0
Sunday 24 Mar 2019 19:42

انضمام کے بعد جنوبی وزیرستان میں لشکر کشی تشویشناک بات ہے

انضمام کے بعد جنوبی وزیرستان میں لشکر کشی تشویشناک بات ہے
رپورٹ: ایس علی حیدر

وفاقی کے زیرِانتظام قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے اور ایف سی آر کے خاتمے کے باوجود جنوبی وزیرستان میں لشکر کشی کا واقعہ رونما ہوا ہے، ہزاروں افراد پر مشتمل لشکر نے جنوبی وزیرستان کے سینئر صحافی حفیظ اللہ کے تین گھروں کو مسمار کیا۔ قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان میں تعینات مسلح افواج کے ہزاروں اہلکاروں، لیویز، خاصہ دار اور فرنٹیئر کے جوانوں کے ہوتے ہوئے لشکر میں شامل افراد نے دن دیہاڑے قانون ہاتھ میں لیتے ہوئے حفیظ اللہ نامی صحافی کے گھروں کو ملیا میٹ کیا۔ فیڈرل یونین آف جرنلسٹس، قبائلی اضلاع کے پریس کلبز، ٹرائبل یونین آف جرنلسٹس اور خیبر یونین آف جرنلسٹس سمیت صحافی تنظیموں نے جنوبی وزیرستان میں لشکر کشی اور سینئر صحافی حفیظ اللہ کے گھروں کو مسمار کرنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ لشکر کشی کرنے والوں کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ انضمام کے بعد قبائلی علاقے اب صوبہ کا حصہ ہیں، وہاں مروجہ عام قوانین نافذ ہیں، عام مروجہ عدالتوں نے کام شروع کیا ہے۔ لیویز اور خاصہ دار فورس کو پولیس کے اختیارات تفویض کئے گئے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق لشکر کشی کے واقعہ کی ایف آئی آر درج ہوئی اور نہ ہی کسی کو گرفتار کیا گیا ہے۔ قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان کی ضلعی انتظامیہ کی مجرمان غفلت اور خاموشی نہ صرف قابل مذمت اور قابل تشویش ہے بلکہ لشکر کشی سے قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہوئی ہے۔ قبائلی علاقے جب صوبہ کا حصہ نہیں تھے ایف سی آر نافذ تھا تو اس وقت لشکر کشی ہوتی تھی، تاہم لشکر ان کے خلاف ہوا کرتے تھے جو انتہائی ظلم کے مرتکب ہوا کرتے تھے۔ جنوبی وزیرستان میں لشکر کشی کے واقعہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ مجرمانہ خاموشی اختیار کرنے والے حکومتی ادارے اور ضلعی انتظامیہ لشکر کرنے والوں کے جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ وزیرستان میں لشکر کی قیادت کرنے والے انتہائی سخت سزا کے مستحق ہیں، ان کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر لشکر کشی کرنے والوں کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج نہ کیا گیا تو یہ بغاوت کرنے والوں کی حمایت تصور کی جائے گی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈپٹی کمشنر ضلع جنوبی وزیرستان، متعلقہ اسٹنٹ کمشنر اور دیگر ضلعی افسران سمیت لشکر کی تشکیل میں ملوث عناصر کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے۔ اگر لشکر کشی کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج نہ ہوا اور ان کی گرفتاری عمل میں نہ لائی گئی تو صحافتی تنظیمیں یہ کہنے پر حق بجانب ہونگی کہ لشکر تشکیل دینے میں سرکاری ادارے اور ضلعی انتظامیہ کے افسران ملوث تھے۔ معتبر حلقوں کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان اور پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کو لشکر کشی کا از خود نوٹس لینا چاہیئے تاکہ آئندہ کوئی اس قسم کا اقدام اٹھانے کی جرات نہ کرسکے۔ اب ایف سی آر اپنی موت آپ مر چکا ہے۔ اعلٰی عدلیہ کے اختیارات کی قبائلی علاقوں تک توسیع کی گئی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ جنوبی وزیرستان کی لشکر کشی کا نوٹس لیا جاتا ہے یا نہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ جس سینئر صحافی اور رانا پریس کلب کے صدر حفیظ اللہ کے گھروں کو مسمار کیا گیا ہے ان کا تعلق خوجل خیل قبیلے سے ہے، فاٹا انضمام سے قبل قبیلے کے افراد کے درمیان ایک معاہدہ طے ہوا تھا کہ اگر کوئی اپنی جائیداد فروخت کرنا چاہے گا تو قبیلے کے افراد میں سے ہی کوئی خریدے گا، کسی اور قبیلے پر خوجل خیل قبیلے کی جائیداد فروخت کرنے پر پابندی ہوگی، یہی وجہ ہے کہ لشکر نے حفیظ اللہ کے تین گھروں کو مسمار کیا۔

ذرائع کی جانب سے بتایا جارہا ہے کہ حفیظ اللہ نے اپنے گھر ذیلی خیل قبیلے کے افراد پر فروخت کئے تھے، خوجل قبیلے نے وہی رقم حفيظ اللہ کو دینے کی پیشکش کی، تاہم حفیظ اللہ نے انکی پیشکش مسترد کی۔ اطلاعات کے مطابق حفیظ الله ایک سرکاری سکول میں ٹیچر ہے تاہم وہ صحافت کررہے ہیں، ڈیوٹی نہیں دے رہے۔ حفیظ اللہ سمیت ان کے چند دیگر ساتھیوں کے مقامی عسکری قیادت میں فوجی افسران سے اچھے روابط اور تعلقات ہیں تاہم لشکر کشی کے دوران کسی نے ان کی مدد نہیں کی۔ بعض اطلاعات کے مطابق لشکر کشی کا الزام قومی اسمبلی کے رکن اور پی ٹی ایم کے رہنما علی وزیر پر لگایا جارہا ہے تاہم وہ لشکر کشی کے موقع پر موجود نہیں تھے اور نہ ہی وہ لشکر کشی کا حصہ رہے۔ معاملہ جو بھی ہو اب حالات بدل چکے ہیں کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں۔ اب پرانا زمانہ نہیں رہا۔ حفیظ اللہ کے گھروں کی مسمار کو جرم تصور کیا جارہا ہے۔ جنوبی وزیرستان کے متاثر ہونے والے صحافی نے حکومتی اداروں سے انہیں انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی ہے، انصاف ملنا ان کا قانونی اور آئینی حق ہے۔
خبر کا کوڈ : 784915
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش