0
Sunday 24 Mar 2019 22:35

جیسنڈا آرڈرن، اسلام اور پاکستان کے متاثرین دہشتگردی

جیسنڈا آرڈرن، اسلام اور پاکستان کے متاثرین دہشتگردی
تحریر: تصور حسین شہزاد

نیوزی لینڈ میں دہشتگردی ہوئی، صرف 50 افراد شہید ہوئے۔ نیوزی لینڈ آج 10 روز بعد بھی سوگوار ہے۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے تو پوری مسلم دنیا کے حکمرانوں کو بالعموم اور پاکستانی حکمرانوں کو بالخصوص جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ جب سے دنیا گلوبل ویلیج بنی ہے، حکمرانوں کیلئے مسئلے ہی مسئلے پیدا ہوتے جا رہے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں ذرا سا بھی کوئی واقعہ ہو، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر ’’طوفان‘‘ کھڑا ہو جاتا ہے اور ہر چیز لمحہ بہ لمحہ دنیا کے سامنے آجاتی ہے۔ یہی کچھ نیوزی لینڈ میں ہوا۔ یہ سوشل میڈیا نہ ہوتا تو آج دُور پار کے اس جزیرے پر ہونیوالی اس دہشتگردی کی ہمیں بھنک ہی نہ پڑتی۔ ہمارے ہاں بھی اب عوام میں یہ باتیں عام ہوتی جا رہی ہیں کہ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن جیسے حکمران پاکستان میں بھی ہونے چاہیئے۔ جی ہاں، پاکستان کی زخمی دل قوم کو بھی ایسی ہی حکمران کی ضرورت ہے، جو دکھ کی کھڑی میں ڈھارس بندھائے، جو مشکل میں دلاسہ دے، جو بُرے وقت میں ڈھال بن کر حفاظت کرے۔ جو تقریر کا آغاز حدیث پڑھ کر کرے، جو پارلیمنٹ میں تلاوت سے کارروائی شروع کروائے۔

پاکستان میں گذشتہ 30 سال سے دہشتگردی کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ سلسلہ ہے کہ تھمنے کا نام تک نہیں لیتا۔ یہاں کے حکمران ایسے ہیں، جو 100 لاشیں لیکر سخت ترین سردی میں کوئٹہ کی سڑک پر بیٹھے ہوئے مظاہرین کو دلاسہ دینے کے بجائے کہتے ہیں کہ دو ٹرک ٹشو پیپرز کے بھجوا دوں، تاکہ مظاہرین آنسو صاف کرسکیں۔ ہمارے حکمران تو ایسے ہیں کہ درجنوں کے حساب سے لوگوں کو مسجد، امام بارگاہ، درگاہوں اور چرچوں میں کاٹ دیا جاتا ہے اور انہیں تو مذمت کرنے کی بھی توفیق نہیں ہوتی۔ حکمران تو حکمران یہاں تو فرقے بھی ایک دوسروں کے بارے میں یہ سوچ کر خاموش ہو جاتے تھے کہ کون سا مرنے والے ہمارے فرقے کے ہیں۔ قتل و غارت کا سلسلہ ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہا اور سانپ کسی بیرونی بل سے نہیں نکلتے، ہماری اپنی آستینوں میں موجود ہیں۔ ہم نے ہی پالے ہیں اور ہم ہی انہیں دودھ پلاتے ہیں۔ جب ہمارے ہی پالے ہوئے یہ سانپ پشاور میں آرمی پبلک سکول پر چڑھ دوڑے تو تو بہت تلملاہٹ ہوئی، بڑے بڑے دعوے کئے جاتے ہیں۔ ’’اب نہیں، بس بہت ہوئی گئی، اب مزید موقع نہیں دے سکتے، آگ تو ہمارے دروازے پر آگئی ہے‘‘ جیسے بیانات سامنے آتے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کا ’’اژدھا‘‘ پٹاری سے نکالا گیا۔ مگر نیشنل ایکشن پلان کا ’’اژدھا‘‘ اعصائے موسیٰ سے وجود میں آنیوالے اژدھا کی طرح ’’جادو گروں‘‘ کے سانپوں کو نہ کھا سکا۔ اس اژدھا میں صرف پھنکار ہے، اس اژدھے میں کاٹ ہے، نہ اس میں کوئی زہر۔

پاکستان بنانے والے آج بھی گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے کراچی تک ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ اس کے باوجود اپنی آستینوں میں سانپ پالنے والے مقتولین سے کہتے ہیں صلح کرلیں، تاکہ سب کو ’’قومی دھارے‘‘ میں شامل کیا جا سکے۔ انہیں نجانے کیوں قومی دھارے کی اتنی زیادہ فکر ہے، جس میں دہشتگردوں، قاتلوں، اغواء کاروں، جرائم پیشہ عناصر کو شامل کرنے کیلئے اتنے بے تاب ہوئے جا رہے ہیں۔ میں جیسنڈا آرڈرن کو دیکھ کر سوچ رہا ہوں کہ ہم نے تو ملک کو اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا، مگر اس میں ہم ’’اسلام آباد‘‘ بسا کر مطمئن ہوگئے کہ اسلام، آباد ہوگیا۔ مگر یہ بھول گئے کہ کسی شہر کا نام اسلام آباد رکھنے سے اسلام، آباد نہیں ہوتا، بلکہ اسلام اپنی ذات پر نافذ کرنا پڑتا ہے۔ جب ایک نوجوان نے جیسنڈا آرڈرن سے کہا آپ اسلام کیوں قبول نہیں کر لیتیں؟ تو جیسنڈا کا جواب بہت شاندار تھا، اس نے کہا کہ ’’اسلام انسانیت سکھاتا ہے اور وہ مجھ میں موجود ہے۔"

پاکستان کی صورتحال دیکھ کر تو لگتا ہے کہ یہاں سے انسانیت کہیں اور کُوچ کرچکی ہے۔ کاش ہم بات تو ریاست مدینہ کی کرتے ہیں، مگر یہ پتہ نہیں کیوں بھول جاتے ہیں کہ جب فتح مکہ ہوئی تو حضور نبی کریم (ص) نے اعلان کر دیا کہ جو حرم میں پناہ لے لے گا، اسے معاف کر دیا جائے گا اور پھر تاریخ نے اپنی بوڑھی آنکھوں سے وہ منظر خود دیکھا کہ فاتحین نے بڑے بڑے قاتلوں کو معاف کر دیا۔ مگر ہم ہیں کہ کسی کو معاف کیا کرتے، ہم تو متاثرین کو دلاسہ تک نہیں دیتے۔ پشاور سے ڈیرہ اسماعیل خان، ڈیرہ اسماعیل خان سے کراچی تک اور کراچی سے کوئٹہ تک کون سا شہر ہے، جس میں ایک مخصوص فرقے کو ٹارگٹ نہیں کیا گیا، مگر مجال ہے کسی نے قاتلوں کو جانتے ہوئے بھی نام لیا ہو۔ نام لینا تو دُور لفظی مذمت بھی کرنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ کیا ایسے روکے جاتے ہیں ’’انقلاب‘‘؟؟؟ انقلاب تو بہتے پانی کی طرح ہوتے ہیں۔ جن کے راستے میں ہزار رکاوٹیں ہوں، وہ اپنا راستہ خود بنا لیتے ہیں۔ مگر صرف اس غلط فہمی نے ہزاروں گھر اجاڑ دیئے کہ کہیں ایرانی انقلاب ہمارے ملک میں نہ داخل ہو جائے اور اسی خوف میں اپنے ہی بھائی بندوں کی لاشیں بچھا دی گئیں۔ کبھی انہیں گلے لگا کر اتنا تو کہہ دو ’’یہ ملک آپ کا بھی ہے اور ہمارا بھی، آو مل کر اُسے سجاتے ہیں‘‘ جب یہ اتحاد ہو جائے گا تو ملک بھی ترقی کرے گا اور دشمن بھی ناکام ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 784968
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش