0
Friday 15 Mar 2019 08:46

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
اداریہ
امریکی سینیٹ نے 44 ووٹوں کے مقابلے میں 54 ووٹوں سے ایک قرارداد منظور کی ہے، جس میں سعودی اتحاد کے لیے امریکہ کی حمایت ختم کیے جانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ادھر امریکی کانگرس میں مسلمان رکن ایلن عمر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی حکمرانوں کو القاعدہ کی حمایت کرنے کی وجہ سے عالمی برادری کے سامنے جوابدہ ہونا چاہیئے۔ ایلن عمر نے اس بات کا اظہار اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں کیا کہ آل سعود نے القاعدہ کی مالی مدد کی ہے۔ امریکی کانگریس میں مسلمان رکن نے ایک ایسے موقع پر آل سعود کو مذہبی دہشت گردی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اسے عالمی برادری کے سامنے جوابدہ ہونے کا کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے گذشتہ سال نومبر میں انتہائی ڈھٹائی سے یہ کہا تھا کہ ہم سعودی عرب کو تنہا نہیں چھوڑیں گے، کیونکہ وہ اسلامی دہشت گردی کے خلاف مقابلہ کر رہا ہے۔ امریکی کانگرس اور سینیٹ کے اراکین مذہبی دہشت گردی کے حوالے سے اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اس وقت عالمی سطح بالخصوص مشرق وسطیٰ میں تکفیری اور مذہبی دہشت گردی کے پیچھے آل سعود کا ہاتھ ہے، لیکن وہ اس بات سے صرف نظر کر رہے ہیں کہ اس تمام منصوبے کے پیچھے خود ان کا اپنا ملک امریکہ ملوث ہے۔

امریکہ نے مشرق وسطی اور بعض اسلامی ممالک میں اپنے مذموم اہداف کے حصول کے لیے سعودی عرب کو ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کیا اور خود سعودی حکمرانوں نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی کا ایجنڈا امریکی ایجنڈا ہے اور ہم نے اس پر عمل درآمد کے لیے امریکہ کا ساتھ دیا ہے۔ سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اس بات کا اپنی کتاب میں اعتراف کرچکی ہیں کہ القاعدہ کو عراق میں تشکیل دینے میں امریکہ کا ہاتھ ہے، جبکہ موجودہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا ویڈیو کلپ اب بھی عالمی میڈیا میں وقتاً فوقتاً سامنے آتا رہتا ہے، جس میں ڈونالڈ ٹرمپ باراک اوباما حکومت کو داعش کی تشکیل کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ عراق، شام، یمن سمیت جہان کہیں بھی مذہبی دہشت گردی پھیلی ہے، اس کو موجودہ صورتحال تک پہنچانے میں امریکی سی آئی اے کا بالواسط یا بلاواسط کردار ہرگز نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

امریکہ پہلے دہشت گرد گروہ تشکیل دیتا ہے، جب ان سے اپنے مذموم مقاصد حاصل کر لیتا ہے تو پھر اسے ختم یا کمزور کرنے کے لیے خود ان ممالک میں کھلی جارحیتوں اور مداخلتوں کا مرتکب بھی ہوتا ہے۔ امریکہ عالمی مسائل کے حل میں دوہرے معیارات کا حامل ہے، وہ عالمی سطح کے ہر اس اقدام میں ملوث ہے، جس میں انسانی حقوق کی پامالی، جمہوریت کی بربادی اور زبان و بیان پر پاپندی کا مسئلہ درپیش آتا ہے۔ امریکہ بہادر ایران میں اس صحافی کے لیے جو ایران دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہو کر اسلامی انقلاب کے خلاف جاسوسی کا اعتراف کرچکا ہے، کے لیے انسانی حقوق کے ہر ممکنہ پلیٹ فارم پر آواز اٹھانے کو اپنا فریضہ سمجھتا ہے، لیکن جمال خاشقچی کے بہیمانہ قتل پر ڈونالڈ ٹرامپ پر مرگ بار سکوت طاری ہو جاتا ہے۔
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
خبر کا کوڈ : 783574
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش