0
Wednesday 20 Mar 2019 08:07

ایک بڑی خبر

ایک بڑی خبر
اداریہ
ایران، عراق اور شام کے فوجی سربراہ گذشتہ دنوں دمشق میں اکٹھے ہوئے، مقاومت کے مرکز و محور ان تین بڑے ممالک کے فوجی سربراہوں کا شام کے دارالحکومت دمشق میں اکٹھا ہونا امریکہ سمیت اسلامی مقاوت و استقامت کے دشمن حلقوں کے لیے ایک اذیت ناک منظر ہے، خطے کا میڈیا کوشش کے باوجود اس اہم خبر کو چھپانے میں ناکام رہا ہے۔ تینوں ملکوں کی مسلح افواج کے سربراہوں نے شام کے صدر بشار الاسد سے جو ملاقات کی ہے، اس کی بازگشت مدتوں تک امریکہ اور اس کے عرب اتحادیوں کے ایوانوں اور خوابگاہوں میں گونجتی رہے گی۔ یہ ملاقات اسرائیل نواز عربوں کے لیے ڈرائونے خواب میں تبدیل ہوچکی ہے۔ شام کے صدر نے اس ملاقات میں کہا کہ شام کی حکومت، ایران اور عراق کے ساتھ اپنے تعلقات پر فخر کرتی ہے۔ بشار الاسد نے یہ بات زور دیکر کہی کہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں تینوں ملکوں کی مسلح افواج کے جوانوں نے مل کر قربانیاں دیں اور ان کا خون ایک دوسرے کے خون میں مل گیا ہے اور اس خون نے شام، عراق اور ایران کے تعلقات کو مستحکم بنا دیا ہے۔

ایران کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل محمد باقری نے اس ملاقات میں کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ اور شام کا دفاع دراصل ایران اور عراق کا دفاع ہے۔ عراق کی مسلح افواج کے سربراہ عثمان الغانمی نے اس موقع پر تاکید کی کہ عراقی فوج شام کے تعاون سے مشترکہ سرحدوں پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی جاری رکھے گی۔ شام کے وزیر دفاع جنرل علی عبداللہ ایوب نے بھی دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ دمشق حکومت کی اجازت کے بغیر شام آنے والے فوجیوں کی موجودگی غیر قانونی ہے اور انہیں آخر کار انہیں یہاں سے جانا ہی پڑے گا۔ علاقے کی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں تین بڑی افواج ہیں اور دمشق میں ان تینوں بڑی افواج کے سربراہوں کا مشترکہ بیانیہ علاقے میں گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایران، عراق اور شام کے مشترکہ موقف کے خلاف سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور کویت جیسے ممالک کی کوئی فوجی حیثیت نہیں، وہ بھی اسی صورت حال میں کہ ان ممالک میں عوامی تحریکیں کسی بھی وقت شاہی حکومتوں کو گرا سکتی ہیں۔ مذکورہ ممالک امریکی بیساکھیوں پر اپنی حکومتیں چلا رہے ہیں اور ان کی فوجی طاقت کا اندزاہ تو اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گذشتہ چار برسوں میں امریکہ، برطانیہ، اسرائیل اور فرانس کی بالواسط اور بلاواسط مدد و حمایت کے باوجود یہ ممالک دنیائے عرب کے سب سے غریب ملک یمن کی عوامی تحریک انصاراللہ کا مقابلہ نہیں کرسکے۔

حالیہ تجربات نے ثابت کیا ہے کہ علاقائی تعاون ہی دہشتگردی، بدامنی، تشدد و انتہا پسندی اور بیرونی امریکی مداخلت سے مقابلے کا واحد راستہ ہے اور اس حوالے سے داعش دہشت گرد گروہ کے خلاف ایران، عراق اور شام کا تعاون نتیجہ بخش ثابت ہوا ہے۔ داعش جیسے مسائل امریکہ کے پیدا کردہ ہیں اور علاقے میں سعودی عرب جیسے ممالک امریکی ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ علاقے کے تمام ممالک بالخصوص پاکستان کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا، پیٹروڈالر کی چمک دمک کہیں داعش کی صورت میں ایک نئے طالبان اور القاعدہ گروپ کی شکل میں ظاہر نہ ہو جائے اور پاکستان "جیسے تھے" کی پوزیشن میں واپس جا کر ضرب عضب جیسے متعدد فوجی آپریشن دوبارہ شروع کرنے پر مجبور نہ ہو جائے۔ پاکستان کو پاک ایران اور پاک افغان سرحد پر جاری داعش کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا ہوگی اور پاکستان خطے کی بہتری کے لیے نام نہاد اسلامی فوجی اتحادوں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کی بجائے خطے کی حقیقی فوجی قوتوں سے رابطے بہتر کرکے امت مسلمہ کی فلاح اور بیرونی امریکی مداخلت کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرنے کیلئے اپنے ملک کی سالمیت کی خاطر عملی اقدامات انجام دینا ہوں گے۔
خبر کا کوڈ : 784282
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش