QR CodeQR Code

جرات و استقامت کے چار سال

26 Mar 2019 09:15

یمن کی صورتحال پر نہ جنرل اسمبلی، نہ سیکورٹی کونسل، نہ او آئی سی، نہ عرب لیگ نہ خلیج تعاون کونسل، کوئی بھی آواز نہیں اٹھا رہا۔ کیا یمن کے شہری انسان نہیں؟ کیا ان کے خون کا رنگ سرخ نہیں؟ کیا وہ مسلمان نہیں؟ کیا وہ عرب نہیں؟ کیا وہاں انسانی حقوق کی پامالی نہیں ہو رہی؟ کونسا ظلم باقی ہے جو یمنیوں پر روا نہیں رکھا گیا؟۔


اداریہ

26 مارچ کا دن عرب دنیا میں برسوں یاد رکھا جائے گا، اس دن دنیائے عرب کے سب سے امیر ملک نے ایک غریب ترین عرب ملک کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنایا۔ جی ہاں قارئین 26 مارچ 2015ء کے دن سعودی عرب نے یمن پر حملہ کر کے جس جارحیت اور وحشیانہ پن کا مظاہرہ کیا، اسے یمن کے مظلوم عوام کبھی فراموش نہیں کریں گے۔ شاہی خاندان یعنی آل سعود کے مغرور و متکبر حکام نے میڈیا کے سامنے یہ دعوی کیا تھا کہ یمن پر حملہ مہینوں نہیں، ہفتون بلکہ دنوں میں ختم ہو جائے گا، کیونکہ یمنیوں میں اتنی جرات و استقامت نہیں کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے حملوں کا مقابلہ کر سکیں۔ سعودی عرب نے اس غریب ملک کا زمینی، سمندری اور فضائی محاصرہ کر رکھا ہے، آئے روز سمندر اور زمین سے میزائیل حملے اور توپوں کے گولے برسائے جا رہے ہیں۔ لیکن ہر آنے والا دن یمنی عوام کی استقامت میں پائیداری کا باعث بن رہا ہے۔

سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے رہائشی علاقوں، ہسپتالوں، اسکولوں، ہوائی اڈوں، پانی کے ذخائر، خوراک کے گوداموں، حتٰی تعزیتی مجالس اور جلوس ہائے جنازہ تک کو ہوائی حملوں کا نشانہ بنایا، لیکن یمن میں عوامی تحریک بالخصوص انصاراللہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح تمام جارحیتوں اور مظالم کے مقابلے میں ڈٹی ہوئی ہے۔ ان چار برسوں میں بارہ ہزار سے زائد یمنی شہری شہید اور تقریبا چھبیس ہزار زخمی ہوئے ہیں۔ تیس ہزار مریض علاج کی سہولت نہ ہونے کے باعث موت کے گھاٹ اتر گئے، گویا کل تعداد چالیس ہزار کے لگ بھگ ہے، جس میں چھ ہزار تین سو اکسٹھ عورتین اور بچے بھی شامل ہیں، جو سعودی عرب کے حکمرانوں کی خواہشات کے بھینٹ چڑ گئے، حملوں اور انفراسٹرکچر کی تباہی کی وجہ سے وبائیں پھوٹ پڑی ہیں اور لگ بھگ چودہ لاکھ یمنی مختلف وبائی امراض میں مبتلا ہیں، جن میں سے تین ہزار لقمہ اجل بھی بن چکے ہیں، تیس لاکھ بے گھر ہوئے ہیں اور یمن کی دو کروڑ چالیس لاکھ کی آبادی میں سے اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دو کروڑ بیس لاکھ انسانوں کو دوستانہ امداد کی اشد ضرورت ہے۔ تیس لاکھ بچے غذائی قلت کا شکار ہیں، چار لاکھ بچے قحط و بھوک کی وجہ سے موت کے دہانے پر ہیں۔ عالمی ادارے یمن کی موجودہ صورتحال کو حالیہ عشروں کا خطرناک اور المناک ترین انسانی المیہ قرار دے چکے ہیں۔

دنیا میں دہشتگردی کے مختلف واقعات پر شوروغل برپا ہے، آو آئی سی کے وزرائے خارجہ بھی اپنا ہنگامی اجلاس منعقد کر چکے ہیں، لیکن یمن کی صورتحال پر نہ جنرل اسمبلی، نہ سیکورٹی کونسل، نہ او آئی سی، نہ عرب لیگ، نہ خلیج تعاون کونسل کوئی بھی آواز نہیں اٹھا رہا۔ کیا یمن کے شہری انسان نہیں؟ کیا ان کے خون کا رنگ سرخ نہیں؟ کیا وہ مسلمان نہیں؟ کیا وہ عرب نہیں؟ کیا وہاں انسانی حقوق کی پامالی نہیں ہو رہی؟ کونسا ظلم باقی ہے، جو یمنیوں پر روا نہیں رکھا گیا؟ یہ تمام تر مظلومیت اپنی جگہ، لیکن یمن کی عوامی رضاکارانہ تنظیم انصار للہ نے ثابت کر دیا ہے کہ بے سروسامانی اور دنیا بھر کی خاموشی اور عدم حمایت کے باوجود جارح کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ سعودی عرب جس جنگ کو چند ہفتوں میں ختم کرنے کا دعوی کرتا رہا، آج وہ جنگ پانچویں سال میں داخل ہو گئی ہے۔ یمنی مجاہدین نے اپنی مدد آپ کے تحت ایسے میزائل اور ڈرون طیارے تیار کر لیے ہیں، جس س آل سعود اور اس کے اتحادیوں پر خوف طاری ہے۔ انصار اللہ کی چار سالہ کارکردگی ثابت کر رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت انصار اللہ کو حاصل ہے کیونکہ  اللہ کا وعدہ ہے کہ " إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُركُم وَيُثَبِّت أَقدامَكُم" جو اللہ کی مدد کرتا ہے، اللہ اس کی ضرور مدد کرتا ہے۔ یمن کے مجاہدین آپ پر ہمارا سلام ہو۔


خبر کا کوڈ: 785175

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/785175/جرات-استقامت-کے-چار-سال

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org