0
Saturday 9 Mar 2019 12:50

شدت پسند اور قومی دھارے کی باتیں، یہ کیا ہو رہا ہے؟

شدت پسند اور قومی دھارے کی باتیں، یہ کیا ہو رہا ہے؟
تحریر: تصور حسین شہزاد

آج کل کالعدم تنظیموں کو قومی دھارے میں لانے کی باتیں زور و شور سے کی جاری ہیں اور کچھ نام نہاد دانشوروں سے بھی یہ کہلوایا جا رہا ہے کہ کالعدم جماعتوں کو قومی دھارے میں لانے کے سوا کوئی چارہ نہیں، کچھ دانشور تو ان کالعدم اور دہشتگرد جماعتوں کو "قومی اثاثہ" بھی قرار دے رہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ دہشتگردوں کو ملک کا "مفید شہری" بنانے کا نیا پلان متعارف کروانے کا پروگرام بن چکا ہے اور اس کیلئے زمینہ سازی کا عمل جاری ہے۔ یہاں دلیل کے طور پر برطانیہ کی ایک تنظیم کی مثال دی جا رہی ہے کہ برطانیہ میں آئرش ریپبلیکن آرمی کے سیاسی فرنٹ "شن فین" کو مذاکرات کے بعد قومی دھارے میں لایا گیا۔ اب اسٹیبلشمنٹ کے "زیر سایہ دانشور" فرماتے ہیں کہ پاکستان کے اپنے مختلف حالات ہیں، لیکن شن فین کی طرز پر یہاں پر بھی ایسا کام کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں ان شدت پسند تنظیموں سے منسلک افراد کو نہ تو قتل کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی جیلوں میں ڈالا جا سکتا ہے۔

ان دانشوروں کا کہنا ہے کہ شدت پسند تنظیموں کو قومی دھارے میں لانے کیلئے سیاسی و عسکری قیادت میں اتفاق رائے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ ان افراد کو انفرادی سطح پر ووکیشنل ٹریننگ کے ذریعے کوئی ہنر دینا، سیاسی تربیت کرنا، روزگار کے مواقع فراہم کرنے کیساتھ ساتھ جامع منصوبہ لانا ہوگا۔ شدت پسندوں کے یہ "حامی" مزید کہتے ہیں کہ کسی بھی شدت پسند جماعت کو قومی دھارے میں لانا ایک مکمل عمل ہے۔ اس کی کچھ شرائط ہیں، جیسا کہ اس تنظیم کو پہلے جمہوریت کو تسلیم کرنا ہوگا۔ عدم تشدد کو اپنانا ہوگا اور یہ سب اس تنظیم میں اندرونی اتفاق رائے کیساتھ ساتھ قومی اور بین الاقوامی حمایت کیساتھ ممکن ہے۔ یہ طبقہ یہ بھی کہتا ہے کہ اگر کالعدم جماعت، جماعت الدعوۃ جیسی تنظیم کو قومی دھارے میں لانا تھا تو اس پر سب سے پہلے پارلیمان میں قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ دوسرا ان ممالک کو اعتماد میں لیا جائے، جو ان سے متاثر ہوئے، جن میں انڈیا اور امریکا شامل ہیں۔ یہاں ان "دانشوروں" کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ امریکہ اور انڈیا چاہتے ہیں کہ ان دہشتگردوں کو ہمارے حوالے کیا جائے۔ ان کی کلیئرنس وہ کیسے دے سکتے ہیں۔

یہ دہشتگرد ہیں ان کی اور وہ شدت پسند جماعتیں جنہیں ماضی میں مختلف ممالک میں قومی دھارے میں شامل کیا گیا، اُن کی نوعیت الگ تھی۔ مثال کے طور پر بلوچ لبریشن آرمی یا ان جیسی اور قوم پرست کالعدم تنظیمیں قومی دھارے میں آسکتی ہیں۔ یہ وہ گمراہ نوجوان ہیں، جنہیں حقوق نہ ملنے پر دشمن نے ورغلا کر فوج اور ریاست کے مخالف بنا دیا۔ ان کی بغاوت کی بنیادی وجہ حقوق نہ ملنا ہے۔ اگر انہیں حقوق فراہم کر دیئے جائیں تو یہ مفید شہری بن کر پہاڑوں سے اتر آئیں گے اور ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہو جائیں گے۔ ان کے قومی دھارے میں شامل ہونے سے ریاست کا کوئی نقصان نہیں ہوگا، لیکن جہاں تک کالعدم سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، جیش محمد، حرکت الانصار اور ان جیسی دیگر جماعتوں کی بات ہے تو مبصرین کا ایک طبقہ ان کی قومی دھارے میں شمولیت پر شکوک کا شکار ہے۔ اس طبقے کا خیال ہے کہ یہ لوگ فکری مخالطے کا شکار ہیں۔ ان کی سوچ ہی یہ بنا دی گئی ہے کہ تکفیریت ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ ان کی تربیت ہی اس نہج پر کی گئی ہے کہ مخالف فرقے کی تسلیم ہی نہیں کرنا۔ 90ء کی دہائی میں ملک بھر میں کافر کافر کے نعرے اس انداز میں لگوائے گئے کہ پاکستان دو گروپوں میں تقسیم ہوگیا۔ یہ نعرے ایک مخصوص فرقے کے خلاف لگوائے گئے۔ اس نعرے کو اس تسلسل کیساتھ لگوایا گیا کہ عام سا، سیدھا سادہ مسلمان بھی اس شک میں مبتلا ہوگیا کہ کہیں واقعی یہ فرقہ کافر تو نہیں۔

دس سے پندرہ برسوں کی قتل و غارت کے بعد فضا تبدیل ہوئی اور پاکستان کے عوام نے سکھ کا سانس لیا۔ یہ باتیں بھی نکلیں کہ ضیاء الحق کی باقیات نے یہ سارا "شور شرابا" برپا کروا رکھا تھا۔ اب بھی وہی ضیاء کی باقیات ہی ان تکفیریوں کی سرپرستی کر رہی ہیں کہ انہیں قوی دھارے میں لایا جائے۔ جن کی سوچ ہی کافر کافر سے شروع ہو کر کافر کافر پر ختم ہوتی ہے، جنہوں نے پاکستان بنانے والوں کو ہی پاکستان سے نکال باہر کرنے کا عزم کر رکھا ہے، جن کا مقصدِ حیات ہی تکفیریت ہے، آپ کیسے انہیں اس "مقصد" سے ہٹا کر "کفار" کیساتھ ہاتھ ملانے کا بھاشن پڑھائیں گے؟ ان کی تو کسی نے حق تلفی نہیں کی، ان کے حقوق تو کسی نے غصب نہیں کئے کہ یہ بغاوت پر اُتر آئے تھے، ان کی بغاوت اور شدت پسندی کی نوعیت الگ ہے۔ انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ پہلے ان کے پاس ناجائز اسلحہ ہے، وہ چوری چھپے وارداتیں کرتے ہیں، چھپ چھپا کے ٹارگٹ کلنگ کرتے ہیں اور اپنی زمین دوز پناہ گاہوں میں چھپ جاتے ہیں، اگر آپ انہیں قومی دھارے میں لائیں گے، انہیں پولیس فورس میں بھرتی کریں گے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ انہیں جائز اسلحہ پکڑا کر آپ فری ہینڈ دے رہے ہیں کہ جو آپ کے عقیدے کا مالک نہیں، ممتاز قادری کی طرح بندوق اٹھاو اور ہر اس سلمان تاثیر کو قتل کر دو، جو آپ کا ہم نظریہ نہیں، جو آپ کا ہم مسلک نہیں۔

یہ نام نہاد "سرپرست" ریاست کو کس طرف لے جانا چاہتے ہیں؟ پاکستان نے ماضی قریب میں اس شدت پسندی کی بہت بڑی قیمت ادا کی ہے۔ ہم نے وہ قرض بھی ادا کئے ہیں، جو ہم پر واجب نہیں تھے۔ ہم نے پاکستان کے قیمتی ترین ڈاکٹرز، انجینئرز، ماہرین قانون، ماہرین تعلیم قربان کئے ہیں۔ اگر یہی شدت پسند قومی دھارے میں داخل ہو جاتے ہیں تو ان کیلئے مخالفین کو ٹارگٹ کرنا تو بہت زیادہ آسان ہو جائے گا۔ جو دانشور ان شدت پسندوں کی حمایت میں ایڑیاں اٹھا اٹھا کر نعرے لگا رہے ہیں، ان سے اتنی سی گزارش ہے کہ آرمی پبلک سکول میں شہید ہونیوالے بچے بھی کسی ماں کے لعل تھے۔ گلشن اقبال پارک ہو یا مال روڈ کا دھماکہ، کئی سہاگنوں کے سہاگ اجڑے، کئی بچے یتیم ہوئے۔ داتا دربار پر ہونیوالا بم دھماکہ ہو یا عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر حملہ، لعل شہباز قلندر کا دربار ہو یا پشاور کا قصہ خوانی بازار، ان ماوں سے تو پوچھیں جن کے جوان ہنستے مسکراتے گھر سے گئے تھے اور چار آدمیوں کے کندھوں پر میت بن کر واپس آئے۔ ان کے یہ جرائم اتنے سادہ نہیں کہ انہیں بیک جنبشِ قلم معاف کرکے "باعزت بری" کر دیا جائے۔

ان دہشت گردوں کی سوچ ہی خراب ہے اور سوچ قومی دھارے میں آنے سے درست نہیں ہو جایا کرتی۔ انہیں ان کے کئے کی سزا دینا ہوگی۔ ان سے بیگناہوں کے خون کا حساب لینا ہوگا۔ اگر ہم نے ان معاف کرکے قومی دھارے میں شامل کرلیا، تو پھر یہ رِیت بن جائے گی، پھر ہر کوئی اُٹھے گا اور دو چار سو بندے مارے گا اور پھر کہے گا کہ میں ہتھیار ڈالتا ہوں، مجھے قومی دھارے میں شامل کرلیں۔ باغی اور دہشتگرد میں فرق ہوتا ہے۔ لاعلم اور آگاہ ایک جیسے نہیں ہوتے۔ دہشتگردوں کو قومی دھارے میں نہیں، قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ ان سے خون کا حساب لیا جائے۔ تاکہ ہزاروں روتی آنکھوں اور تڑپتے دلوں کو قرار آئے۔ اگر یہاں پر ریاست نے چشم پوشی کی تو اے پی ایس جیسے واقعات روایت بن جائیں گے اور روایتیں توڑنا مشکل ہوا کرتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 782233
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش