0
Tuesday 26 Mar 2019 20:50

شیطانی امریکی ایمپائیر کے خاتمے کی جانب ایک اور قدم

شیطانی امریکی ایمپائیر کے خاتمے کی جانب ایک اور قدم
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

گزشتہ روز ڈونلڈ ٹرمپ نے متنازع گولان ہائٹس کے علاقے پر اسرائیلی قبضے کو باضابطہ طور پر تسلیم کرتے ہوئے اس کے دستاویزات پر دستخط کر دیئے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے وائٹ ہاؤس کے دورے کے دوران دستاویزات پر دستخط کیے، اس اقدام نے امریکا کی پالیسی کو نصف صدی سے زائد عرصے پیچھے دھکیل دیا ہے۔ اسرائیل نے 1967ء میں 6 روزہ جنگ کے دوران گولان ہائٹس، مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور غزہ کی پٹی پر قبضہ کیا تھا۔ اس سے قبل امریکی صدر نے گزشتہ ہفتے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں کہا تھا  کہ 52 سال بعد وقت آگیا کہ واشنگٹن مکمل طور پر گولان ہائیٹس پر اسرائیلی خودمختاری کو تسلیم کر لے جو اسٹریٹجک اور سیکیورٹی کے تناظر میں اسرائیل اور خطے میں استحکام کے لیے ضروری ہے۔

گزشتہ برس جاری کی گئی رپورٹ میں معنی کے اعتبار سے متعلق ایک اور تبدیلی رواں برس کی رپورٹ میں بھی موجود تھی جس میں ایک حصے کا عنوان اسرائیل، گولان ہائٹس، مغربی کنارہ اور غزہ تھا، جبکہ اس سے قبل یہ عنوان اسرائیل اور زیرِ قبضہ علاقے تھا۔ تاہم امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اصرار کیا کہ مختلف الفاظ کا مطلب پالیسی کی تبدیلی نہیں ہے۔ خیال رہے کہ 2017 ء میں ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان بھی کیا تھا جس پر عالمی برادری کی جانب سے شدید تنقید کی گئی تھی۔ رواں برس مارچ میں سالانہ انسانی حقوق کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ امریکی محکمہ خارجہ نے لفظ اسرائیلی قبضہ، کے بجائے اسرائیلی کنٹرول استعمال کیا، جو امریکی پالیسی میں واضح تبدیلی کی جانب اشارہ ہے۔

بعد ازاں فلسطینی صدر محمود عباس کے ترجمان نے امریکا کی جانب سے انسانی حقوق کی سالانہ رپورٹ میں مغربی کنارے، غزہ کی پٹی اور گولن ہائٹس کو زیر قبضہ علاقے قرار نہ دینے کے اقدام پر تنقید کی تھی۔ امریکہ کی طرف سے ایک بار پھر منافقانہ اعلان پر اسلامی جمہوری ایران کے صدر حسن روحانی نے ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے نوآبادیاتی نظام کو تسلیم کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ ایک وقت تھا جب نوآباداتی نظام رائج تھا، بعض ریاستوں نے اپنے طاقت کی بدولت پڑوسی ممالک پر قبضہ کیا لیکن یہ ناقابل فہم ہے کہ اس دور میں بھی نوآباداتی نظام کو تسلیم کیا جارہا ہے، کسی کے لیے بھی یہ بات نہ قابل یقین نہیں کہ ایک شخص امریکا پہنچا اور انفرادی طور پر تمام عالمی قوانین اور ضابطے جو ایک قابض کے خلاف ہوتے ہیں انہیں ایک طرف پھینک دیے جائیں۔ دوسری جانب سعودی عرب نے بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے شام کے مقبوضہ علاقے گولان ہائٹس پر اسرائیل کی حاکمیت تسلیم کرنے کے فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دے دیا۔

عالمی برادری کی جانب سے ان علاقوں پر اسرائیل کی حاکمیت کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ سعودی پریس ایجنسی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب امریکی انتظامیہ کی جانب سے گولان ہائٹس پر اسرائیل کی حاکمیت تسلیم کیے جانے کے اعلان کی شدید مذمت کرتا ہے اور اسے مکمل طور پر مسترد کرتا ہے، گولان ہائٹس شام کا مقبوضہ علاقہ ہے اور اس پر اسرائیل کی خود مختاری تسلیم کرنا اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔ امریکا کے فیصلے سے مشرق وسطیٰ میں امن عمل اور خطے کے استحکام پر منفی اثرات مرتب ہوں گے، اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل اور ماضی میں امریکی انتظامیہ نے ہمیشہ گولان ہائٹس کو مقبوضہ علاقہ قرار دیا تھا، جس سے متعلق حتمی فیصلہ اسرائیل اور شام کے درمیان امن معاہدے پر مذاکرات کے تحت کیا جانا تھا۔ سعودی عرب کی جانب سے آنیوالے ردعمل پر مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ پالیسی یوٹرن کی وجہ سے اپنے اتحادیوں کو ساتھ تعلقات برقرار رکھنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔

اسی طرح اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے مستقل اراکین برطانیہ اور فرانس نے کہا ہے کہ وہ چین اور روس کی طرح گولان ہائٹس کو اقوام متحدہ کی قرارداد کے عین مطابق مقبوضہ علاقہ ہی تسلیم کریں گے۔ لبنان اور اردن کی جانب سے بھی امریکی صدر کے فیصلے کی شدید مذمت کی گئی، اس حوالے سے اردن کا کہنا تھا کہ گولان ہائٹس پر اسرائیل کی حاکمیت تسلیم کرنے سے زیرِقبضہ دیگر علاقوں پر اس کی خودمختاری تسلیم کرنے کی راہ ہموار ہوجائے گی۔ العریبیہ کی رپورٹ کے مطابق عرب پارلیمنٹ نے گولان ہائٹس پر اسرائیلی حاکمیت تسلیم کرنے کے اعلان کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔ پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ گولان کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرنے سے خطے میں بدامنی اور عدم استحکام کی ایک نئی لہر سر اٹھا سکتی ہے اور اس عدم استحکام کا ذمہ دار صرف امریکا ہوگا۔

عرب پارلیمنٹ کے سربراہ مشعل بن فھم السلمی نے اس حوالے سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا کہ امریکی صدر نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سیکیورٹی کونسل کی قرارداد 242 اور 497 کی خلاف ورزی کی ہے، عرب ممالک، امریکی صدر کے ناجائز فیصلے کو قبول نہیں کرتے۔ عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل احمد ابو الغیط نے امریکی صدر کے اعلان کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ گولان ہائٹس پر اسرائیل کی خودمختاری کو تسلیم کرنا عالمی قوانین، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عالمی برادری کے اصولی موقف کی توہین ہے، امریکی صدر کے اعلان سے گولان ہائٹس کی قانونی حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، گولان ہائٹس شام کا مقبوضہ علاقہ ہے جس پر اسرائیل کی حاکمیت تسلیم کرنے کا کوئی جواز نہیں، 1981ء میں سلامتی کونسل نے قرارداد 497 منظور کرکے واضح کردیا تھا کہ گولان ہائٹس اسرائیل کا حصہ نہیں بنے گا۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی کے مطابق ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے جولان کو شام کا اٹوٹ حصہ قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ جولان کے مسئلہ کو اقوام متحدہ میں اٹھائیں گے، جولان کے بارے میں امریکی فیصلہ عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹرش نے جولان کو شامی سرزمین کا حصہ قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ جولان کا علاقہ شامی سرزمین کا حصہ ہے اور جولان پر اسرائیل کا قبضہ غاصبانہ ہے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے کہا کہ جولان مقبوضہ علاقہ ہے، جو شام سے متعلق ہے، اقوامم تحدہ کا مؤقف عالمی قوانین کی روشنی میں پیش کیا جاتا ہے اور ہم جولان کو بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں شام کا حصہ سمجھتے ہیں۔ روس کی اسپوتنیک خبرایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی قلمکار ڈاکٹر مائیکل جونز نے کہا ہے کہ گولان پہاڑیوں کے سلسلے میں ہونے والے ٹرمپ کے اعلان اور اس کے ساتھ صدی کی ڈیل سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ اس حوالے سے اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔

امریکی قلمکار کا کہنا ہے امریکی شہریوں کے سوشل میڈیا پر کمنٹس کو دیکھیں تو کوئی بھی تبصرہ اسرائیل کی حمایت میں نہیں آیا، اس کو ہزاروں لوگوں نے دیکھا ہے، وہ اپنے جذبات کو منتقل کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہمارا ملک ریاست ہائے متحدہ اسرائیل میں تبدیل ہوچکا ہے، امریکہ بک رہا ہے، چنانچہ مسئلہ یہ نہیں ہے، امریکی عوام بالکل لاتعلق ہیں، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اس پورے قصے کے خلاف ہیں، یقینا اسرائیل امریکی انتخابات میں مداخلت کرتا ہے، نیتن یاہو مسلسل امریکہ میں دکھائی دے رہا ہے، حالانکہ اوباما اس کے امریکہ آنے کے روادار نہیں تھے، وہ یہاں آتا ہے، ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے خلاف بولتا ہے اور 25 افراد اٹھ کر اس کے لئے تالیاں بجاتے ہیں، کیا یہ انتخابات میں مداخلت نہيں ہے؟ یہ ایک لطیفہ ہے، وہ انتخابات میں مداخلت نہيں کرتے بلکہ انتخابات کو اپنی نگرانی میں منعقد کرواتے ہیں۔

اسی طرح انہوں نے کہا کہ جب بھی ٹرمپ اس طرح کا کوئی اقدام بجا لاتے ہیں، وہ نیٹو کی تباہی کی طرف ایک نیا قدم اٹھا لیتے ہیں، اس کے رد عمل میں سب سے زیادہ تیز و تند اور پُرزور موقف ترکی کے اردوگان کی طرف سے سامنے آیا، جنہوں نے کہا کہ اسے برداشت نہیں کیا جاسکتا، اردوگان نیٹو کے رکن ہیں۔ اردوگان نے اب روسی میزائل خرید لئے ہیں اور امریکہ اب ان کے ایف 35 طیارے انہیں نہیں دے رہا ہے، یہ کہنا صرف ایک تکلف ہے کہ ترکی نیٹو کا رکن ہے، جب آپ یہ میزائل خریدتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے ہوگا کہ آپ نیٹو میں آپریشنل نہیں ہیں، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نیٹو سے باہر ہیں اور اس صورت حال نے نیٹو سے ترکی کی اجنبیت کی رفتار کو تیزتر کردیا ہے، اس صورت حال نے نیٹو سے جرمنی کی دوری کی رفتار کو بھی تیز کردیا ہے، امریکی سیاستدانوں کیساتھ دنیا شطرنج کھیل رہی ہے، لیکن وہ اپنے اقدامات کے طویل المدت عواقب و نتائج سمجھنے سے عاجز ہیں، یہ رویہ مرحلہ وار امریکی استعمار (American Empire) کو تباہ کررہا ہے، جو کچھ ہورہا ہے، وہ اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ امریکہ مکمل طور پر قانون کی حکمرانی کو نظر انداز کررہا ہے اور اس صورت حال کا طویل المدت نتیجہ نیٹو کے زوال، امریکہ اور یورپ کے درمیان تعاون کے خاتمے کی صورت میں برآمد ہونے والا ہے۔
خبر کا کوڈ : 785258
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش