0
Sunday 17 Mar 2019 14:11

وزیراعظم کا دورہ باجوڑ و مہمند، اعلانات اور توقعات

وزیراعظم کا دورہ باجوڑ و مہمند، اعلانات اور توقعات
رپورٹ: ایس علی حیدر

وزیراعظم عمران خان کے دورہ باجوڑ اور مہمند سے قبل ہی توقع کی جا رہی تھی کہ وہ اپنے دورے کے دوران قبائلی اضلاع کی پسماندگی، غربت اور بے روزگاری ختم کرنے اور تعمیر و ترقی کیلئے اہم اعلانات کریں گے۔ اس امید پر باجوڑ میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ عمران خان کے جلسہ اور استقبال میں شریک ہوئے۔ وزیراعظم عمران خان کی آمد کے موقع پر باجوڑ میں انتہائی جوش و خروش پایا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے کارکن، ان کے حمایت یافتہ افراد اور باجوڑ کی عوام نے جلسہ عام میں جوق در جوق شرکت کی۔ گراؤنڈ شرکاء سے کھچا کچ بھرا ہوا تھا۔ باجوڑ کے عوام نے وزیراعظم کا جس شایان شان طریقے سے استقبال کیا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہ عمران خان کا وزیراعظم بنے کے بعد باجوڑ کا پہلا دورہ تھا، جب وزیراعظم نے جلسے میں شریک لوگوں کا جم غفیر دیکھا تو ان کو کنٹینر کا زمانہ یاد آگیا، وہ جذباتی ہوئے اور مخالفین پر خوب گرجے برسے۔ جلسہ سے خطاب کے دوران ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں، اگر خطرہ ہے تو بڑے بڑے سیاسی ڈاکوؤں کو ہے، اب ان ڈاکوؤں سے نہ ڈیل ہوگی اور نہ این آر او ہوگا، پی ٹی آئی کے یارکر نے دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے مک مکا کی پارٹنر شپ توڑ دی ہے۔ ایک جانب وزیراعظم نے سیاسی مخالفین کے خلاف بھڑاس نکالی تو دوسری جانب انہوں نے پاکستان کی بہتری کیلئے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے بات کرنے کی حامی بھی بھری۔ وزیراعظم نے انکشاف کیا ہے کہ آئندہ 30 دن بڑے اہم ہیں، بھارتی وزیراعظم کی جماعت انتخابات جیتنے کیلئے پاکستان کے خلاف ایکشن لے سکتی ہے، بھارت میں الیکشن تک حملے کا خدشہ ہے، ہمیں چوکنا رہنا ہوگا۔

وزیراعظم نے دورہ باجوڑ کے موقع پر 2 ارب روپے پیکیج تھری جی اور فور جی سروس بحال کرنے کا اعلان کیا۔ اولاََ عمران خان نے سیاسی مخالفین کے خلاف جو زبان استعمال کی، وہ قابل ستائش نہیں، اب وہ اپوزیشن رہنما نہیں بلکہ وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہیں، اس عہدے کے اپنے تقاضے ہیں۔ اگر عمران خان شائستگی اپناتے تو شاید وہ مخالفین کے دل بھی جیت لیتے، گالم گلوچ سے انسانوں کے دلوں پر حکمرانی ممکن نہیں، ہمارا مذہب شائستگی اور خوش اخلاقی کا درس دیتا ہے۔ عمران خان ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں۔ حضرت محمدﷺ کے زمانے میں زیادہ تر کافر اور غیر مسلم ان کے اخلاق سے متاثر ہوکر مشرف بہ اسلام ہوئے، وہ اخلاق کے پیکر تھے، وہ رحمت العالمین تھے، ساری دنیا کیلئے رحمت کا باعث بنے۔ ثانیاََ عمران خان نے پاکستان کے بہتر مفاد کیلئے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے بات کرنے کی حامی بھری، وہ تو ملک کے مفاد کی خاطر مودی سے مذاکرات اور بات چیت کرنے کیلئے تیار ہیں، مگر وہ قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت کے موقع پر اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف، زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سمیت اپوزیشن رہنماؤں سے ہاتھ ملانے تک تیار نہیں۔ اگر عمران خان کے نزدیک ملک کے مفادات عزیز ہیں تو ان کو اپوزیشن سے ہاتھ ملانا ہوگا، ان سے مذاکرات کرنے ہونگے۔ اپوزیشن کے تعاون کے بغیر وفاقی حکومت نے چھ ماہ کے دوران کوئی قانون سازی نہیں کی اور نہ ہی آننده کرنے کا امکان نظر آرہا ہے۔

نریندر مودی سے ہاتھ ملانے اور مذاکرات کرنے پر وزیراعظم عمران خان کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ نریندر مودی کی جماعت بی جے پی کو جتوانے کیلئے پاکستانی اور انڈین قیادت نے گٹھ جوڑ کیا ہے، پلوامہ واقعہ، پاکستان کے اندر انڈین دراندازی، دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو بڑھاوا دینا اس سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ باجوڑ میں عمران خان نے کہا کہ بھارت کے انتخابات تک بھارتی حملے کے خدشہ کے اظہار کی کڑیاں انڈین الیکشن سے متعلق ملتی ہیں۔ بھارت میں سیاسی جماعتیں پاکستان کی مخالفت کی بنیاد پر انتخابات جیتی چلی آرہی ہیں، وزیراعظم نے یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ انڈین الیکشن کے بعد دونوں ممالک کے درمیان اختلافات ختم ہونے کا قوی امکان ہے۔ اب ذکر ہو جائے وزیراعظم عمران خان کے دورہ باجوڑ اور مہمند کا۔ اپنے دورے کے دوران عمران خان نے باجوڑ میں بڑے اجتماع سے خطاب کیا، ہر ایک کو جلسے میں شرکت کرنے کی اجازت تھی، تاہم مہمند دورے کے دوران ڈپٹی کمشنر افتخار عالم نے انضمام سے قبل کے زمانے کی یاد تازہ کر دی۔ انہوں نے سابقہ اُنہی مراعات یافتہ حضرات کو مدعو کیا تھا، جو انضمام کے خلاف تھے۔ ماضی میں انضمام سے قبل جب سربراہ مملکت یا گورنر قبائلی علاقوں کا دورہ کیا کرتے تھے تو پولیٹیکل ایجنٹ محض مراعات یافتہ خضرات کو مدعو کیا کرتے تھے۔ ڈپٹی کمشنر مہمند کے حالیہ اقدام پر پاکستان تحریک انصاف کے اندر بے چینی پائی گئی ہے۔

تحصیل صدور نے موقف اپنایا کہ وزیراعظم کا دورہ نئے پاکستان کا نہیں پرانے پاکستان کا دورہ ثابت ہوا۔ وزیراعظم نے اپنے دورہ باجوڑ اور مہمند میں وہ اعلانات نہیں کئے، جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ وزیراعظم بننے کے بعد ان کا باجوڑ اور مہمند کا یہ پہلا دور تھا، ان کے دورے کی ستائش کی جا رہی ہے، دنیا کو تاثر ملا کہ اب قبائلی علاقوں میں امن قائم ہوا ہے، تاہم ان کے دورے کے دوران سڑکیں بند کی گئیں، جس کی وجہ سے لوگوں کو اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ سکیورٹی کے بے پناہ سخت اقدامات کئے گئے تھے، حتٰی کہ صحافیوں کو جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ضلع مہمند میں صحافیوں کو پریس کلب نہیں جانے دیا گیا، جس پر انہیں احتجاج کرنا پڑا۔ یہ نیا پاکستان نہیں یقیناََ پرانے پاکستان میں اس طرح ہوتا رہا ہے۔ اب قبائلی علاقے صوبہ کا حصہ ہیں، اب نئے پاکستان کی شروعات ہوئی ہے، نئے پاکستان کے تقاضے الگ ہیں، سرکاری افسران کو بھی اپنی روش بدلنا ہوگی، ان کے دفاع سے افسری کا پرانا نشہ اتارنا ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 783781
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش