0
Friday 29 Mar 2019 20:47

کالعدم تنظیمیں ،نیشنل ایکشن پلان اور اہداف

کالعدم تنظیمیں ،نیشنل ایکشن پلان اور اہداف
تحریر: طاہر یاسین طاہر
 
پاکستان بے شک اس وقت اپنی تاریخ کے اہم ترین موڑ پر ہے۔ داخلی و خارجی سطح پر لاتعداد مسائل ہیں۔ معاشی مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا، سوائے اس کے کہ سعودی عرب اور یو اے ای نے کسی حد تک لڑکھڑاتی معیشت کو عارضی مگر دوستانہ سہارا دیا۔ یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ چین، سعودی عرب سے امدادی پیکج ملتے ہیں اور آئی ایم ایف سے قرض۔ اس بار حکومت کی ترجیح قدرے مختلف ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ اسے کم سے کم شرائط پر آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے۔ زمینی حقائق مگر تلخ ہوتے ہیں اور انھیں نظر انداز کرنا خوابوں کی جنت میں رہنے کے متراد ف ہے۔ عالمی برادری پاکستان کو نظر انداز نہیں کر سکتی، کیونکہ پاکستان کا محل وقوع قدرتی طور پر ایسا ہے۔ لیکن اس ایک بات کو لے کر ہم عالمی برادری کو کتنی دیر اور ساتھ ملائے رکھیں گے؟۔ ترجیحات واضح ہونی چاہئیں۔ اس امر میں کوئی کلام نہیں کہ دہشت گردی اور کالعدم تنظیمیں  پاکستان کے داخلی مسائل میںسے سب سے بڑا مسئلہ ہیں۔

اسی مسئلے کے باعث پاکستان کی معیشت بھی تباہ ہوئی ہے اور سماجی ڈھانچہ بھی۔سماجی سطح پر اب فکری اختلاف کے بجائے مخالفت اور تشدد نے لے لی ہے۔ جس نے اختلاف کیا اس پر نکاح ٹوٹنے یا کفر کے فتوے لگنا شروع ہو جاتے ہیں، حتیٰ کہ گستاخ قرار دے کر قتل کر دیا جاتا ہے۔ مشعال اور گزشتہ دنوں اپنے ہی سٹوڈنٹ کے ہاتھوں قتل ہونے والے انگریزی کے پروفیسر اس کی ایک حالیہ مثال ہے۔ نائن الیون کےبعد پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی بنا اور اس اتحاد کی قیمت ابھی تک چکا رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن اتحادی بننے کے سوا پاکستان کے خلاف کوئی دوسرا آپشن تھا ہی نہیں اور پاکستان نے اس وقت جو فیصلہ کیا تھا وہ بالکل زمینی حقائق اور پاکستان کے مفادات سے میل کھاتا تھا۔ ہاں اس پر بحث ہو سکتی ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ و نیٹو کا فرنٹ لائن اتحادی بننے کے بعد پاکستان نے داخلی سطح پرکیا اقدامات اٹھائے یا اٹھانے چاہیے تھے، جو بر وقت نہ اٹھا سکا اور پھر کالعدم تحریک طالبان پاکستان،اور اسی فکر کی کئی ذیلی تنظیموں نے جڑ پکڑی۔

اس پر  یقیناً تحقیقی مقالہ لکھا جانا چاہیے کہ نائن الیون سے پہلے اور بعد میں پاکستان نے کتنی مسلح تنظیموں کو کالعدم قرار دیا، نیز یہ کہ جب  مذہبی و فرقہ وارانہ اور پرائیویٹ جہادی تنظیموں پر ریاست پابندی عائد کرتی تھی تو وہ کیسے نئے ناموں سے رجسٹرڈ ہو کر پھر سے بروئے کار آتی تھیں۔ انسانی تاریخ سیکھنے کے عمل سے عبارت ہے۔ ماضی پرستی کے بجائے ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنے کی روش ہی ترقی کا پہلا زینہ ہے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان، کالعدم شریعتِ محمدی، کالعدم لشکر جھنگوی، کالعدم لشکر جھنگوی العالمی، کالعدم جماعت الاحرار، کالعدم سپاہِ صحابہ، کالعدم سپاہِ محمد، کالعدم لشکر طیبہ، کالعدم اہلست والجماعت اور کالعدم دہشت گرد تنظیم داعش سمیت کوئی 70 سے زائد ایسی تنظیمیں ہیں جنھیں ریاست کی جانب سے، ان کی ریاست مخالف اور فرقہ وارانہ و دہشت گردانہ عمل کی وجہ سے پابندی کا سامنا ہے۔ یہ امر واقعی ہے کہ شمالی و جنوبی وزیر ستان میں دہشت گردوں نے گڑھ بنا کر پورے ملک میں خود کش دھماکے کیے، لیکن فورسز نے بالآخر دہشت گردوں کے گڑھ کو تباہ کیا اور سوات سمیت شمالی و جنوبی وزیر ستان میں امن کی راہ ہموار کی۔

تاریخ اس چیز کو کیسے فراموش کرے گی کہ نون لیگ اور اس کی اتحادی جماعتیں 2013 کا قومی انتخاب توانائی بحران پر قابو پانے اوراپنے ہی "ناراض لوگوں" سے مذاکرات کرنے کے نعرے کے ساتھ حکومت بنا سکی تھیں۔ پھر واقعی نون لیگ کی حکومت نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ باقاعدہ مذاکرات کا آغاز بھی کر دیا تھا۔ یہ لکھنے کی ضرورت نہیں کہ دہشت گردوں کی نمائندگی کرنے والے کون لوگ اور کس کس مذہبی سیاسی جماعت کے سرکردہ افراد تھے۔ اس وقت بھی سوال اٹھایا تھا کہ دہشت گردوں سے مذاکرات "چہ معنی دادند" انھیں قومی دھارے میں لانے کی کوششیں تیز تھیں کہ قومی تاریخ کا المناک ترین واقعہ پیش آگیا۔ دہشت گردوں نے "اے پی ایس پشاور" میں خون کی ہولی کھیلی۔ اس افسوس ناک سانحہ کے بعد نون لیگ،اور جماعت اسلامی کو بھی دہشت گردوں کے خلاف قومی جذبات کا ساتھ دینا پڑا۔ جبکہ اسلام آباد میں مقیم ایک مولانا صاحب نے، لائیو ٹیلی ویژن شو میں اے پی ایس میں دہشت گردانہ واقعہ کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

لیکن اے پی ایس واقعہ کے بعد آپریشن ضربِ عضب کا آغاز کر دیا گیا، اس آپریشن کے نتائج تیز تر اور نہایت مفید سامنے آئے۔ نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا۔ لیکن بد قسمتی سے نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح اور اہداف کے مطابق عمل نہ ہو سکا۔ کے پی کے، کے سابق وزیر اطلاعات افتخار حسین نے جب ان کا بیٹا دہشت گردوں نے شہید کر دیا تھا، ایک پریس کانفرنس کے دوران میں کہا تھا کہ دہشت گرد اپنے حمایتوں کو پارلیمان میں لانا چاہتے ہیں، اس وقت قومی سطح پر 2013 کے قومی انتخابات ہونے والے تھے۔ موجودہ وزیر اعظم بھی ڈرون حملوں کے خلاف ایک بڑی ریلی لے کر شمالی وزیر ستان کی جانب نکلے تھے۔ لیکن سیاست جذباتیت کا نام نہیں، بلکہ تدبر اور فراست سے معاملات کو درست کرنے کا نام ہے۔ پلوامہ حملے کے بعد ایک بار پھر پاکستان پر دبائو  بڑھا ہے، اگرچہ اس سے قبل بھی امریکہ ڈو مورکا مطالبہ تسلسل سے کرتا آیا۔

لیکن امریکہ کو ہمارا جواب یہی ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے پاکستان پر دبائو بڑھا تا ہے۔ ہاں البتہ فٹیف نے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالا ہوا ہے، اب پاکستان نے فٹیف اور  ایشیا پیسفک گروپ کے ساتھ مذاکرات میں کالعدم جماعتوں اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل در آمد کے حوالے سے پیش رفت پر بریفنگ دی ہے۔ جبکہ قومی سلامتی کمیٹی برائے داخلہ امور نے انسدادِ دہشت گردی کے لیے بنائے گئے نیشنل ایکشن پلان پر علمدرآمد اور اداروں کے درمیان روابط آسان بنانے کے لیے ماہرین پر مشتمل ورکنگ گروپ تشکیل دینے کا فیصلہ کرلیاہے۔ وزیر اعظم نے کہا ہے کہ حکومت نیشنل ایکشن پلان کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو ختم کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔ حکومت نے ماہرین پر ورکنگ گروپ بنانے کا عندیہ دے کر اچھا فیصلہ کیا ہے۔

لیکن اصل سوال یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح اور اہداف کے حصول کو ممکن بنانے کے لیے اس کی تمام تر شقوں پر عمل در آمد تیز ترکیوں نہ کیا گیا؟۔ اب اگر فیصلہ کر لیا گیا ہے کہ اس حوالے سے زیرو ٹالرنس ہو گا تو میری تجویز ہے کہ کالعدم تنظیموں کے فنڈ ریزنگ کے طریقہ کار اور نئے ناموں سے رجسٹریشن ہونے کے عمل کی کڑی نگرانی، نیز مدارس کے نصاب کو جدید عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی حکمت عملی بھی وضح کی جائے۔ پاکستان کو آگے بڑھنا ہے تو پھر غیر ریاستی عناصر کو وہ سزا دینا ضروری ہے، جس کے وہ مستحق ہیں۔ کیا کبھی کسی ریاست نے دہشت گردوں کو قومی سیاست کرنے کی اجازت دی ہے۔؟ اگر تاریخی مطالعہ کا جواب نفی میں ہے، تو پھر ہمیں بھی اس حوالے سے اپنی سوچ بدلنا ہو گی۔ دہشت گردی اور کالعدم جماعتوں کے "سہولت کاروں" کے ساتھ بھی سختی سے نمٹنا ہو گا، یہی پاکستان کے مفاد میں ہے۔
خبر کا کوڈ : 785834
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش