0
Sunday 24 Mar 2019 08:13

او آئی سی اور اسلامو فوبیا

او آئی سی اور اسلامو فوبیا
 اداریہ
نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں ہونے والے دہشت گردانہ واقعہ کے بعد ایران اور پاکستان کی تجویز پر آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن کے وزرائے خارجہ کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا، جس میں نیوزی لینڈ کے وزیر خارجہ نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ اس اجلاس میں ایک اہم موضوع پیش آیا، جس پر مسلم دنیا کی توجہ بڑی دیر بعد مبذول ہوئی ہے، اب یہ بیماری اتنی پھیل چکی ہے کہ اس پر قابو پانے اور اس کا علاج کرنے کے لیے وسیع اقدامات انجام دینے ہوں گے۔ او آئی سی کے اس اجلاس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسلامو فوبیا کو دہشت گردی قرار دیا جائے، مطالبہ بہت اہم اور وقت کی ضرورت ہے، لیکن امت مسلمہ کو پہلے اپنے درمیان دہشت گردی کی تعریف پر اتفاق کرنا ہوگا۔ کیا دہشت گردی صرف مسلمانوں کے خلاف قتل و غارت کا نام ہے، یا مغرب نے جس طرح اسلام اور دہشت گردی کے مفہوم کو ایک کر دیا ہے، اس پر توجہ کی ضرورت ہے۔ آج حریت پسندانہ تحریکوں اور تکفیری تحریکوں میں فرق مٹا دیا گیا ہے۔ دائیں بازو کے انتہا پسند مغربی نظریات رکھنے والوں کو مسلمانوں کا جو چہرہ دکھایا جا رہا ہے، اس کے نتیجے میں پیش آنے والے قتل و غارت کو کیا نام دیا جا رہا ہے، یہ بھی ایک کھلا دھوکہ ہے۔

مسلمان معاشروں کو عقائد و نظریات اور فرقہ وارانہ اختلافات کی وجہ سے ایک دوسرے سے لڑا دیا گیا ہے اور مغربی معاشرے میں دائیں بازو اور بائیں بازو کے اختلافات کو ہوا دیکر قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا گیا ہے، جس کا نشانہ مسلمان بن رہے ہیں، مذہبی انتہا پسند اور قوم پرستی کا شکار دائیں بازو کے انتہا پسند دونوں کسی اور کے ایجنڈے پر کام کر ہے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ اس گدلے پانی سے مچھلیاں کون پکڑ رہا ہے۔ آج او آئی سی کی سوئی بھی نیوزی لینڈ پر آکر اٹک گئی ہے، اسے یمن میں سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے حملوں میں مارے جانے والے ہزاروں شہریوں کا قتل عام و دہشت گردی نظر نہیں آتی۔ شام میں اسی 80 سے زائد ممالک کے تکفیریوں نے ایک مسلمان ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، کسی کو دہشت گردی نظر نہیں آئی، عراق کے شہر موصل پر قبضے کے دوران اور قبضے کے بعد داعش اور اس کے ہم فکر گروہوں نے جو تباہی مچائی، اس وقت کسی کو دہشت گردی نظر نہیں آئی۔

لبنان، بحرین، فلسطین، پاکستان سمیت کئی ممالک میں تکفیری اور ریاستی دہشت گردی جاری ہے، لیکن امت مسلمہ اپنا صحیح موقف بیان کرنے سے قاصر ہے۔ او آئی سی اور امت مسلمہ کے علماء، دانشوروں اور اسلامی معاشروں میں اثر و رسوخ رکھنے والی شخصیات کو پہلے اپنے گھر کی صفائی کی طرف توجہ دینا ہوگی، جس دن مسلمان برادری اپنے دین کی اصل تعلیمات کے مطابق امن و آشتی کا مطہر بن کر سامنے آنے گی تو اس دن کسی کو جرات نہیں ہوگی کہ اسلام اور دہشت گردی کو ایک صف میں شمار کرے۔ ہمیں اپنے اندر موجود دہشت گردوں اور دہشت گردی کی فکر کو ختم کرنا ہوگا، اس کے بعد یقیناً اسلامو فوبیا کے خاتمے کا مطالبہ بھی کارگر ثابت ہوگا۔ اسلامو فوبیا کو دہشت گردی قرار دینا ایک دلکش نعرہ ہے، لیکن آج داعش، بوکو حرام، القاعدہ، طالبان، الشباب، جہبۃ النصرہ، تحریر الشام سمیت دیگر متعدد دہشت گرد گروہ جس طرح دہشت گردانہ کارروائیوں میں مصروف ہیں، اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں مغرب کے دائیں بازو کے انتہا پسند مطالبہ نہ کر دیں کہ اسلام کو دہشت گردی قرار دیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 784923
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش