0
Tuesday 26 Mar 2019 23:33

عدالت کا قیام، ٹل یا پاراچنار

عدالت کا قیام، ٹل یا پاراچنار
رپورٹ: ایس این حسینی

قبائلی ضلع کرم میں رہنے والے حقیقی اور پاکستانی الاصل (طوری اور بنگش) قبائل کو عرصہ دراز سے مختلف طریقوں سے ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جس میں افغان نژاد غیر بندوبستی اقوام ایک طرف جبکہ خود مقامی حکومت کا بھی اہم رول رہا ہے۔ گذشتہ صدی سے لیکر آج تک کرم میں آباد افغان نژاد اور پاکستانی (طوری بنگش) قبائل کے مابین بیسیوں مرتبہ لڑائی جھگڑے ہو چکے ہیں۔ جس میں فریقین کا بے پناہ مالی اور جانی نقصان ہو چکا ہے۔ اس حوالے سے کافی کچھ لکھا جاچکا ہے۔ اس وقت جس بات کا ذکر بین السطور ہم یہاں کرنے والے ہیںم وہ ہے پاراچنار کیلئے ضلع ہنگو کی تحصیل ٹل میں عدالت کا قیام۔ ٹل جیسا کہ عرض کیا گیا، ضلع ہنگو کی ایک تحصیل ہے۔ جو کرم کے ہیڈکوارٹر  پاراچنار سے 88 کلومیٹر جبکہ پیواڑ، شلوزان، تری منگل، خرلاچی، پاڑہ چمکنی اور مقبل وغیرہ سے 100 کلومیٹر سے کچھ زیادہ دور ہے۔ یہی نہیں، بلکہ ٹل اہلیان کرم کے لئے ایک غیر محفوظ علاقہ ہے۔

جس کے ثبوت کے لئے یہی کافی ہے کہ 2007ء سے لیکر 2012ء تک جبکہ اہلیان کرم پر پشاور یا اسلام آباد جانے کیلئے پاکستانی سرزمین خصوصا ٹل راستے کے استعمال کو شجر ممنوعہ قرار دیا گیا تھا۔ قبائل میں رائج کالے قانون 40 ایف سی آر کے خاتمے پر قبائل بجا طور پر پی ٹی آئی کے ممنون ہیں۔ تاہم اگر انکے یہی ارادے تھے، جو آج کھل کر سامنے آگئے، کہ قبائل کو اپنے اپنے ضلعی ہیڈ کوارٹرز کی بجائے دوسرے اضلاع میں عدالت کے قیام کی صورت میں سزا دی جائے۔ ظاہر ہے، اب قبائلی عوام اسی 40 ایف سی آر کیلئے ترسیں گے۔ کرم کا معاملہ تو دیگر قبائل سے مزید پیچیدہ ہے۔ دیگر قبائل میں ریونیو ریکارڈ نہیں۔ جبکہ شروع ہی سے اہلیان کرم کی قانون دوستی کی بنا پر حکومت نے یہاں ریونیو ریکارڈ مرتب کررکھا ہے۔ جس کی وجہ سے ہر شخص کا حق واضح ہے۔

اس ریونیو ریکارڈ ہی کی بنا پر طوری بنگش قبائل کو دیگر افغان نژاد قبائل پر قانونی برتری حاصل ہے۔ اس وقت یہ ریکارڈ پاراچنار میں پڑا ہے۔ چنانچہ ریکارڈ کو کافی حد تک محفوظ تصور کیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ پاراچنار میں ہونے کے باوجود غیر بندوبستی قبائل سے ہمدردی رکھنے والے بعض افراد نے ریکارڈ کو اپنی سطح پر کافی نقصان پہنچایا ہے۔ تاہم اب بھی 90 فیصد ریکارڈ محفوظ ہے۔ ریکارڈ ٹل منتقل ہونے کی صورت میں مقامی بندوبستی قبائل کا سرکاری ریکارڈ 90 فیصد تک تلف ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ اسکے علاوہ اتنی دور جاکر اہلیان کرم اپنے مقدمات لڑنے کے مالی طور پر متحمل ہوسکتے ہیں۔ نہ ہی سیاسی طور پر ٹل انکے لئے مناسب ہے۔ بلکہ ماضی میں ٹل سے لیکر صدہ تک کا چپہ چپہ طوری بنگش اقوام کے خون سے رنگا ہوا ہے۔ اس حوالے سے جب تحریک حسینی کے صدر مولانا یوسف حسین سے سوال کیا گیا، کہ آپ اور آپکے قبیلے کا اس حوالے سے کیا موقف ہے۔

تو انہوں نے کہا کہ ہمارا موقف سب پر واضح ہے۔ کہ ٹل میں ہم مقدمات کسی صورت میں لڑنے کو تیار نہیں، ہاں حکومت اگر ظلم کرتی ہے، وہ الگ بات ہے۔ اپنی مرضی سے ہماری قوم کا کوئی بندہ ٹل نہیں جائے گا۔ جب ان سے پوچھا گیا، کہ بعض اہلیان کرم پاراچنار کی بجائے صدہ اور سنٹرل کرم میں عدالت کا قیام چاہتے ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ ذیلی عدالتوں کی سطح پر انکا مطالبہ حق بجانب ہے۔ تاہم سیشن جج اور ضلعی عدالت کا قیام پاراچنار کے علاوہ کہیں بھی مناسب  نہیں کیونکہ پاراچنار ضلعی ہیڈ کوارٹر ہے۔ یہاں ڈی سی اور اے سی رہتے ہیں، کمانڈنٹ کرم اور بریگیڈئیر یہاں رہتا ہے۔ جب وہ یہاں محفوظ ہیں تو جج کے لئے کیا مسئلہ ہے۔ باقی پاراچنار ایک نہایت پرامن علاقہ ہے۔ ہاں پاراچنار پر امن نہیں، مگر دہشتگردوں کے لئے نہیں۔ پاراچنار قبائل کا وہ واحد علاقہ ہے، جہاں کبھی ایک دن کیلئے بھی پاکستانی جھنڈا سرنگوں نہیں ہوا۔

جبکہ کرم سمیت کسی بھی قبائلی علاقے میں پاکستانی فوجی محفوظ رہا نہ ہی سرکاری ادارے۔ سکولوں، ہسپتالوں اور دیگر سرکاری اداروں کو آن کی آن میں کھنڈر میں تبدیل کردیا گیا۔ انجمن حسینیہ کے سیکرٹری حاجی سردار حسین سے یہ سوال کیا گیا، تو انکا کہنا تھا کہ میں نے گذشتہ روز جشن مولود کعبہ کے موقع پر بھی یہ بات کی تھی۔ کہ ٹل میں ہمیں عدالت کسی صورت میں منظور نہیں۔ اور یہ کہ اسکی قومی سطح پر ہم مخالفت کرتے رہیں گے۔ اگر ہمارا جائز مطالبہ تسلیم نہ کیا گیا تو احتجاج کا راستہ اختیار کریں گے۔ اور اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔ جب تک ہمارا مطالبہ منظور نہیں کیا جاتا۔ جو لوگ پاراچنار کو محفوظ علاقہ تسلیم نہیں کرتے، اس حوالے سے انکا کہنا تھا، جو لوگ دس سال تک دہشتگردوں کے سہولت کار رہے ہوں انہیں اس حوالے سے کسی فیصلے کا کوئی حق نہین۔ انہوں نے کہا، ہم کسی کا حق نہیں روکتے، تاہم اپنا حق کسی کو دینے پر بھی تیار نہیں۔  
خبر کا کوڈ : 785251
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش