قسم کے احتجاج سے اجتناب کیا۔ اس دوران وزارت داخلہ کی جانب سے ایک متنازعہ اور توہین آمیز نوٹیفکیشن بھی جاری کیا گیا، جس میں بعض شیعہ تنظیموں کیخلاف بالخصوص اس دورہ کے تناظر میں کمپین چلانے پر کارروائی کے احکامات شامل تھے، جبکہ شیعہ مسلک کی توہین بھی کی گئی تھی۔
 
اس متنازعہ نوٹیفیکیشن پر ملت جعفریہ کے شدید ردعمل کے بعد اسے واپس لے لیا گیا، جبکہ بعض نوجوانوں کو گرفتار کرنے کے بعد رہا بھی کر دیا گیا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ عمران خان جنہیں قوم نے اس بار مینڈیٹ اس لئے دیا تھا کہ وہ سابقہ پالیسیوں کے تسلسل سے نکل کر آزاد، بیلنس اور ملکی مفادات پر مبنی خارجہ پالیسی مرتب کریں گے، سعودی ولی عہد کے اس دورہ، ان کو غیر ضروری پروٹوکول اور مہمان نوازی کے نام پر انتہائی معذرت خواہانہ رویہ نے قوم بالخصوص ان کے ووٹرز اور سپورٹرز کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ پاکستان کو کسی بھی ملک کیساتھ تعلقات پر آزاد ہونا چاہیئے، پاکستان کو نہ سعودی کالونی بننا چاہیئے اور نہ ہی ایران کی، تاہم حکومت پاکستان نے جس طرح سعودی ولی عہد کی آمد پر Over-react کیا، اس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ پاکستان کسی متنازعہ بلاک کی طرف جا رہا ہے۔ سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کی پریس کانفرنس نے سعودی حکومت کے ان عزائم کو بھی واضح کر دیا ہے کہ وہ اس خطہ میں ایران مخالف لابنگ قائم کرنا چاہتا ہے، ان اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے پیچھے امریکی مفادات ہیں، جس کا مقصد چین اور ایران کو پاکستان سے دور کرنا ہے، کیونکہ چین کی ترقی امریکہ کو ہضم نہیں ہو رہی اور ایران کا وجود ریاض اور واشنگٹن کے مکروہ عزائم میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
خبر کا کوڈ : 778705
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش