ایکسکیوزمی، بات سنیں، ہمیں بیگناہ قتل کیا جا رہا ہے، ذرا سی مدد کرینگے، پلیز
17 Mar 2019 13:16
اسلام ٹائمز: قائمہ کمیٹی برائے داخلہ اگر اتنی ہی مخلص ہے تو پیپلز پارٹی دور میں جب ڈی آئی خان سے کالعدم سپاہ صحابہ کے سرپرست خلیفہ قیوم ممبر صوبائی اسمبلی تھے، انکے دور میں پولیس اور دیگر محکموں میں ضلعی سطح پہ ہونیوالی بھرتیوں کا آڈٹ کرائے۔ خلاف ضابطہ بھرتیوں کو کالعدم قرار دے۔ ممکن ہے کہ اداروں میں چھپی نصف کالی بھیڑوں اور نامعلوم قاتلوں کا سراغ ملے۔ گذشتہ آٹھ سے دس سال میں سی ٹی ڈی اور آر آئی یو میں ہونیوالی تفتیش اور اس تفتیش کے نتیجے میں مرتب ہونیوالی رپورٹس منگوائے اور اپنی نگرانی میں ان پہ ایک مختصر سی ٹیم کے ذریعے تحقیقات کرائے، ممکن ہے کچھ اشرافیہ بھی اس حمام میں ننگی ہو اور نامعلوم قاتل بھی سب کو معلوم ہو جائیں۔
تحریر: محمد دیان علی
ڈیرہ اسماعیل خان میں جاری ٹارگٹ کلنگ کے معاملے پہ غور کرتے ہوئے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ اجلاس میں تمام مکاتب فکر کے علماء کرام اور سیاسی نمائندوں کو بلا کر معاملے کا جائزہ لیا جائے گا۔ اسی اجلاس میں چیئرمین کمیٹی کا کہنا تھا کہ ہم سب کو ڈی آئی خان میں جاری ٹارگٹ کلنگ پہ سخت تشویش ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ آخر پولیس کیوں عوام کو جان و مال کا تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہے۔؟ کاؤنٹر ٹیرر ازم کے ایس پی نے اس کا جواب کچھ یوں دیا کہ ’’پولیس نے دہشتگرد مذہبی جماعت کے خلاف ڈی آئی خان میں کریک ڈاؤن کیا ہے، ڈیرہ میں فرقہ وارانہ اور دہشتگرد تنظیموں کے درمیان گٹھ جوڑ ہے، پولیس نے اس تنظیم کے کچھ افراد کو گرفتار کیا ہے جبکہ کچھ مارے گئے ہیں۔‘‘ اراکین کمیٹی کیلئے یہ جواب اس حد تک ’’اطمینان بخش‘‘ تھا کہ انہوں نے آئندہ اجلاس میں مقامی نمائندوں کو طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مگر ساتھ ہی اس بات کا فیصلہ اور اختیار بھی ضلعی انتظامیہ نے کرنا ہے کہ قائمہ کمیٹی کے سامنے کون سے مقامی نمائندے پیش ہوں گے۔؟ وہ جو صوبائی اور ضلعی سطح پہ ہونے والی میٹنگز اور اجلاسوں میں ضلعی انتظامیہ، سکیورٹی فورسز اور پولیس کی کارکردگی کو ہمیشہ ہی لائق تحسین، قابل ستائش قرار دیتے ہیں اور ہر موجودہ آر پی او، ڈی پی او، سکیورٹی فورسز کے اعلٰی افسران کو سپاس نامے پیش کرتے ہیں یا وہ جنہیں اداروں اور حکومت پہ کڑی تنقید کے الزام میں یا تو من گھڑت کیسز کا سامنا ہے یا پھر دھمکیوں کا۔؟ ڈی آئی خان کس حد تک مسلح دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھوں میں یرغمال ہے، اس کا اندازہ دہشتگردی کے تازہ ترین دو سانحات سے لگایا جاسکتا تھا۔ 24 فروری کو اسلامیہ کالونی کی مرکزی گلی میں پولیس چوکی سے محض چند گز کے فاصلے پہ ٹی ایم اے کے دو اہلکار آپس میں مصروف گفتگو تھے۔ موٹر سائیکل پہ سوار دو نامعلوم افراد نے ان اہلکاروں کے بالکل قریب آکر موٹر سائیکل روکا اور نہایت قریب سے قیصر عباس شائق پہ فائرنگ کی۔
دلاور علی نامی دوسرے اہلکار نے فائرنگ کرنے والے کو پکڑنے کی کوشش کی تو پیچھے موجود ایک اور موٹر سائیکل پہ سوار دو افراد یکدم سر پہ پہنچ گئے اور دلاور علی پہ فائرنگ کر دی۔ متعدد گولیاں لگنے سے یہ اہلکار بھی زندگی کی بازی ہار گیا۔ دونوں اہلکار اہل تشیع مسلک سے تعلق رکھتے تھے، دونوں ہی خالصتاً ڈیرے وال سرائیکی تھے۔ دہشتگردی کا نشانہ بننے والے دونوں افراد کافی دیر تک جائے وقوعہ پہ پڑے رہے۔ سامنے ہی موجود پولیس ناکے پہ تعینات اہلکاروں نے نہ ہی حملہ آوروں کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی کی اور نہ ہی ان زخمیوں کی فی الفور ہسپتال منتقلی کیلئے کوئی عملی اقدام کیا۔ ٹی ایم اے کے اہلکاروں اور رشتہ داروں نے دونوں کو اٹھایا اور ہسپتال منتقل کیا۔ ڈی پی او اور آر پی او نے بعد ازاں جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور قریبی ناکے و چوکی پہ موجود اہلکاروں کی سخت سرزنش بھی کی۔ اس واقعہ کے بعد شہر بھر کی پہلے سے سخت سکیورٹی کو دوبارہ سخت کر دیا گیا۔ سڑکوں پہ گشت پولیس اور سکیورٹی فورسز کا گشت بڑھ گیا۔
یکے بعد دیگرے دو آر پی او اور دو ڈی پی او کے تبادلے کر دیئے گئے۔ نئے ڈی پی کو چارج لئے محض چند روز ہی ہوئے تھے کہ تھانہ یونیورسٹی کی حدود میں دہشتگردی کا ایک اور سانحہ رونما ہوا۔ نواب کے علاقے میں حق نواز تحصیلدار کے گھر کے دروازے پہ رات کے وقت دستک ہوئی۔ غلام عباس نے دروازہ کھولا تو تین موٹر سائیکل پہ سوار چھ افراد موجود تھے۔ جنہوں نے خود کو کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ کا اہلکار بتایا اور تفتیش کی غرض سے ساتھ چلنے کو کہا۔ غلام عباس کے پس و پیش پہ مسلح افراد نے انہیں گن پوائنٹ پہ لے لیا۔ اس دوران دونوں گھروں میں موجود چچا، والد، بیٹا اور بھتیجا باہر آئے۔ خود کو سرکاری اہلکار بتانے والوں نے ان تمام افراد پہ فائرنگ کر دی۔ جس کی زد میں آکر غلام عباس اور غلام قاسم موقع پہ ہی جان کی بازی ہار گئے جبکہ حقنواز، شاہنواز شدید زخمی ہوئے۔ اہل علاقہ نے اپنی مدد آپ کے تحت جاں بحق اور زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا۔
یہ محض اتفاق نہیں کہ دہشتگردی کی اس کارروائی میں بھی نشانہ بننے والے اہل تشیع مسلمان اور ڈی آئی خان کے سرائیکی شہری تھے۔ اس حملے میں حملہ آوروں کی تعداد کا تعین کرنا ذرا مشکل ہے، تعداد کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اسلامیہ کالونی واقعہ میں حملہ آوروں کے پیچھے اتنی ہی تعداد میں حملہ آور بیک اپ یا دفاع پہ موجود تھے، اگر یہاں تین موٹر سائیکل پہ چھ افراد پہنچے تو تقریباً اتنی ہی تعداد ان کے بیک اپ پہ موجود ہوگی، جبکہ کچھ عرصہ قبل پروا میں پولیس وین پہ حملہ کرنے والوں کی تعداد درجن سے زائد تھی۔ چنانچہ کارروائیاں کرنے والے کوئی انفرادی حیثیت میں سرگرم نہیں بلکہ گروہ کی صورت میں موجود ہیں اور اپنی قوت و طاقت کا اظہار ہر حوالے سے کر رہے ہیں۔ چنانچہ تحقیق و تفتیش کا رخ بھی انفرادی حیثیت میں افراد کیخلاف کرنے کے بجائے ان سرگرم گروہوں اور ان کے حمایتوں یا سہولت کاروں کی طرف موڑنے کی ضرورت ہے، جنہوں نے ظلم و دہشت کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔
قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس کے بعد بھی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ رکا نہیں بلکہ تحصیل کلاچی کے علاقے میں سی ٹی ڈی کے حوالدار اور مریالی کے علاقے میں پولیس کانسٹیبل پہ ٹارگٹ کلرز حملہ کرچکے ہیں، جن میں سے ایک اہلکار جاں بحق اور ایک شدید زخمی ہے۔ گذشتہ دو عشروں میں ڈیرہ اسماعیل خان میں سینکڑوں افراد کو ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں میں نشانہ بنایا گیا ہے۔ مسلکی اعتبار سے سب سے زیادہ نشانہ اہل تشیع مسلمان بنے ہیں، جبکہ لسانی یا قومی اعتبار سے دیکھیں تو اس شہر میں صرف سرائیکیوں کا بہیمانہ قتل عام جاری ہے، یہاں تک کہ جو پولیس اہلکار ٹارگٹ کلنگ کا بھی نشانہ بنے تو ان میں سے بھی بیشتر سرائیکی وسیب سے تعلق رکھتے ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے دیکھیں تو سب سے زیادہ حملے محکمہ پولیس سے تعلق رکھنے والے افراد پہ ہوئے ہیں۔ گذشتہ تین عشروں میں دہشتگردانہ حملوں میں شہید یا زخمی ہونے والوں کو آپ کسی بھی کیٹگری میں تقسیم کریں، بہرحال جو شناخت سب سے زیادہ نشانہ بن رہی ہیں۔ اہل تشیع (چاہے کسی بھی پیشہ، قوم یا سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا ہو) سرائیکی (بیشتر شیعہ و بریلوی مسلک)، پولیس (چاہے کسی بھی مسلک یا زبان سے تعلق رکھتا ہو ماسوائے سلفی، وہابی شناخت کے)
خبر کا کوڈ: 783770