0
Thursday 28 Feb 2019 16:39

مرد باید کہ ہراساں نشود

مرد باید کہ ہراساں نشود
تحریر: عظمت علی
 
آج کے اس ترقی یافتہ دور میں دنیا کا ہر انسان کامیابی کی ہمالیائی چوٹی فتح کرنے میں کوشاں ہے۔ طالب علم، استاد بننا چاہتا ہے۔ استاد، پروفیسر کی جگہ حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگا ہے۔ پروفیسر، پرنسپل کے عہدہ پر فائز ہونا چاہتا ہے اور اسی طرح ڈاکٹر، سرجن کے مقام تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ گو کہ دنیا کا ہر شخص اپنے ترقیاتی امور کو دھیان میں رکھتے ہوئے اپنا کام انجام دے رہا ہے، لیکن کتنے فیصد لوگ ترقی کی بلندیوں پر پاوں جماتے ہیں۔ یہ ایک سوال ہے اور اس کا تخمینہ لگانا ذرا مشکل طلب جواب ہے۔ جنہیں اپنے مقصد کے حصول میں کامیابی نصیب ہو جاتی ہے، وہ پھولے نہیں سماتے، مگر جن کو خاطر خواہ کمال تک دسترس نہیں ہو پاتی، وہ بس افسردہ دل اور خانہ نشین ہو جاتے ہیں۔ یہ کام  صحیح نہیں ہے، ایک طفلانہ حرکت محسوس ہوتی ہے، مایوس نہیں ہونا چاہیئے. اس لئے کہ ناکامی، کامیابی کا پیش خیمہ ہوا کرتی ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے مقصد میں ناکام ہو جاتا ہے تو اسے اتنا تو ضرور معلوم ہو جاتا ہے کہ کامیابی اس راہ سے نہیں ہے، لہذا اسے کسی اور جانب تلاش کرتے ہیں۔
 
ایڈیسن، ہزار کوششوں کے بعد دنیا کو روشن کرنے میں کامیاب ہوا۔ اس سے پوچھا گیا کہ ہزارہا بار ناکامیابی سے کیا درس لیا تم نے؟ اس نے جواب دیا: ہزار کوششوں کے بعد مجھے اتنا تو معلوم ہو چلا کہ ان چیزوں سے بلب نہیں بن سکتا۔ لہذا دوسری راہ سے اس کی تلاش کی جائے۔ اگر اس مسئلہ کو باریک بینی سے دیکھا جائے تو یہ راز عیاں ہوتا ہے کہ ناکامی، دراصل کامیابی سے جدا نہ ہونے والا حصہ ہے اور سب کو معلوم ہے کہ بڑی کامیابی چھوٹی چھوٹی ناکامیوں کی مرہون منت ہوتی ہے۔ اس ناکامی کے دور میں انسان کو دل برداشتہ نہیں ہونا چاہیئے۔ اگر کائنات کا ہر ناکام آدمی ہمت ہار کر حجلہ نشین عورتوں کی مانند بیٹھ جاتا تو آج کوئی ایڈیسن نہ بن سکتا تھا۔ اس نے بارہا بلب پر تجربات کئے، اپنے مقصد میں ناکام رہا۔ چونکہ اس کی سطح فکری عام انسانوں سے بالاتر تھی، اس لئے وہ مایوس نہیں ہوا۔ وہ متواتر اپنے ہدف میں لگن کا اظہار دکھاتا رہا اور بالآخر! کامیابی کو اس کی پابوسی کے لئے جھکنا ہی پڑا۔ اگر یہ ممتاز سائنس داں بھی دوسرے کمزور ارادے والوں کے مثل تھک بیٹھ کر ہار مان لیتا تو وہ اس عظیم الشان کامیابی سے محروم رہتا۔ لہذا انسان کو چاہیئے کہ حالیہ ناکامی و مشکلات سے چشم پوشی کرے اور روشن مستقبل کی تگ و تاز میں کوشاں رہے۔ یہاں تک کہ فتح و ظفر اس کے نام لکھ دی جائے!
 
کامیابی آندھی کا آم نہیں، جو ہر کس و ناکس بٹور لے۔ اس کے لئے شب و روز سعی و کوشش کرنا پڑتی ہے۔ انتھک کدوکاوش کا سہارا لینا پڑتا ہے اور خون پسینہ ایک کرنا پڑتا ہے۔ کوئی کامیابی نہ آسمان سے اترتی ہے نہ زمین سے اگتی ہے۔ فلک بوس عمارتیں معمولی اینٹوں پر ٹکی ہوتی ہیں۔ آدمی اشعار کہتے کہتے شاعر بنتا ہے اور جب اس میں بالیدگی اور تخلیقی قوت کارفرما ہو جاتی ہے تو خدائے سخن انیس کا وجود ابھر کر سامنے آتا ہے۔ انسان لکھتے لکھتے لکھنا جانتا ہے اور جب قلمی دنیا میں مہارت حاصل کر لیتا ہے تو برسوں پر محیط شخصیت بن کر صفحہ ہستی پر چھا جاتا ہے۔ کڑی سے کڑی مل کر زنجیر بنتی ہے۔ لفظ لفظ سے جڑ کر جملہ کی شکل اختیار کرتا ہے۔ قطرات کا اتحاد سمندروں کو جنم دیتا ہے۔ اینٹیں جب شانہ بشانہ کھڑی ہوتی ہیں تو قلعہ وجود میں آتا ہے۔ جب قدم سے قدم ملتے ہیں تو منزل خود قدم چومتی ہے۔ ہاں۔۔۔! سچ ہے کہ ہر چھوٹی بڑی کامیابی وقت اور انتھک لگن کی طلبگار ہوتی ہے۔ کوئی انسان پیدائشی آئن سٹائن نہیں ہوتا بلکہ اس دنیا کا ہر شخص "لاتعلمون شیئا" کی منزل میں آنکھیں کھولتا ہے۔ کسی بھی مقصد کی رسائی تک بے انتہا کوششیں درکار ہوتی ہیں۔ اگر انسان مضبوط ارادے کا مالک ہے تو اس کے سامنے تمام وقتی مشکلات و ناکامیاں ہیچ ہیں۔، جو صدیوں کے فاتح ہوتے ہیں، وہ لمحات کی زنجیریں توڑ دیا کرتے ہیں۔
مشکلی نیست کہ آساں نشود
مرد باید کہ ہراساں نشود
خبر کا کوڈ : 780584
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش