0
Friday 15 Mar 2019 17:17

دہشتگردوں کے دلال

دہشتگردوں کے دلال
تحریر: محمد صدیق

آپ یقیناً اس وقت اداس ہونگے، مساجد پر نماز جمعہ میں فائرنگ ہوئی، جس کے نتیجے میں  40 سے زائد نمازی شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔ یہ مساجد اگرچہ نیوزی لینڈ میں تھیں، لیکن انسانیت کا کوئی جغرافیہ نہیں ہوتا اور ہمدردی کو کسی ایک عبادت گاہ تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ راقم الحروف کے مطابق اگر یہی واقعہ کسی غیر مسلم عبادت گاہ میں بھی ہوتا تو وہ بھی اسی قدر مذموم اور قبیح تھا، جتنا کہ یہ ہے۔ قباحت اور درندگی کا تعلق ظلم و بربریت سے ہے، جو بھی ظلم کرتا ہے، وہ دہشت گرد ہے، یہ نہیں ہوسکتا کہ میں ناحق انسانوں کا خون بہاوں تو مقدس اور مجاہد ہوں اور کوئی دوسرا ایسا کرے تو وہ دہشت گرد ہے۔ اگر ہم دینِ مبینِ اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور انسانی اقدار کی بقا کے لئے کوشاں ہیں تو ہمیں جہاد اور دہشت گردی کے درمیان فرق کرنا ہوگا۔ جہاد ایک مقدس فریضہ اور دہشت گردی ایک ناسور اور لعنت ہے۔ آپ تحقیق کرکے دیکھ لیں، اس وقت ساری دنیا میں دہشت گردوں کی اقسام ہیں، لیکن دہشت گردوں کا سرپرست فقط ایک طبقہ ہے۔ کسی کا کہنا ہے کہ اس طبقے میں، امریکہ، اسرائیل ، سعودی عرب اور ہندوستان شامل ہیں اور کسی کے نزدیک صرف اکیلا ایران ہی ساری دنیا میں دہشت گردوں کی سرپرستی کرہا ہے۔

اب بیچ میں ایسے لوگ بھی ہیں، جو دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کے درمیان میں دلال ہیں، جو یہ جانتے ہیں کہ یہ دور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے اور اس دور میں زیادہ دیر تک لوگوں کو بےوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ ان کا مفاد اسی میں ہے کہ لوگ دہشت گردوں کے سرپرستوں کو نہ پہچان سکیں اور ان کی دلالی چلتی رہے، چنانچہ ایسے لوگ دہشت گردوں کے سرپرست کے طور پر فقط کسی ایک کا نام نہیں لیتے بلکہ سچ اور جھوٹ کو مخلوط کرنے اور لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے امریکہ، اسرائیل، سعودی عرب اور ہندوستان اور ایران کا نام اکٹھے لیتے ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ کمالِ مہارت سے کام لیتے ہوئے سعودی عرب و ایران کو ایک دوسرے کے مدمقابل بناکر پیش کرتے ہیں، ایسے لوگ نام نہاد غیر جانبداری کی قینچی سے ہر جرم کو کاٹ کر نصف سعودی عرب اور نصف ایران کے پلڑے میں ڈالتے جاتے ہیں۔ ان کی مجبوری ہے کہ انہوں نے ہر حال میں ایران اور سعودی عرب کو برابر دکھانا ہے، یہ جانتے ہیں کہ اگر ایک پلڑا بھی خالی ہو جائے تو دہشت گردی کی انڈسٹری بند ہو جائے گی، جبکہ حقیقت ِحال یہ ہے کہ دونوں کو ایک جیسا کہنا عقل و شرع کے خلاف ہے، چونکہ عقل و شرع  ثبوت مانگتی ہے اور ثبوت ملنے کے بعد سب کو برابر نہیں کہا جا سکتا۔

 ہم اس سلسلے میں اپنے قارئین کو دعوتِ فکر دیتے ہیں کہ آپ اب تک کے خودکُش حملہ آوروں، پکڑے جانے والے دہشت گردوں، دہشت گردوں کے نیٹ ورکس اور دہشت گردی کے مراکز اور دینی مدارس کا ریکارڈ سامنے رکھ کر خود غیر جانبداری کی قینچی سے کاٹتے جائیں اور جو ایران کے حصے میں آئیں، وہ ایران کے پلڑے میں اور جو سعودی عرب کے حصے میں آئیں، وہ سعودی عرب کے پلڑے میں ڈالتے جائیں، آخر میں آپ کو خود بخود پتہ چل جائے گا کہ کون سے پلڑے میں حقیقتاً وزن ہے اور کس پلڑے کو زبردستی بھاری کیا گیا ہے۔ دہشت گردوں کے دلال یہ بھی کہتے ہیں  کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، البتہ ہم ان سے یہ پوچھنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں کہ اگر دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا تو پھر بریلوی یا شیعہ دینی مدارس میں کیوں دہشت گردی کی ٹریننگ نہیں دی جاتی اور صرف ایک ہی مذہب و مسلک کے لوگ ہی کیوں اس میں ملوث پائے جاتے ہیں!؟ مضحکہ خیز بات ہے کہ ایک طرف تو کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں اور دوسری طرف ایک ہی مذہب کے مذہبی مدارس میں طالبان، داعش اور القاعدہ کے لوگ ٹریننگ پاتے ہیں۔

دلال طبقہ سعودی عرب اور ایران کو مساوی دکھانے کے لئے ایران میں انسانی حقوق کی پامالی پر بھی بہت آہ و زاری کرتا ہے، اس طبقے کا کہنا ہے کہ ایران کو اپنے ملک میں امریکہ و برطانیہ کے جاسوسوں کے خلاف کوئی قانونی و تادیبی کارروائی نہیں کرنی چاہیئے۔ چنانچہ ہم ان سے اتنا تو پوچھ سکتے ہیں کہ یہ پابندی صرف ایران پر ہی کیوں! دنیا کے ہر ملک میں جاسوسوں کو سزا دی جاتی ہے، اگر ایران جاسوسوں کو سزا دے گا تو یہ بات پاکستان کے لئے بھی خوش آئند ہے اور ایسا کرنے سے  آئندہ ایران کی آغوش میں کلبھوشن جیسے منافقین نہیں پلیں گے۔ جب دلال طبقہ انسانی حقوق کے حوالے سے جاسوسوں کی حمایت نہیں کر پاتا تو ایران میں مذہبی آزادی کا کارڈ استعمال کرتا ہے اور اس طرح کا پروپیگنڈہ کرتا ہے کہ تہران میں کوئی سنی مسجد نہیں! یہ الگ بات ہے کہ آپ تہران جانے والوں سے پوچھ سکتے ہیں اور گوگل پر سرچ کرسکتے ہیں کہ تہران میں اہل سنت کی کتنی مساجد موجود ہیں۔ مذہبی آزادی کے حوالے سے دلال حضرات سے یہ بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا اہل سنت کو ایران کی طرح ہی سعودی عرب میں بھی مذہبی آزادی حاصل ہے!؟ کیا اہل سنت سعودی عرب میں باقی اولیائے کرام اور صحابہ کرام ؓکو چھوڑیئے صرف اپنے نبیﷺ کے مزار اقدس کو اپنے مسلک اور عقیدے کے مطابق چوم سکتے ہیں۔ یہ بھی پوچھنا چاہیئے کہ کیا سعودی عرب میں اہل سنت اپنے مسلک و عقیدے کے مطابق اپنے اکابرینؒ، صحابہ کرامؓ، اولیائے کرامؒ اور مرحومین کی قبریں تک بنا سکتے ہیں۔؟


دہشت گردی کی ایک دوسری قسم بھی ہے، جس کا ایک روپ ہم نے 8 مارچ کو خواتین مارچ کی شکل میں دیکھا، جس طرح خواتین کا ننگے سروں کے ساتھ باہر آنا، نیز نکاح و حجاب، عفت و پاکدامنی کے خلاف ہرزہ سرائی کرنا، ہماری اسلامی و تہذیبی اقدار کے خلاف ہے، اسی طرح دینی مدارس کی طالبات کا جامعہ حفصہ اسلام آباد کی طرح ڈنڈے لے کر دکانوں پر حملے کرنا، مردوں کو زدوکوب کرنا، محلے کی عورتوں کو یرغمال کرکے مدرسے میں لے جا کر بند کر دینا اور ان کی پٹائی کرنا بھی ہماری دینی و ملکی ثقافت سے بغاوت اور دہشت گردی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ تصویر کے ایک رخ میں خواتین نے برقعے پہن رکھے ہیں اور دوسرے رخ میں خواتین ننگے سر ہیں۔ ورنہ ان دونوں طرح کی خواتین کے اقدامات کا نتیجہ اسلام، ملک اور ہماری تہذیب و ثقافت کی توہین ہے۔ اگر لبرلز کی صورت میں بھی خواتین باہر نکلیں تو اس وقت سعودی عرب لبرلز کا چیمپئن ہے اور اگر جامعہ حفصہ کی صورت میں بھی ہوں تو ان کا سرپرست بھی سعودی عرب ہی ہے۔

دہشت گردوں کے دلالوں سے یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ دونوں طرح کی دہشت گردی خواہ وہ زنانہ روپ میں ہو یا مردانہ شکل میں، اس میں ایک ہی طرف کے لوگ کیوں ملوث ہیں!؟ اسلام کی ثقافتی اقدار اور دینی نظریات کے خلاف جنگ اگر لبرلز کی صورت میں ہو تو سعودی عرب اس کا بھی علمبردار ہے اور اگر دینی لبادے میں ہو تو اس کا بھی سرپرست ہے۔ آخر میں دہشت گردوں کے دلالوں سے یہ گزارش ہے کہ آپ ایران میں بسنے والے اہل سنت کو  ملنے والے انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کا موازنہ سعودی عرب میں بسنے والے اہل سنت سے بھی تو کبھی کرکے دیکھیئے، اسی طرح سعودی ولی عھد کی  طرح ایران کی حکومت کی طرف سے بھی لبرل پن کی حمایت یا پھر ایران کی سرپرستی میں کسی دینی مدرسے کی طالبات کو لوگوں کی دکانوں پر حملے کرتے ہوئے، یا لوگوں کے گھروں میں گھس کر ان کی پٹائی کرتے ہوئے دکھا دیجئے اور پھر بے شک دونوں کو برابر قرار دے دیجیئے۔
خبر کا کوڈ : 783511
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش