0
Saturday 9 Mar 2019 09:38

ہم تھکنے والے نہیں

ہم تھکنے والے نہیں
اداریہ
عالمی اسلامی تحریکوں کی سب سے بڑی مشکل یہ ہوتی ہے کہ اس میں شریک کارکناں مختلف مزاجوں، رویوں اور احساسات و جذبات کے حامل ہوتے ہیں۔ ایک اچھی تنظیم اور تحریک وہ ہوتی ہے، جو اپنے کارکنان کی مسلسل تربیت کے امکانات فراہم کرتی ہے۔ اسلامی موومینٹ کے اراکین اگر وقتاً فوقتاً تربیت اور آزمائش کی بھٹی سے نہ گزریں تو وہ ہرگز کندن نہیں بن سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ جو تنظیم اپنے کارکنان کی تربیت پر وقت اور سرمایہ خرچ نہیں کرتی، اس کے کارکناں بہت جلد ہدف سے دور ہو کر دوبارہ معاشرے کے بہائو کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کارکن کی تربیت کے لیے رہنمائوں کی توجہ کی اشد ضرورت ہوتی ہے، بلکہ ایک اچھا رہنما بھی وہی ثابت ہوتا ہے، جو ایک اچھے تربیتی نظام یا تربیت کے داخلی اور خارجی مراحل سے باقاعدہ گزر کر منصب، ذمہ داری یا مسئولیت کے مقام پر فائز ہو۔ بعض اوقات تربیت کا فقدان موومنیٹ کے رخ اور سمت کو تبدیل کرکے رکھ دیتا ہے۔ اسی لیے اچھی آرگنائزیشنز نئے کارکنان کے لیے مسلسل تربتی پروگراموں کا اہتمام کرتی رہتی ہیں اور پرانے کارکناں کو ریفریشر کورسسز سے گزارتی ہیں۔ اگر تربیت کا یہ عمل رک جائے تو کارکنان اور قائدین فکری و عملی جمود کا شکار ہو کر حقیقی راستے کو فراموش کرکے من مانے راستوں پر چل نکلتے ہیں۔

فکری و نظریاتی تربیت کارکنان میں نئی امنگ اور نئے حوصلے پیدا کرتی ہے اور فعال و نظریاتی کارکنان اپنے آپ کو کبھی بند گلی میں محسوس نہیں کرتے۔ نظریاتی تنظیموں اور انکے فعال کارکنوں کو دو باتوں نے ہمیشہ پریشانیوں اور ناکامیوں سے دوچار کیا ہے، ایک ناامیدی اور دوسرا منزل کا انتہائی دور نظر آنا۔ یہ دونوں شبھات اسلامی تحریک کے کارکنوں کو عزم بالجزم سے عاری کرکے تھکاوٹ اور مایوسی سے دوچار کر دیتے ہین۔ ہر اچھا لیڈر خود بھی مایوسی و ناامیدی کا شکار نہیں ہوتا اور اپنے تحریکی ساتھیوں کو بھی جید مسلسل کی دعوت دیتے ہوئے ان کے مورال کو بلند کرتا ہے۔ حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ بھی امام حسین کے سچے پیروکار اور خمینی بن شکن کے راستے پر گامزن رہبر انقلاب اسلامی سید علی خامنہ ای کے ارشادات کی روشنی میں مشرق و مغرب کی داخلی اور خارجی مشکلات سے نبرد آزما ایک اسلامی تحریک کے رہنما ہیں۔ سید حسن نصراللہ اور حزب اللہ پر متعدد نشیب و فراز آئے، لیکن ان کی دو باتیں دوست اور دشمن دوںون تہہ دل سے قبول کرتے ہیں، ایک جھوٹ، کذب بیانی اور کھوکھلے نعروں سے پرہیز اور دوسری بات اپنی ذات اور تنطیم کے حوالے سے خود اعتمادی و خود احتسابی

سید حسن نصراللہ کی تحریکی سرگرمیوں پر نگاہ رکھنے والے تجزیہ نکاروں کا اعتراف ہے کہ وہ اپنی ٹیم کو اعتماد میں لیکر الہیٰ بنیادوں پر فیصلہ کرتے ہیں اور کسی ملکی ادارے، غیر ملکی ایجنسی یا بیک ڈور راستے سے کارکنوں کو دھوکہ یا فریب دے کر ان کے احساسات و جذبات نیز انکی توانائیوں کو غیر تنظیمی اور غیر الہیٰ اہداف کے لیے استفادہ نہیں کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم سب پر پابندِیاں ہیں اور ہمیں دہشت گردوں کی فہرست میں ڈالا گیا ہے، لیکن یقین رکھیں ہماری بنیادیں یونہی مستحکم رہیں گی تو حزب اللہ کا ہر کارکن ان کے ساتھ ہم آواز اور ہم قدم ہو کر یہی آواز بلند کرتا ہے کہ ہماری بنیادیں مستحکم ہیں، ہم پر پابندیاں اثر انداز نہیں ہونگی۔ جس طرح ولی امر مسلمین آیت اللہ سید علی خامنہ ای تمام عالم اسلام کو کامیاب و کامرانی کی نوید دیتے ہیں، آپ کا سپاہی سید حسن نصراللہ بھی ببانگ دہل کہتا ہے کہ اے دشمنوں کان کھول کر سن لو، ہم اپنے ہمیشہ کے لب و لہجے اور ہمیشہ کی منطق میں سب کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ ہمارے تھک جانے کی امیدیں دل سے نکال دیں، کیونکہ ہم قابض طاقتوں کے خلاف مقاومت کے عمل سے تھکتے نہیں، دشمن ہمارے مایوس ہونے کی آروزئیں اپنے دل میں ہرگز نہ پالے، کیونکہ ہم کبھی مایوس نہیں ہونگے۔ سید حسن نصراللہ کی گذشتہ روز کی یہ تقریر عالم اسلام کی تمام حریت پسندانہ تحریکوں کے لیے ایک پیغام ہے کہ مقاومت و استقامت سے تھکنا اور مایوس ہو کر مصنوعی سیاروں کی تلاش میں رہنا، مقاومت و استقامت نہیں بلکہ مقاومت و استقامت کے نام پر اپنے آپ اور مخلص ساتھیوں کو دھوکہ اور فریب دینا ہے۔
خبر کا کوڈ : 782217
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش