0
Sunday 24 Feb 2019 08:30

قاتل کون؟؟؟

قاتل کون؟؟؟
تحریر: اسماء طارق، گجرات
 
سب صحیح کہتے ہیں کہ میں زمین پر بوجھ ہوں، اس لئے مجھے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے، میرا مر جانا ہی بہتر ہے۔ کاغذ پر یہ سطریں بکھری پڑی تھیں، جو زمین پر علی کے ساتھ گرا پڑا تھا، علی کے منہ سے سفید جاگ نکل رہی تھی۔ مریم اماں سے کہتی ہے، یہ علی کہاں ہے؟ کب سے بلا رہی ہوں، مجھے کوثر کی طرف جانا ہے۔ کہیں موبائل پر لگا ہوگا نمرہ سے باتیں کرنے۔ آپ اسے سمجھاتی کیوں نہیں۔ اماں کہتی ہے، میں کیا سمجھاؤں وہ سمجھتا کب ہے میری، ویسے بھی بچپن کی منگنی ہے۔ مریم اگے سے، ہاں آپ کیوں سمجھائیں گی، وہ تو ویسے بھی آپ کا لاڈلا ہے، اب میں خود ہی جا رہی ہوں، اس نے تو سننی نہیں بات، آجکل رہتا بھی اتنا چڑچڑا ہے۔ نمرہ فون پر ایمان سے کہتی ہے، میں نے توڑ لی ہے منگنی علی سے، میں تنگ آگئی تھی اس کے پاگل پن سے، وہ نفسیاتی مریض بن چکا ہے۔ ابھی بابا اور پھوپھو لوگوں کو نہیں پتہ، مگر اماں کو بتا دیا ہے، انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ میرا ساتھ دیں گی اور بابا کو منا لیں گی۔ ارشاد صاحب علی کے ابا کہتے ہیں، علی کی اماں آپکا لاڈلا کہاں ہے، لوگوں کی اولاد بڑھاپے میں ان کا سہارا بنتی ہے، پر ایک ہماری اولاد ہے نکمی۔۔ تو اماں کہتی ہے، علی کمرے میں ہوگا، آپ دیکھ لیں۔
 
ارشاد صاحب علی کے کمرے کی طرف جاتے ہیں، مگر دروازہ اندر سے بند ملتا ہے، غضے سے بہت بار کھٹکھٹاتے ہیں، مگر کوئی جواب نہیں ملتا، آخر پریشانی کے عالم میں رقیہ بیگم سے چابی لانے کا کہتے ہیں۔ رقیہ بیگم پریشانی کے عالم میں چابی لاتی ہیں اور دروازہ کھولتی ہیں، مگر اندر کا منظر دل دہلا دینے والا تھا، علی آخری  سانسیں لے رہا تھا، ابا اماں کے پیروں تلے سے زمین نکل جاتی ہے۔ فوراً ایمبولینس منگوائی جاتی ہے، ہر طرف ماتم کا سماں بندھ جاتا ہے۔ آخری وقت میں بھی اسے ان آوازوں سے نجات نہیں مل رہی تھی، جنہوں نے اس کا جینا دوبھر کر رکھا تھا۔
اماں: علی بڑا ہو کر کیا بنے گا۔
علی: اماں میں بڑا ہو کر وزیراعظم بنوں گا۔
ابا: میرا بیٹا تو بڑا آدمی بنے گا۔
مریم: جب تمہاری نوکری لگے گی تو میں سونے کا ہار لوں گی۔
نمرہ: ہماری شادی ایسی ہوگی کہ دنیا دیکھے گی۔
کالج میں استاد: واہ علی تم نے تو کمال کر دیا، تم ضرور کامیاب آدمی بنوں گے۔
 
نوکری کے لئے انٹرویو میں: معاف کیجئے گا، آپ کے پاس تجربہ نہیں،
معاف کیجئے گا، آپ کے پاس نوٹ نہیں،
معاف کیجئے گا، آپ کے پاس تعلق نہیں،
معاف کیجئے گا، آپ کے لیے جگہ نہیں ہے۔
ابا: بڑھاپے میں اولاد کھلاتی ہے اور یہاں والدین کو جوان اولاد کو کھلانا پڑ رہا ہے۔
اماں: پتہ نہیں تمہیں کب نوکری ملنی، تمہاری بہن بوڑھی ہو رہی ہے۔
نمرہ: نوشین کے منگیتر کو دیکھا ہے، کتنی اچھی پوسٹ پر ہے، روز اپنی منگیتر کے لیے نئے نئے تحفے لاتا ہے۔ تمہیں تو پتہ نہیں نوکری کب ملنی ہے۔
مریم: کچھ اور بھی کر لیا کرو، انٹرویو دینے اور پلنگ توڑنے کے سوا۔
ابا: پتہ نہیں نکمی اولاد ہمیں ہی ملنی تھی۔
نمرہ: مجھے اب تم جیسے پاگل انسان سے تعلق رکھنا ہی نہیں۔
یہ آوازیں اس کا گلا گھونٹ رہی تھی، جو آخر اس کو نگل گئی تھیں۔
ڈاکٹر: معاف کیجئے گا، ہم آپکے بیٹے کو بجا نہیں پائے۔

یہ کہانی تو یہی رک جاتی ہے، مگر اس ماں کا حال کیا ہوگا، جس کے اکلوتے جوان بیٹے نے خودکشی کر لی ہو، اس باپ کا کیا حال ہوگا، جس کی آنکھیں کسی نے چھین لی ہوں، اس بہن کا کیا حال ہوگا، جس کی آخری امید دم توڑ گی ہو۔ یہ صرف  علی کی کہانی نہیں ہے، بلکہ ہمارے کئی نوجوانوں کی کہانی ہے، جو حالات کے ہاتھوں پس رہے ہیں۔ دن بدن خودکشی کرنے والے نوجوان بڑھ رہے ہیں، جس میں بڑی وجہ کرپشن کی وجہ سے نوجوانوں کو میرٹ پر نوکری نہ ملنا ہے، جو انہیں ذہنی طور پر اس قدر ڈپرس اور پریشان کر دیتا ہے کہ وہ پاگل پن کا شکار، نشے کے عادی اور خودکشی جیسی حرام موت تک کو گلے لگا لیتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ خودکشی حرام ہے، مگر قتل بھی حلال نہیں ہے۔ یہ بڑھتی ہوئی کرپشن ان نوجوانوں کی قاتل ہے، جو آنکھوں میں خواب لیے تعلیمی اداروں سے فارغ ہوتے ہیں، مگر ہمارا کرپٹ سسٹم انہیں کرپشن کی چکی میں ایسا گماتا ہے، جہاں وہ کسی قابل نہیں رہتے، یہاں تک کہ اپنے قابل بھی نہیں۔

ہمیں اب اس کے خلاف آواز اٹھانی ہوگی، ایسا نہ ہو کہ کہیں دیر ہو جائے۔ یہاں  نوجوانوں کے پاس مقصد نہیں ہے، وہ نفسیاتی مریض بنتے جا رہے ہیں۔ خواہشات اور توقعات سائے کی طرح ان کا پیچھا کر رہی ہیں۔ نوجوان چیزوں کی طلسماتی دنیا کے حصار میں ہیں، وہ اپنے آپ سے دور ہیں۔ انہیں اچھے نمبر چاہیئں، کیونکہ اماں نے کہا ہے، تمہارا پھوپھو کے بیٹے کے ساتھ  مقابلہ ہے اور تم نے اول آنا ہے۔ اسے نہیں پتہ کہ وہ کیوں پڑھ رہا ہے، اسے تو بس اول آنا ہے، کیونکہ اماں نے کہا ہے۔ میڑک ہوگیا  مبارک ہو، اب ڈاکٹر یا انجینئر بننا ہے، وگرنہ خاندان میں ناک کٹ جائے گی۔ کورس کے علاوہ کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگانا، نمبر متاثر ہونگے، شادی بیاہ کی تقریبات میں  نہیں جانا، ٹیسٹ کی تیاری کرنی ہے۔ ڈاکٹر بننا ہے کیونکہ نانی کا خواب  تھا، انجینئر بننا ہے کیونکہ پردادا نے خواب دیکھا تھا کہ ہماری نسل میں ایک انجینئر ضرور ہوگا۔

کالج میں داخلہ نہیں ملا، دوبارہ ٹیسٹ دو اور بار بار دو، یہاں تک کہ پاگل نہ ہو جاو۔ یہاں نہ جاو، وہاں نہ جاو، یہ پڑھو، وہ نہ پڑھو، سب یہی کر رہے مگر آخر میں نوکری کہیں نہیں ملنی ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے نوے فیصد لوگ صرف مقام و رتبے اور نوکری کے لیے پڑھ رہے ہیں، انہیں نہیں پتہ کہ وہ کیا پڑھ رہے ہیں اور کیوں، بس نمبر چاہیئں اور ڈگری چاہیئے، کسی بھی طریقے سے ملے اور حاصل ہو اور پھر اچھی سی نوکری، بس یہی ان کا مقصد ہے اور یہی زندگی۔ اسے ہی ہمارے ادارے اور والدین فروغ دے رہے ہیں اور جب انہیں یہ سب نہیں ملتا تو وہ دیوانے ہو جاتے ہیں، کیونکہ اب انکے پاس کرنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ پھر یہاں سے پریشر، وہاں سے پریشر، کبھی خاندان کا کبھی دنیا کا، ایسے بچے نفسیاتی مریض نہ بنیں تو اور کیا بنیں۔

ہمیں سوچنا چاہیئے کہ ہم کیا کر رہے ہیں، ہم اپنی محرومیوں کی سزا اپنے بچوں کو  نہیں دے سکتے ہیں اور نہ انہیں اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھا سکتے ہیں۔ انہیں ان کا مقصد تلاش کرنے اور اس کے لئے کوشش کرنے دیں، آپ دیکھیئے گا کہ وہ ضرور  کامیاب ہونگے، آپ کا نام بھی روشن کریں گے اور اس کے ساتھ ہمیں قومی سطح پر بھی اپنے اداروں اور سسٹم کو ایسی کالی بھیڑوں سے بچانا ہے، جو کرپشن کو فروغ دے رہی ہیں، اس کے لئے احتساب کے عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہے اور انہیں بہتر کرنا ہے۔ اس کے لئے میڈیا کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہے اور حکومت پر زور ڈالنا ہے۔
خبر کا کوڈ : 779754
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش