1
Thursday 21 Feb 2019 22:34

تاجر کا کوئی نظریہ اور دین نہیں ہوتا

تاجر کا کوئی نظریہ اور دین نہیں ہوتا
تحریر: سید اسد عباس
 
تجارت ایک باوقار اور منفعت بخش پیشہ ہے، مگر شرط یہ ہے کہ ایمانداری سے کیا جائے۔ احادیث میں ہے کہ رزق کے اگر دس حصے تصور کیے جائیں تو نو حصے تجارت میں ہیں جبکہ ایک حصہ باقی کاموں میں ہے۔ ہمارے پیارے نبی نے اپنی معاشی زندگی کا آغاز بھی مال تجارت کی فروخت سے کیا اور اسی سفر میں آپ کی ایمانداری آپ کے حضرت خدیجہ سے عقد کا باعث بنی۔ قرآن کریم میں ایسی اقوام کا بھی تذکرہ ملتا ہے، جو تجارت میں بے اعتدالی برتتی تھیں، ناپ تول میں کمی کرتی تھیں، نیز سود کو اپنا ذریعہ معاش بنایا ہوا تھا۔ ایسا اکثر ہوتا ہے، مال جب آنا شروع کرتا ہے تو حلال حرام کی تمیز معدوم ہونے لگتی ہے۔ پہلے پہل انسان اپنے عمل کی کوئی توجیح نکالتا ہے اور آخر کار اسے اس بات کا بالکل خیال نہیں رہتا کہ وہ جو کچھ کما رہا ہے، وہ اس کے لیے جائز ہے بھی یا نہیں۔ ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، گراں فروشی اور آج کی دنیا کے جدید حربے معاشرے میں عام ہو جاتے ہیں اور معاشرہ فساد کی جانب بڑھنے لگتا ہے۔
 
ناپ تول میں کمی جیسے چھوٹے واقعہ کو بیان کرکے قرآن کریم نے اس عمل کے معاشرے پر اثرات کو واضح کیا ہے اور بتایا ہے کہ یہ خرابی کس حد تک معاشرے کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ جدید دنیا میں تجارت سادہ اشیاء کی خرید و فروخت تک محدود نہیں رہ گئی ہے۔ سرمایہ دار دنیا میں نظام وضع کرچکے ہیں۔ اس سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ہی حکومت سازی، ادارہ سازی، اقوام کے مقدر کا تعین کیا جاتا ہے۔ اس سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں ہی اشتراکی نظام آیا، جس نے سرمایہ داری کو ایک لعنت قرار دیا اور پھر وہ دوسری انتہا تک جا پہنچے۔ یہ بات عمومی تجربے کا حصہ ہے کہ تاجر متنازع امور سے دور ہی رہتا ہے، کیونکہ متنازع بن کر وہ اپنے کاروبار کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ لہذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ تاجر کا تجارت کے علاوہ کوئی دین، مذہب یا نظریہ نہیں ہوتا ہے۔ شاید اسی لیے تجار کو حاکم بنانے سے منع کیا گیا۔

پاکستان کے موجودہ وزیراعظم، منصب وزارت سنبھالنے سے قبل کچھ اسی انداز کا بھاشن دیا کرتے تھے کہ یہ لوگ سرمایہ دار ہیں، یہ لوگ تاجر ہیں، ان کا اصل ہدف اپنے سرمائے کو بڑھانا ہے۔ یہ اگر ملک سے مخلص ہوتے تو اپنا سرمایہ ملک میں رکھتے۔ میرا سارا مال ملک میں ہے، میرا ذریعہ معاش تجارت نہیں ہے، لہذا مجھ سے توقع نہیں کی جاسکتی کہ میں اپنے ذاتی سود و زیاں میں پڑ جاؤں گا۔ وزیراعظم عمران خان منصب سنبھالنے سے قبل بہت کچھ کہا کرتے تھے، مثلاً میں کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاؤں گا، کیونکہ جب کوئی قوم کسی سے قرض لیتی ہے تو وہ قرض دینے والے کی غلام بن جاتی ہے۔ اس کی خارجہ پالیسی آزاد نہیں رہتی۔ وہ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ میں ملک کو کسی بھی بیرونی جنگ کا حصہ نہیں بناؤں گا، ہم نے امریکہ کی جنگ لڑ کر دیکھ لی ہے، جس سے ہمیں نقصان ہی ہوا ہے۔

 
وہ فرماتے تھے کہ میں اپنی قوم اور ملک کو اس کا کھویا ہوا وقار واپس دلواؤں گا۔ یقیناً وہ اس کے لیے کوشاں بھی ہوں گے۔ ان کے چند ایک ابتدائی اقدامات سے ایسا لگا بھی کہ شاید اب پاکستان کی تقدیر بدل رہی ہے۔ ہم نے پہلی مرتبہ امریکی صدر کو ڈو مور کا جواب دیا۔ ہم نے آئی ایم ایف کی شرائط کو من و عن ماننے سے انکار کر دیا، ہم نے مسلم امہ کے مسائل میں ثالثی کی بات کی۔ پھر اچانک سے اڑن کھٹولا اڑا اور حجاز و امارات میں اترنے لگا۔ یقیناً کسی نے خان صاحب کو کہا ہوگا کہ فقط باتوں سے پیٹ نہیں بھرتا ہے، ملک چلانے کے لیے وسائل درکار ہیں۔ گذشتہ حکومتوں کے لیے ہوئے قرضے واپس کرنے ہیں، ان کی سود کی قسطیں ادا کرنی ہیں، پیٹرول درکار ہے، زرمبادلہ کے ذخائر گر رہے ہیں۔ محترم وزیراعظم غیروں سے مانگنے سے بہتر ہے انسان اپنوں سے سوال کرے، یقیناً وہ ہمیں نامراد نہیں چھوڑیں گے۔
 
اپنے تو اسی انتظار میں تھے کہ ان کے سر سے سریا نکلے اور یہ دنیا میں رائج نظاموں کو سمجھیں۔ ان کو معلوم ہو کہ دنیا کا معاشی، سیاسی، دفاعی نظام بعض طاقتوں اور ان کے گماشتوں کے ہاتھوں میں ہے۔ خطے اور ممالک ان کے مابین تقسیم ہیں، اگر اپنی بقاء چاہتے ہو تو اب سیاسی نعروں اور دعووں سے باہر نکلو اور زمینی حقائق کا سامنا کرو۔ یقیناً اس سے فرار ممکن نہیں تھا یا تو یہ ہوتا کہ قوم معاشی تسلط کے خاتمے کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے آمادہ ہوتی اور اپنے مستقبل کے لیے گھاس پھوس پر گزارہ کر لیتی، جو کہ نہیں ہے تو دوسری صورت وہی راہ ہے، جس پر سابقین چلتے آئے اور آنے والوں کو چلتے رہنا ہے۔ ہمیں ادھار تیل اور ضمانتی رقم پہلی مرتبہ نہیں ملی ہے، یہ سلسلہ عرصہ بیس برس سے جاری ہے، تاہم اس سے کبھی بھی ہمارے حالات نہیں بدلے، ہم آج بھی کشکول اٹھائے دنیا میں چکر لگاتے پھر رہے ہیں۔ یہ شاید ہمارا نصیب ہے، جس سے نکلنے کے لیے ہمیں کچھ وقت اور بلند ہمت افراد درکار ہیں۔ عمران خان یقیناً اپنے کہے کے مطابق چلنے کی کوشش کر رہے ہوں گے، دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس عزم پر کب تک قائم رہ سکتے ہیں۔
 
گذشتہ چند دنوں میں ملک میں پیش آنے والے واقعات نے جہاں بہت سوں کو خوش کیا، وہاں بہت سوں کی امیدوں پر پانی بھی پھر گیا۔ آزاد خارجہ پالیسی، ثالثی، کشکول توڑنے کی باتیں سب گیس والے غبارے کی مانند فضاؤں میں بلند ہوتی نظر آئیں۔ بیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری نے ہمیں زمین پر لیٹنے اور اپنی ہی کہی ہوئی باتوں سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ مہمان نوازی، سفارت کاری، سفارتی آداب سب اپنی جگہ، مگر یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور تھا پوری ریاستی مشینری ایک ایسے شخص کے استقبال کے لیے سراپا نیاز تھی، جسے دنیا میں اچھے نام سے یاد نہیں کیا جاتا ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان یقیناً پاکستانی مسلمانوں کے لیے ایک قابل احترام ملک کے ولی عہد ہیں، لیکن ان کا ماضی، حال اور حکومتی کارنامے کچھ ایسے بھی شاندار نہیں ہیں کہ ان کو اپنے سروں کا تاج بنا لیا جائے۔
 
ہماری مہمان نوازی، وضع داری اپنی جگہ تاہم ایک نظریاتی ریاست کو بہرحال نظریاتی ہی ہونا چاہیئے، اسے اس امر کا لحاظ رکھنا چاہیئے کہ اس کے کسی عمل سے اس کے اپنے نظریات کی دھجیاں نہ اڑ جائیں، کہیں ہمارا کوئی عمل کسی مظلوم کے لیے اذیت کا باعث نہ بنے۔ یہ وضع داری قائد اعظم بھی دکھا سکتے تھے۔ پہلے اسرائیلی وزیراعظم کے تار کے جواب میں اتنا ہی تو لکھنا تھا کہ ہم آپ کی گذارش پر غور کریں گے، تاہم انھوں نے واضح اور واشگاف طور پر لکھا کہ دنیا کا ہر مسلمان اسرائیل کو قبول کرنے کی نسبت موت کو ترجیح دے گا۔ قابل احترام اسلامی ملک کا شہزادہ سرمایہ کار ہے، جس نے ہندوستان میں سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے کیے ہیں اور انھیں یہ توفیق نہیں ہوئی کہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی کو دہشت گردی کہنے پر بھارت کو ٹوکیں۔ بعض لوگوں کو یہ خوشی تو ہے کہ انھوں نے پاکستان کا نام نہیں آنے دیا، لیکن کشمیر کا مسئلہ کیا فقط پاکستان کا مسئلہ ہے؟ کیا کشمیری انسان نہیں ہیں، کیا ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سب کچھ ہے، تاہم شہزادہ ایک تاجر تھا کیوں متنازع بات کرتا۔
 
مگر ہمارے ملک میں وہ ایک برادر اسلامی ملک کے خلاف متنازع بیان بھی دے گئے اور کئی ایک تحریکوں کو دہشت گرد بھی قرار دے گئے۔ شاید عمران اور ان کے ساتھیوں کا خیال ہو کہ مصیبت کی گھڑی ہے، یہی مناسب صورت ہے، جس سے اپنی مشکلات کو کم کیا جاسکتا ہے، لہذا اس وقت کچھ اصولوں پر سمجھوتہ کرنا ہی مناسب ہے۔ بات ذہن میں آتی ہے، تاہم کب تک۔؟ کیا ہم اپنی بھوک مٹانے کے لیے کسی دوسرے انسان کی بھوک کا باعث بن سکتے ہیں۔؟ کیا اپنی صنعت کا پہیہ چلانے کے لیے ہم کسی دوسرے ملک کی معیشت کو تباہ کرنے میں حصہ دار بن سکتے ہیں۔؟ کیا اپنی سالمیت کے لیے کسی کے وجود کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔؟ اگر ایسا ہے تو ہمیں تقسیم ہند کے سارے عمل کو ریورس گیئر لگانا چاہیئے، کیونکہ اس خطے میں جو کچھ ہوا سب نظریہ کی بنیاد پر ہوا۔ اگر وہ نظریہ اور فکر ہی دم چوڑ چکی ہے تو پھر آگے کس ہدف کے لیے بڑھنا ہے۔ عوام اور زمین تو پہلے بھی موجود تھے اور یہ تاقیامت رہیں گے۔ وطن عزیز کے قیام کی بنیاد نظریہ ہے۔ جو ہمارے دین کی تعلیمات پر مبنی ہے، یہی ہمارا امتیاز ہے۔
خبر کا کوڈ : 779327
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش