0
Tuesday 5 Mar 2019 23:44

2 سال بعد بھی چھٹی قومی خانہ و مردم شماری کے مکمل نتائج جاری نہ ہوسکے

2 سال بعد بھی چھٹی قومی خانہ و مردم شماری کے مکمل نتائج جاری نہ ہوسکے
ترتیب و تدوین: ایس حیدر

ملک میں 19 سال بعد ہونے والی چھٹی قومی خانہ و مردم شماری کو دو سال مکمل ہونے کو ہیں، تاہم قومی ادارہ شماریات چھٹی قومی خانہ و مردم شماری کے مکمل نتائج تاحال جاری نہیں کر سکا، 2017ء میں پاکستان میں گھر اور سر گننے کی قومی مہم کا آغاز 15 مارچ کو ہوا تھا، عالمی و مقامی قواعد کے تحت مردم شماری کے نتائج کا اجراء 3 سے 6 ماہ میں کیا جانا چاہیے اور بعد از مردم شماری سروے بھی لازم ہے، تاہم 720 سے زائد دن گزرنے کے بعد بھی مردم شماری کے عبوری نتائج پر اکتفا کیا جا رہا ہے، چھٹی قومی خانہ و مردم شماری میں فارم ٹو اے بھی استعمال نہیں کیا گیا، جس کے ذریعے صوبوں اور بڑے شہروں کے درمیان مائیگریشن پیٹرن، شرح پیدائش و اموات، ملک بھر میں معذور افراد اور معذوری کی نوعیت کا شمار بھی نہیں ہو سکا، چھٹی قومی خانہ و مردم شماری پر قومی خزانے سے 18 ارب روپے سے زائد خرچ ہوئے تھے، چھٹی قومی خانہ ومردم شماری کے مکمل نتائج کی منظوری مشترکہ مفادات کونسل سے لی جانی ہے، جبکہ وفاقی کابینہ کے فیصلے کے تحت کراچی میں 5 فیصد سینسز بلاکس کا بھی تھرڈ پارٹی آڈٹ ہونا ہے، مردم شماری کے حتمی نتائج کے اجراء میں تاخیر کے سبب بڑے شہروں میں آبادی کا موجود تناسب اور رہائشی یونٹس کی تعداد میں بھی کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔

رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے گزشتہ دورِ حکومت میں 15 مارچ 2017ء کو 19 سال بعد چھٹی قومی خانہ و مردم شماری کا آغاز کیا تھا، سابق صدر مملکت ممنون حسین نے 1998ء کے بعد ملک میں ہونیوالی چھٹی قومی خانہ و مردم شماری کا آغاز اسٹیٹ گیسٹ ہاﺅس پر نمبر لگا کر کیا تھا، اس سے قبل 1951ء، 1961ء، 1972ء، 1988ء اور 1998ء میں قومی مردم شماری کی جا چکی ہے، 15 مارچ 2017ء کو شروع ہونیوالی چھٹی قومی خانہ و مردم شماری میں پہلی مرتبہ دو مرحلوں میں ملک بھر میں گھر اور سر گننے کی قومی مہم مکمل کی گئی تھی، صرف سندھ کے 29 اضلاع میں 4893 سے زائد سینسز چارج اور 39 ہزار سے زائد سینسز بلاکس بنائے گئے تھے، مجموعی طور پر ملک بھر میں قومی خانہ و مردم شماری میں ساڑھے تین لاکھ سے زائد سویلین و آرمی جوانوں نے خدمات انجام دیں تھی۔ مارچ 2017ء میں شروع ہونیوالی چھٹی قومی خانہ و مردم شماری کے پہلے ابتدائی نتائج جاری کیے گئے اور الیکشن کمیشن نے ابتدائی نتائج کی بنیاد پر جولائی 2018ء میں ہونیوالے عام انتخابات کیلئے حلقہ بندیاں کیں تھیں۔

قومی ادارہ شماریات نے صوبائی و ضلعی سطح پر مجموعی آبادی کے نتائج کا اجراء کرنے کے بعد سینسز بلاکس کی بنیاد پر بھی مرد و خواتین کی تعداد اور گھروں کی تعداد جاری کی، جبکہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے مردم شماری کے نتائج جاری نہیں کیے گئے ہیں۔ عالمی و مقامی قواعد کے تحت مردم شماری مکمل کیے جانے کے بعد 3 سے 6 ماہ میں مکمل نتائج کا اجراء کیا جانا چاہیے اور پھر بعد از مردم شماری سروے بھی لازم ہوتا ہے، جس سے دیکھا جاتا ہے کہ کوئی غلطی کا احتمال نہ ہو۔ پاکستان میں ہونیوالی چھٹی قومی خانہ و مردم شماری میں فارم ٹو اے استعمال ہی نہیں کیا گیا۔ مروجہ فارم ٹو اے کے ذریعے مختلف صوبوں اور شہروں کے درمیان مائگریشن پیٹرن، پیدائش و اموات کی شرح کا درست اندازہ لگایا جاتا ہے، جبکہ ملک میں ہونیوالی قومی خانہ و مردم شماری میں معذور افراد اور معذوری کی نوعیت کا بھی درست سروے نہیں کیا گیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ 15 مارچ 2017ء کو شروع ہونیوالی چھٹی قومی خانہ و مردم شماری کو قریباً دو سال ہونے کو ہیں اور 720 دن مکمل ہو چکے ہیں، مگر قومی ادارہ شماریات تاحال مردم شماری کے مکمل و حتمی نتائج کا اجراء نہیں کر سکا ہے۔

مردم شماری کے نتائج کے حوالے سے قومی ادارہ شماریات نے سمری کے ذریعے وفاقی کابینہ اور مشترکہ مفادات کونسل میں سمری ارسال کی تھی، تاہم مختلف شہروں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے مردم شماری کے نتائج پر اعتراضات کیے گئے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے دور میں طے ہوا تھا کہ کراچی کے 5 فیصد سینسز بلاکس کا تھرڈ پارٹی آڈٹ ہوگا اور اس مقصد کیلئے وفاقی ادارہ شماریات نے تھرڈ پارٹی آڈٹ کیلئے پیشکش بھی طلب کیں تھیں، تاہم چوبیس ماہ کے دوران نہ 5 فیصد سینسز بلاکس میں مردم شماری کا ازسرنو جائزہ لیا گیا اور نہ حتمی نتائج کا اجراء ہوا۔ اگر انیس سال بعد ہونیوالی قومی خانہ و مردم شماری کے حتمی نتائج کے اجراء میں تاخیر کا سلسلہ برقرار رہا، تو ملک بھر میں مردم شماری کے اعدادوشمار اور شہروں کی موجودہ آبادی میں واضح فرق ہوگا اور وفاقی و صوبائی حکومتیں مختلف امور پر درست منصوبہ بندی سے قاصر ہونگی۔
خبر کا کوڈ : 781570
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش