0
Saturday 16 Mar 2019 08:01

فائر فائٹنگ

فائر فائٹنگ
اداریہ
نیوزی لینڈ کے دہشت گردانہ واقعہ نے ایک بار پھر دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی مذہبی، نسلی، لسانی اور نظریاتی انتہا پسندی کو موضوع بحث بنا دیا ہے۔ دنیا نے مذہب کے نام پر بھی انسانیت کا قتل عام دیکھا ہے اور رنگ و نسل کی بنیاد پر بھی قتل و غارت کا مشاہدہ کر رہی ہے۔ سماجی ماہرین انتہا پسندی کے رجحان پر مسلسل تحقیق کرکے بے بس نطر آرہے ہیں کہ مذہبی دہشت گردی میں ملوث افراد کا تعلق ایسے دین اور مذہب سے ہوتا ہے، جہاں پر چیونٹی اور مچھر کو مارنے کے لیے بھی کچھ قواعد و ضوابط ہیں نیز جس میں دوسرے انسان کو خراش لگانے کا بھی باقاعدہ جرمانہ اور دیت مخصوص ہے۔ اسی طرح رنگ و نسل کی بنیاد پر اپنے آپ کو برتر سمجھنے والے عام گورے (سامراجی اہداف کیلئے سرگرم گوروں کے علاوہ) بھی تمام تر نسلی تعصبات کے باوجود انسانی بنیادوں پر انسانی حقوق حتیٰ جانوروں کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں۔ مذکورہ دونوں گروہوں کی عمومی ذہنیت تشدد، قتل و غارت اور انسانیت کشی سے کوسوں دور ہے، لیکن ان میں موجود مٹھی بھر عناصر گاہے بگاہے ایسی غیر انسانی کارروائیوں کے مرتکب ہوتے ہیں، جن سے مذہب اور رنگ و نسل پر یقین رکھنے والے افراد بھی شرمندگی کے مارے کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے۔

نازی ازم اور ڈرگ مافیا کے ماضی کے بعض واقعات اجتماعی قتل عام کی یاد دلاتے ہیں، لیکن جدید دنیا میں صہیونزم نے ماضی کے تمام متشدد گروہوں اور مافیائوں کی جگہ لے لی ہے۔ آج ہر مذہب، ہر دین، حتیٰ ہر فرقہ کے اندر صہیونزم کے تشدد پسدانہ مخصوص انسان دشمن نظریات پروان چڑھ رہے ہیں۔ اگر عیسائی صہیونیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے تو مسلمان صہیونی، شیعہ صہیونی اور سنی صہیونی بھی مارکیٹ میں آرہے ہیں۔ صہیونی مافیا اور صہیونی لابی نے اگر دین اور مذہب کو نہیں بخشا تو کیا رنگ و نسل کی بنیاد پر پروان چڑھنے والے گروہ صہیونی نظریات سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ یہ ایک سوچا سمجھا موقولہ ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی تشدد، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے نظریات پائے جاتے ہیں، اس کے پیچھے صہیونی ہاتھ ہوتا ہے۔ ممکن ہے بظاہر بندوق، گن یا دھماکہ خیز مواد کسی تشدد پسند تکفیری مسلمان، دائیں بازو کے انتہا پسند یا کسی عیسائی، یہودی مذہبی جنونی کے ہاتھ میں ہو، لیکن اس کے پیچھے اصل ذہن اور فکر صہیونی ہوگی۔

نیوزی لینڈ کے حالیہ افسوسناک حملے میں ملوث جنونی قاتل آسٹریلیا کا 26 سالہ شہری ہے، جس نے اس غیر انسانی اقدام سے پہلے فیس بک پر اپنا اعلامیہ بھی جاری کیا ہے۔ اس بیان میں اس نے سفید فام برتری کا اعلان کرنے کے علاوہ تارکین وطن اور مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت کا بھی اظہار کیا ہے۔ اس نے اس پیغام میں اپنے بارے میں لکھا ہے کہ میں پہلے کیمونسٹ تھا، پھر انارکسٹ ہوگیا اور فسطائی بننے سے پہلے لبرل تھا۔ انتن آئرش نے اپنی منشور نما دستاویز میں لکھا ہے کہ اس نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی حمایت کی تھی، کیونکہ وہ سفید فارم برتری پر یقین رکھتے ہیں۔ اس جنونی قاتل نے امریکہ میں ٹرمپ کی زبردست حامی اور سیاہ فام آبادیوں کے خلاف رائے رکھنے والی خاتون کینڈنس اونز سے بھی متاثر ہونے کا اعتراف کیا ہے اور کہا ہے کہ اس خاتون کا میری زندگی اور میرے خیالات پر گہرا اثر رہا ہے۔ نیوزی لینڈ واقعے کے ذمہ دار اس شخص کے بارے میں ممکن ہے عمومی اطلاعات جلدی سامنے آجائیں، لیکن صہیونی نظریات سے اس کی بالواسطہ یا بلاواسط وابستگی کو ماضی کی طرح ایک بار پھر چھپا دیا جائے گا اور یوں انسانیت کے خلاف صہیونیت کی عالمی تحریک بدستور اسی طرح کی کارروائیوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی رہے گی، عالمی برادری کی انسانیت کے خلاف چلنے والی اصل موومنٹ کی طرف توجہ دینا ہوگی، فائر فائٹنگ سے مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 783593
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش