0
Saturday 2 Mar 2019 12:27

نان سٹیٹ ایکٹرز اور حکومت کا نیا عزم

نان سٹیٹ ایکٹرز اور حکومت کا نیا عزم
تحریر: تصور حسین شہزاد

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس بات کا عندیہ دے دیا ہے کہ وہ پاکستان میں نان سٹیٹ ایکٹرز کیخلاف کارروائی کا پلان تشکیل دے رہے ہیں اور جلد ہی ان کیخلاف آپریشن ہوگا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس بات کا عزم بھی کیا ہے کہ ریاست کے اندر کسی ملیشیاء یا جنگجو تنظیم کو سرگرمیوں کی اجازت نہیں دیں گے۔ اگر کوئی گروپ یا تنظیم ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہوئی تو اس کیخلاف کارروائی ہوگی۔ جیش محمد کے حوالے سے بھی انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان میں جیش محمد کا کوئی وجود نہیں، ہاں جو کہتے ہیں کہ ہے وہ اگر کوئی ثبوت فراہم کریں تو جیش محمد کیخلاف بھی ایکشن لیا جائے گا۔ وزیر خارجہ نے اپنے بیان میں جس عزم کا اظہار کیا، وہ قابل تحسین ہے اور یقیناً اس سے خطے میں مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ مگر پاکستان میں 90ء کی دہائی میں کچھ تنظیموں نے ملک میں تکفیریت اور دہشتگردی کا وہ بازار گرم کیا، جس کی ملکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ پاکستان کے اہم ترین دماغ، جن میں ڈاکٹرز، پروفیسرز، بیوروکریٹس اور انجینئرز شامل تھے، کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔

حکومت نے اس تکفیری گروہ پر پابندی لگا دی، مگر محض پابندی لگانے سے کیا حاصل ہوا؟ وہ تنظیم آج بھی موجود ہے بلکہ پوری شدومد سے پنجاب اسمبلی میں اپنا ایم پی اے بھیجنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ تو کہاں ہے حکومتی رٹ؟ کہاں ہے وہ کالعدم کا ٹائٹل؟ اندھا بھی جانتا ہے سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کیا ہیں۔ مگر حکومت نے پابندی لگائی، وہ نام بدل کر دوبارہ میدان میں آگئے اور تو اور نوبت بہ ایں جا رسید کہ اب انہیں قومی دھارے میں لانے کی باقاعدہ کوشش ہو رہی ہے۔ قاتل اور مقتول کو ایک میز پر بٹھایا جا رہا ہے اور مقتول کے لواحقین کو یہ کہا جا رہا ہے کہ قاتل سے ماضی میں غلطیاں ہوئی ہیں، اب انہیں معاف کر دیں اور مل کر قومی دھارے میں شامل ہو جائیں۔ جو "اہلکار" یہ مشورہ دے رہے ہیں، کاش ان کے اپنے گھر سے کوئی جنازہ اٹھا ہوتا تو پھر ہم پوچھتے کہ انسانی جان کی کتنی قیمت ہوتی ہے۔ یہ کہہ دینا بہت آسان ہے کہ "صلح کر لیں اور امن سے رہیں" مگر قاتل کو سامنے دیکھ کر، ان کے فلک شگاف تکفیری نعرے سن کر کیسے برداشت کیا جائے کہ صلح اچھی چیز ہے۔

وہ سب تقریریں ریکارڈ پر موجود ہیں، جن میں موصوف ایک حکیم صاحب اپنی پُر حکمت تقریر میں ملک کے ایک بڑے مکتب فکر کو ملک سے نکال باہر کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ وہ تو ابھی بھی ایک بڑے مکتب فکر کو تسلیم نہیں کرتے، پھر بھی اہلکاروں کو بڑی فکر ہے انہیں قومی دھارے میں لانے کی۔ وزیر خارجہ کا یہ عزم کہ نان سٹیٹ ایکٹرز کیخلاف کارروائی کرنے جا رہے ہیں، تو پاکستان کی اکثریت اس کی منتظر ہے کہ نان سٹیٹ ایکٹرز کیخلاف حکومت کیا ایکشن لیتی ہے، کیونکہ پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ ابھی رکا نہیں، ڈی آئی خان ہو یا پشاور و کوہاٹ کے علاقے، اب بھی ٹارگٹ کرکے ہی شہید کرنے کا سلسلہ جاری ہے، تو یہ کون کر رہا ہے؟ کیا حکومتی ادارے ان قاتلوں سے واقف نہیں اور اگر واقف ہیں تو پھر کارروائی کیوں نہیں ہوتی۔ سرکاری اداروں میں آج بھی ضیاء الحق کی باقیات موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی وہ قاتلوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور مقتولین کے لواحقین آج بھی ان کی نظروں میں مشکوک ہیں۔

پاکستان بنانے اور پاکستان بچانے والے آج بھی سہمے ہوئے ہیں، جبکہ "پاکستان بنانے کے گناہ میں شرکت نہ کرنیوالے" آج ملک کے ٹھیکیدار بنے پھرتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں عالمی برادری کو دکھانے کیلئے حکومت نے یہ احسن فیصلہ کیا ہے کہ نان سٹیٹ ایکٹرز کیخلاف آپریشن کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے، مگر اس اعلان پر عمل بھی ہونا چاہیئے۔ جب تک پاکستان میں نان سٹیٹ ایکٹر فعال رہیں گے، نہ صرف ملک کا امن بلکہ خطے کا امن بھی داو پر لگا رہے گا۔ ملک کے عالمی سطح پر مثبت امیج کیلئے ان نان سٹیٹ ایکٹرز کیخلاف آپریشن ناگزیر ہے۔ بصورت دیگر انڈیا میں ہونیوالا پلوامہ جیسا ہر واقعہ بلا سوچے سمجھے پاکستان کے کھاتے میں ڈالا جاتا رہے گا۔ کہتے ہیں کہ بد سے بدنام برا ہوتا ہے، پاکستان کو اپنے ماتھے پر لگا بدنامی کا یہ داغ دھونا ہوگا۔ کچھ کرکے دکھانا ہوگا۔ اب باتیں نہیں عمل کا وقت ہے۔
خبر کا کوڈ : 780878
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش