0
Friday 15 Mar 2019 15:19

نیوزی لینڈ میں دہشت گردی، سوالیہ نشان

نیوزی لینڈ میں دہشت گردی، سوالیہ نشان
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

آسٹریلیوی شہری کے ہاتھوں نیوزی لینڈ میں مسجد میں ہونیوالی سفاکیت کے بعد پاکستانی وزیراعظم نے مغرب سے سوال کیا ہے کہ کس طرح نائن الیون کے بعد ایک ارب سے زائد مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیا گیا۔ یہ سوال ایک ہے لیکن اس کا جواب آسان اور مختصر نہیں۔ جس طرح مغرب نے اپنی بالادستی ثابت کرنیکے لیے امریکی یلغار کا ساتھ دیا، وہ عالم اسلام کے چپے چپے میں نقش ہے۔ عراق، افغانستان، فلسطین اور بلاد اسلامی میں بہتا لہو اسکی دلیل ہے۔ ہمیشہ اسلام یعنی مذہب کو ہی شدت پسندی کا سبب قرار دیا گیا اور مسلمان اقوام کو مغلوب کرنے کی کوشش کی گئی۔ مسلمان بچوں کے نصاب اور دینی تعلیمات میں اصلاحات کے ذریعے دینی روح کی بیخ کنی کر کے شدت پسندی اور دہشت گردی کا جواز ختم کرنیوالے مغرب کے سیکولر نظام میں مزید کیا اصلاحات تجویز کرینگے۔ یہ درست ہے کہ شدت پسندانہ ذہنیت کا کوئی علاقہ اور مذہب نہیں، لیکن اس کے اسباب ہمیشہ مفاداتی سیاست سے جڑے ہوتے ہیں۔

مغرب میں ہونیوالا یہ پہلا واقعہ نہیں، بلکہ مسلمان دہائیوں سے مغربی ظالمانہ نظام کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہیں۔ اسلام اور مغربی تہذیب کی کشمکش صدیوں سے جاری ہے۔ مغربی تہذیب کو اپنانے کے حوالے سے عالم اسلام میں بھی مختلف مکاتب فکر پائے جاتے ہیں۔ بعض نے مغربی تہذیب کو مکمل طور پر اپنا طر زِ حیات بنالیا، تو بعض نے درمیانی راہ نکال کر اس سے ایک طرزِ مفاہمت پیدا کرلی۔ صرف چند صاحب کردار اور با حمیت ایسے ہیں، جنہوں نے کامل بصیرت اور گہرے ادراک کے ساتھ اس تہذیب کا پرزور رد کیا اور مخالفین کے منہ بند کر دیئے، اسلام اور تہذیب مغرب کی یہ کشمکش کیا رخ اختیار کرے گی، مسلمانوں پر ہونیوالے پر تشدد واقعات اسکی عکاسی کر رہے ہیں۔ مسلمان اس خیال سے جتنی جلد نجات حاصل کرلیں بہتر ہے کہ مغرب مسلمان دشمن ہے۔ مغرب مسلمان دشمن نہیں۔ ایک ارب 60 کروڑ مسلمانوں میں کوئی ایسی بات نہیں کہ مغرب ان سے دشمنی مول لے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا دین بڑا زبردست ہے، چناں چہ اولین سطح پر مغرب کو اسلام ہی سے بیر ہے۔

مسلمان اسلام کے ماننے والے ہیں، اس لیے اسلام کی نسبت سے مسلمان بھی مغرب کو زہر لگتے ہیں۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ مغرب اسلام کو کیوں ناپسند کرتا ہے؟۔ مغرب دین بیزار معاشرہ ہے، جیسے وہاں عیسائیت کے انکار کا دائرہ وسیع ہو چکا ہے، فلسفے اور بعدازاں سائنس کا اثر عام ہوا، عیسائیت کا انکار کرنے والوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ آج یورپ کی آبادی 50 کروڑ افراد پر مشتمل ہے۔ ان افراد کی عظیم اکثریت یعنی تقریباً 75 فی صد افراد کسی خدا اور کسی مذہب پر ایمان نہیں رکھتے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو براعظم یورپ میں عیسائیت ایک مردہ مذہب ہے۔ اسی لیے موجودہ پوپ نے یورپ کی نئی نسلوں کو گمشدہ نسلیں یا lost generation قرار دیا ہے۔ امریکا میں عیسائیت کی صورت حال یورپ سے بہتر ہے، مگر وہاں بھی عیسائیوں میں لادین افراد کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اس اعتبار سے امریکا میں بھی عیسائیت فنا ہوتی ہوئی قوت ہے۔

اس لیے جب مغرب عالم اسلام پر نظر ڈالتا ہے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اسلام پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ ہے، تمام عقائد محفوظ اور موثر ہیں، کروڑوں لوگ روز پانچ وقت نماز ادا کررہے ہیں، روزے رکھتے ہیں، ہر سال حج کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں۔ مسلمان ناقص العمل تو ہیں مگر ناقص الایمان نہیں، جب تک ایمان زندہ ہے اس وقت تک یہ امکان ہر وقت موجود ہے کہ مسلمان آج نہیں تو کل اپنے اعمال کے نقائص بھی دور کرلیں گے۔ مغربی دنیا تحقیق کر رہی ہے اور انہیں معلوم ہے کہ عالم اسلام کے 80 فی صد سے زائد عوام اسلامی نظام کو ہر مسئلے کا حل سمجھتے ہیں۔ مسلمانوں کے اعمال اور اخلاق دونوں ہی کمزور ہیں، مگر ان کے جذبے اور ایمان کا یہ عالم ہے کہ وہ اسلام یا پیغمبرؐ اسلام کی معمولی سی توہین بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ مغرب اپنے یہاں عیسائیت کو مردہ حالت اور اسلام کو زندہ حالت میں دیکھتا ہے تو اسے حیرت بھی ہوتی ہے اور وہ اسلام اور مسلمانوں سے حسد بھی محسوس کرتا ہے۔

عالم اسلام میں دہشت گردی کے بیج بو کر مغربی طاقتوں نے اسلام کو بدنام کیا ور پوری دنیا کو اسلام فوبیا میں مبتلا کر دیا۔ جس کے نتیجے میں نہ صرف مسلمانوں کی آئندہ نسلوں کو دین کے متعلق تذبذب کا شکار بنایا جا رہا ہے بلکہ مسلمانوں کا جینا بھی دوبھر کر دیا گیا ہے۔ اب اسلام فوبیا کی آڑ میں کھلم کھلا اسلام دشمنی کی جا رہی ہے۔ مغرب نواز قوتوں کی پشت پناہی سے پروان چڑھنے والی اور مذموم مقاصد کیلئے دین اسلام کا استحصال کرنے والی دہشت گرد تنظیموں کی وجہ سے عالمی سطح پر دین مبین کو بدنام کیا جا رہا ہے۔ آج ثابت ہو گیا ہے کہ داعش کی طرح کی دہشت گرد تنظیمیں اسلام کے نام پر دھبہ ہیں۔ ایک سازش کے تحت مغربی استعمار نے مسلمانوں حکمرانوں کو غلام بنایا، سرمایہ چوری کیا، اپنی تہذیب مسلط کرنیکی راہ ہموار کی، یہ عالم اسلام میں جاری اسلامی تحریکوں کی ذمہ داری ہے وہ دنیا کو بتائیں کہ اسلام کیخلاف پروپیگنڈہ اور ناروا اقدامات بدنیتی پہ مبنی ہیں۔ کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم معاشرے کے بیدار مغز مفکرین نے مسلمانوں کو مغرب کی غلامی سے نکالنے کے لیے جو جدوجہد کی ہے، مسلمانوں نے عملاً ان کا ساتھ دیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 783435
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش