0
Sunday 24 Mar 2019 00:33

مہاتیر محمد کا دورہ پاکستان، شور شرابا نہیں ہوا؟

مہاتیر محمد کا دورہ پاکستان، شور شرابا نہیں ہوا؟
رپورٹ: ایس اے زیدی
 
ملائشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد اپنا تین روزہ سرکاری دورہ ختم کرنے کے بعد وطن واپس روانہ ہوچکے ہیں، اس اہم دورہ کے دوران انہوں نے پاکستانی قیادت کیساتھ اہم ملاقاتیں کیں، مختلف اقتصادی اور تجارتی معاہدے بھی ہوئے اور آئندہ دو طرفہ تعلقات کو مزید فروغ دینے سمیت امت مسلمہ کو درپیش مسائل پر بھی بات ہوئی۔ معزز مہمان 21 مارچ کو سرزمین پاکستان پر تشریف لائے۔ وزیراعظم مہاتیر محمد اپنے پاکستان کے دورے پر اسلام آباد پہنچے تو وزیراعظم عمران خان نے ان کا استقبال کیا۔ وزیراعظم ہاؤس میں وزیراعظم مہاتیر محمد کے اعزاز میں باضابطہ استقبالیہ تقریب منعقد ہوئی۔ اس موقع پر دونوں ممالک کے قومی ترانے بجائے گئے اور مسلح افواج کے چاق و چوبند دستے نے گارڈ آف آنر پیش کیا۔ وزیراعظم ہاؤس میں دونوں وزرائے اعظم کے درمیان پہلے ون آن ون اور پھر وفود کی سطح پر مذاکرات ہوئے۔ مہاتیر محمد کے ہمراہ اعلیٰ تجارتی وفد بھی پاکستان پہنچا تھا، جن میں ملائیشیا کی 25 سے زیادہ کمپنیوں کے سربراہ اور بڑے تاجر شامل ہیں۔ اس دورہ کے دوران پاکستان اور ملائشیا کے مختلف صنعتکاروں، تاجروں اور سرمایہ کاروں کی گول میز کانفرنس بھی منعقد کی گئی، جس میں پاکستان میں کار سازی اور مواصلات کے شعبوں میں سرمایہ کاری اور تجارت کے فروغ کے امکانات کا جائزہ لیا گیا۔
 
اس موقع پر مہاتیر محمد نے پاکستان میں پروٹون گاڑیوں کا کارخانہ لگانے کا اعلان بھی کیا۔ یاد رہے کہ نومبر 2018ء میں وزیراعظم پاکستان عمران خان نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد ملائیشیا کا سرکاری دورہ کیا تھا اور اپنے ہم منصب کو دورہ پاکستان کی دعوت دی تھی۔ ملائیشیا کے وزیراعظم کے دورے پاکستان کے دوران دونوں ممالک کے درمیان 5 منصوبوں کی مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کئے گئے، دونوں ملکوں کے مابین 90 کروڑ ڈالر کے تجارتی معاہدے کئے گئے، جبکہ ٹیلی کام، آٹو، موبائل، زراعت، سیاحت، حلال فوڈز کے شعبوں میں بھی مفاہمت کی یادداشت پر دستخط ہوئے۔ دونوں وزرائے اعظم نے مشترکہ پریس کانفرنس بھی کی، اس موقع پر ملائشیا کے وزیراعظم نے پاکستان کو حکومتی اداروں سے بدعنوانی کی روک تھام کے لئے تعاون کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ بدعنوانی کسی بھی ملک کو غریب بنا دیتی ہے، بدعنوانی دونوں ممالک کا مسئلہ ہے، جس کے لئے ہم ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ اقتدار میں واپس آئے تو انہوں نے اپنے ملک سے بدعنوانی کے خاتمے کا عزم کیا اور اپنے اس دورے میں انہوں نے پاکستان اور ملائشیا کے درمیان بدعنوانی کے خاتمے پر بھی بات چیت کی ہے۔
 
اس سے قبل پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے بدعنوانی کے خلاف قابل قدر اقدامات کرنے پر مہاتیر محمد کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت نے 22 سال قبل بدعنوانی کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا۔ اس موقع پر مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ دونوں ممالک میں کئی شعبوں میں باہمی تجارت اور تعاون کے فروغ اور سرمایہ کاروں کیلئے اچھا ماحول فراہم کرنے پر اتفاق ہوا ہے، ملائشیا نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کوششوں کو سراہا، اس کے علاوہ دونوں مسلم ممالک نے اسلامی شخصیات سے متعلق توہین آمیز مواد پر مشترکہ لائحہ عمل اپنانے پر اتفاق بھی کیا۔ دونوں ممالک کے مابین اقتصادی شراکت داری معاہدہ سے متعلق مشترکہ اجلاس جلد بلانے کا فیصلہ کیا گیا، دونوں ملک اعلیٰ تکنیکی تعلیم اور ووکیشنل ٹریننگ کے شعبے میں تعاون بھی کریں گے۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ پاک ملائشیا تعلقات اسٹریٹجک تعلقات میں تبدیل ہوچکے، نئی سطح کے تعلقات دونوں ممالک کے درمیان رابطوں اور کئی شعبوں میں باہمی تجارت اور تعاون کو فروغ دیں گے۔ امت مسلمہ کو درپیش مسائل کے حل کیلئے مشترکہ کوششوں پر بھی اتفاق کیا، دونوں رہنماﺅں نے امت مسلمہ کو درپیش مسائل پر تفصیلی بات کی اور فلسطین، کشمیر اور دیگر مسلم علاقوں پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔
 
علاوہ ازیں ایوان صدر میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران ڈاکٹر مہاتیر محمد کو پاکستان کے اعلیٰ ترین سول اعزاز نشان پاکستان سے نوازا گیا۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے معزز مہمان کو نشان پاکستان لگایا، جس پر معزز مہمان نے پاکستان کی قیادت کا شکریہ ادا کیا۔ مہاتیر محمد وزیراعظم عمران خان کے ساتھ نور خان ایئر بیس بھی گئے، جہاں انہیں جے ایف 17 تھنڈر سے متعلق بریفنگ دی گئی۔ اس موقع پر انہوں نے فضائیہ کی جیکٹ بھی پہن رکھی تھی، معزز مہمان نے طیارے کا معائنہ بھی کیا۔ دورہ کے آخری روز معزز مہمان نے یوم پاکستان کے حوالے سے منعقدہ پریڈ میں خصوصی شرکت کی۔ جس کے بعد وہ اپنا یہ تین روزہ اہم دورہ مکمل کرنے کے بعد واپس روانہ ہوگئے۔ ملائشیا کے وزیراعظم کا یہ دورہ جس اہمیت کا حامل تھا، اس کے مقابلہ میں وہ میڈیا کوریج اور حکومت کی جانب سے غیر ضروری آو بھگت نہ ہوسکی، جو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دورہ کے موقع پر دیکھنے کو ملی تھی۔ نہ تو مہاتیر محمد کے جہاز کو جے ایف 17 تھنڈر نے گھیرے میں لیکر سلامی دی، نہ بھاری بھر کم قبل از دورہ پاکستان آیا، نہ عمران خان نے ڈرائیونگ کی، نہ اسلام آباد سیل ہوا۔ حالانکہ مسلم دنیا میں مہاتیر محمد کی شخصیت ایک خاص اہمیت رکھتی ہے، جبکہ محمد بن سلمان ایک متنازعہ رہنماء کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
 
مہاتیر محمد کا شمار سمجھدار اور بین الاقوامی حالات پر بہت باریک نگاہ رکھنے والی شخصیات میں ہوتا ہے، ان کے دورہ کو ذرائع ابلاغ کی جانب سے بھی کوئی خاص لفٹ نہیں ملی، اس کے مقابلہ میں محمد بن سلمان کے گذشتہ ماہ ہونے والے دورہ کے موقع پر حکومت نے کچھ زیادہ اوور ری ایکٹ کیا تھا۔ گو کہ ہر ملک کے کسی دوسرے ملک کیساتھ تعلقات مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں اور سرکاری پروٹوکول بھی اس کے مطابق دیا جاتا ہے، تاہم محمد بن سلمان کے دورہ کو حکومت نے غیر ضروری اہمت دیکر اور دلوا کر شائد یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اس وقت امت مسلمہ میں محمد بن سلمان سے بڑھ کر کوئی اور شخصیت نہیں، پاکستان کو اپنی اس سیاسی غلطی کا احساس شائد دو روز بعد ہی ہوگیا ہو کہ جب محمد بن سلمان نے پاکستان کے بعد دیگر ممالک کا دورہ کیا۔ محمد بن سلمان کے دورہ کے دوران سفارتی بے ادبیاں بھی سامنے آئیں اور ملک میں احتجاج سمیت سوشل میڈیا پر شدید عوامی ردعمل بھی سامنے آیا، دوست ممالک کی ایک دوسرے پر اس حوالے سے کافی گہری نظر ہوتی ہے، کسی ایک ملک کے سربراہ کو غیر ضروری اہمیت دیکر اور دوسرے کو نظرانداز کرنے سے ممالک کے دو طرفہ تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں، نئے پاکستان کی خواہشمند حکومت کو سفارتی آداب اور دوست، دشمن میں فرق کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ پاکستان کا عالم اسلام میں موجود مقام متاثر نہ ہو۔
خبر کا کوڈ : 784880
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش