0
Thursday 23 May 2013 20:09

آسمانِ امامت کا پہلا ستارہ

آسمانِ امامت کا پہلا ستارہ
تحریر: ایم صادقی

وہ شخصیت جو مکہ مکرمہ میں خانہ کعبہ کے اندر ۱۳ رجب ۳۰ عام الفیل بروز جمعہ کو پیدا ھوئی۔ انکی ولادت سے پہلے نہ کوئی خانہ کعبہ میں پیدا ھوا اور نہ انکی ولادت کے بعد کوئی اس میں پیدا ھو گا۔ یہ کون ہے جسکو پروردگار نے خصوصی عزت و اکرام اور جلالت و شرافت کا مقام عطا کیا ہے، یہ علی ابن ابیطالب (ع) تھے کہ جنکے سوا کسی کو یہ رتبہ نہ ملا ہے اور نہ ہی ملے گا۔  آپکا نام مبارک علی ابن ابیطالب، آپکا یہ نام پیغمبر اسلام (ص) نے اللہ کے  نام پر اور اسکی رضا سے  رکھا۔  آپکے  مشہور القاب امیرالمومنین، مرتضی، اسداللہ، یداللہ، نفس اللہ، حیدر، کرار، نفس رسول اور ساقی کوثر ہیں۔ آپکی مشہور کنیت ابوالحسن و ابو تراب ہیں۔ آپ ہاشمی خاندان کے وه پہلے فرزند ہیں جن کے والد اور و الده دونوں ہاشمی ہیں۔ آپ کے والد، ابوطالب بن عبدالمطلب بن ہاشم ہیں اور والدہ، فاطمه بنت اسد بن ہاشم ہیں۔ ہاشمی خاندان قبیلہ قریش میں، اور قریش تمام عربوں میں اخلاقی فضائل کے لحاظ سے مشہور و معروف تھے۔ جواں مردی، دلیری، شجاعت اور بہت سے فضائل بنی ہاشم سے مخصوص تھے اور یہ تمام فضائل حضرت علی (ع) کی ذات مبارک میں بدرجہ اتم موجود تھے۔ 

اسداللہ کی ولادت:
جب حضرت علی (ع) کی ولادت کا وقت قریب آیا تو فاطمه بنت اسد کعبه کے پاس آئیں اور اپنے جسم کو اس کی دیوار سے مس کر کے عرض کیا، پروردگارا ! میں تجھ پر، تیرےنبیوں پر، تیری طرف سے نازل شده کتابوں پر اور اس مکان کی تعمیر کرنے والے، اپنے جد ابراہیم (ع) کے کلام پر راسخ ایمان رکھتی ہوں۔ پروردگارا ! تجھے اس ذات کے احترام کا واسطہ جس نے اس مکان مقدس کی تعمیر کی اور اس بچے کے حق کا واسطه جو میرے شکم میں موجود ہے، اس کی ولادت کو میرے لئے آسان فرما۔ ابھی ایک لمحہ بھی نھیں گزرا تھا که کعبہ کی جنوب مشرقی دیوار، عباس بن عبد المطلب اور یزید بن تعف کی نظروں کے سامنے شگافته ہوئی، فاطمه بنت اسد کعبہ میں داخل ہوئیں اور دیوار دوباره مل گئی۔ فاطمه بنت اسد تین دن تک روئے زمین کے اس سب سے مقدس مکان میں اللہ کی مہمان رہیں اور تیره رجب سن ۳۰ عام الفیل کو بچے کی ولادت ہوئی۔ ولادت کے بعد جب فاطمه بنت اسد نے کعبہ سے باہر آنا چاہا تو تب بھی دیوار دوباره شگافتہ ہوئی، ایسا نہیں ہوا کہ آپ دروازے سے آئی ہوں، اس میں بھی خدا کی خاص حکمت تھی اگر ایسا نہ ہوتا تو "کچھ لوگ" اس کو  خدا کی طرف سے معجزہ تسلیم ہی نہ کرتے، الغرض آپ کعبه سے بایر تشریف لائیں اور فرمایا: میں نے غیب سے یہ پیغام سنا ہے که اس بچے کا نام "علی " رکھنا، اور بعد میں رسول خدا نے بھی اسی نام کی تصدیق کی،اور آپکا نام علی رکھا۔
 
یداللہ کا بچپن اور تربیت:
حضرت علی (ع) تین سال کی عمر تک اپنے والدین کے پاس رہے اور اس کے بعد پیغمبر اسلام (ص) کے پاس آ گئے، کیونکہ جب آپ تین سال کے تھے اس وقت مکہ میں بہت سخت قحط پڑا ۔جس کی وجہ سے رسول الله (ص) کے چچا ابو طالب کو سخت اقتصادی مشکل سامنا کرنا پڑا۔ ابن حدید کہتے ہیں، "قریش کو ایک مرتبہ قحط کا سامنا کرنا پڑا اس وقت حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے دونوں چچا جناب حمزہ اور جناب عباس سے ارشاد فرمایا، ہمیں چاہئے کہ ہم اس مشکل میں جناب ابوطالب کا بوجھ تقسیم کریں، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمراہ وہ دونوں بھی حضرت ابوطالب علیہ السلام کے ہاں تشریف لائے اور ان سے کہا کہ آپ اپنا ایک ایک بچہ ہمیں دے دیں ہم ان کی پرورش اپنے ذمہ لیتے ھیں۔ اس طرح عباس نے جعفر اور رسول الله (ص) نے علی (ع) کی کفالت اپنے ذمہ لے لی۔ حضرت علی (ع) پوری طرح سے پیغمبر اکرم (ص) کی کفالت میں آ گئے اور اسطرح حضرت علی علیہ السّلام کی پرورش براهِ راست حضرت محمد مصطفیٰ کے زیر نظر ہونے لگی۔ آپ نے انتہائی محبت اور توجہ سے اپنا پورا وقت، انکی علمی اور اخلاقی تربیت میں صرف کیا، کچھ تو حضرت علی (ع) کے ذاتی کمالات اور پھر رسول خدا جیسے بلند مرتبہ ہستی کے  زیرتربیت، آپ دس برس کے سن میں ہی اتنی بلندی پر پہنچ گئے کہ جب پیغمبر اسلام (ص) نے رسالت کا دعویٰ کیا، تو آپ نے سب سے پہلے ان کی تصدیق فرمائی۔ آپ ہمیشه رسول الله (ص) کے ساتھ رہتے تھے، یہاں تک کہ جب پیغمبر اکرم (ص) شہر سے باہر جاتے تو آپ کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ 

حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں، "میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سب سے بڑھ کر پیروی کرتا ہوں یہ سب میری والدہ محترمہ کی تربیت کا نتیجہ ہے وہ مجھے ہر روز بلا کر آپ کے اخلاق کی تعلیم دیتیں اور آپ کی پیروی کرنے کا حکم فرماتی تھیں اور میں کئی سال اس بحر علم کے قریب رہا لہٰذا جس طرح میں نے انہیں قریب سے دیکھا ہے اس طرح کوئی بھی انہیں نہیں دیکھ سکتا۔" جنابِ امیر علیہ السلام نے فرمایا، تم لوگ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ میری انتہائی قربت، خصوصی قدر و منزلت اور ان کی گود میں تربیت کو اچھی طرح جانتے ہو جب میں پیدا ہوا، تو مجھے اپنے سینے پر لِٹاتے، میری کفالت کرتے، مجھے اپنے جسم کے ساتھ مس کرتے، اپنی معرفت کی خوشبو سے معطر فرماتے وہ چیزوں کو اپنے منہ سے چبا کر مجھے کھلاتے اور انھوں نے ھمیشہ میرے قول و فعل کو درست و یکساں پایا۔
 
دعوت ذوالعشیرہ:
جب حضرت محمد مصطفی (ص) چالیس سال کے ہوئے تو اللہ نے انہیں عملی طور پر اپنا پیغام پہنچانے کے لئے معین فرمایا، حضرت محمد (ص) پر وحی الٰھی کے نزول و پیغمبری کے لئے انتخاب کے بعد کی تین سال کی مخفیانہ دعوت کے بعد بالآخر خدا کی طرف سے وحی نازل ہوئی اور رسول الله (ص) کو عمومی طور پر دعوت اسلام کا حکم دیا گیا۔ اس دوران پیغمبر اکرم (ص) کی الٰہی دعوت کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے والے تنہا حضرت علی (ع) تھے۔ جب رسول الله (ص) نے اپنے عزیز و اقارب کے درمیان اسلام کی تبلیغ کے لئے انہیں دعوت دی تو آپ کے ہمدرد و ہمدم، تنھا حضرت علی (ع) تھے۔ اس دعوت میں پیغمبر خدا (ص) نےحاضرین سے سوال کیا کہ آپ میں سے کون ہے جو اس راه میں میری مدد کرے اور آپ کے درمیان میرا بھائی، وصی اور جانشین ہو؟ اس سوال کا جواب فقط حضرت علی (ع) نے دیا،" اے پیغمبر خدا! میں اس راه میں آپ کی نصرت کروں گا"۔ پیغمبر اکرم (ص) نے تین مرتبه اسی سوال کی تکرار کی اور ہر تین مرتبہ حضرت علی (ع) کا جواب سننے کے بعد حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دن جو دعوت ذوالعشیرہ کے نام سے مشھور ہے،  (اٴنذِرعشیرتک الاٴقربین) کے دن فرمایا: "اٴنتَ اخي و و صیي و وزیري و وارثي و خلیفتي من بعدي"۔ آپ(ع) میرے بعد میرے بھائی، وصی، وزیر، وارث، خلیفہ اور جانشین ہیں، یہ آپ کی دوسری بڑی  فضیلت ہے کہ آپ (ع) رسول الله (ص) پر ایمان لانے والے سب سے پہلے شخص ہیں، اس سلسلے میں ابن ابی الحدید لکھتے ہیں، "علماءِ بزرگ اور گروه معتزلہ کے متکلمین کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ علی بن ابی طالب (ع) وه پہلے شخص ہیں جو پیغمبر اسلام پر ایمان لائے اور پیغمبر خدا (ص) کی تصدیق کی"۔ آپکی تیسری بڑی فضیلت یہ کہ مردوں میں آپ نے سب سے پہلے رسول کے پیچھے نماز ادا کی۔ 

لیلۃالمبیت:
حضرت علی (ع) کی چوتھی بڑی فضیلت یہ ھے کہ جب شب ہجرت مشرکوں نے رسول الله (ص) کے قتل کی سازش کی، تو آپ (ع) نے پوری شجاعت کے ساتھ رسول الله (ص) کے بستر پر سو کر انکی سازش کو ناکام بنا دیا۔ حضرت ابو طالب علیہ السّلام کی وفات کے پیغمبر کا مکے میں رہنا مشکل ہو گیا اور آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت کا ارادہ کر لیا۔ دشمنوں نے یہ سازش سوچی کہ ایک رات جمع ہو کر پیغمبر کے گھر کا گھیراو کریں اور آپکو شہید کر ڈالیں۔ جب حضرت کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے اپنے جانثار بھائی علی علیہ السّلام کو بلا کر اس سازش کے بارے میں مطلع کیا اور فرمایا کہ میری جان اس طرح بچ سکتی ہے اگر آج رات آپ میرے بستر پر میری چادر اوڑھ کر سو جاؤ اور میں مخفیانہ طور پر مکہ سے روانہ ہو جاؤں۔ آپ کی جگہ کوئی دوسرا ہوتا تو یہ پیغام سنتے ہی  گھبرا جاتا، اس رات کو حضور نے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کو اپنے بستر پر سونے کا حکم دیا، آپ (ع) اس رات بستر رسول پر آرام و سکون کی نیند سوئے اور اس خصوصیت میں آپ (ع) تمام لوگوں میں ممتاز اور منفرد ھیں۔
 
حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے اس رات اپنی زندگی اور نفس کو خدا کی اطاعت میں خدا کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ آپ (ع)نے یہ معاملہ اس لئے کیا تھا تاکہ حضور (ص) دشمنوں کے فریب سے نجات پا سکیں۔ اور یہی چیز حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نجات کا سبب بنی۔ آپ(ع) نے جب حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بستر پر وہ رات گزاری تو آپ(ع) کی شان میں یہ آیت نازل ھوئی "وَمِنْ النَّاسِ مَنْ یَشْرِی نَفْسَہُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللهِ وَاللهُ رَئُوفٌ بِالْعِبَادِ" لوگوں میں سے کچھ ایسے لوگ ھیں جو اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنی جان تک بیچ ڈالتے ہیں اور اللہ ایسے بندوں پر بڑا ہی شفقت والا ہے۔ علی علیہ السّلام نے خدا کا شکر ادا کیا۔ رسالت مآب شب کے وقت مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہو گئے اور دشمن کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ علی علیہ السّلام تین روز تک مکہ میں رہے، جن لوگوں کی امانتیں رسول الله کے پاس تھیں ان کے سپرد کر کے، بیت رسالت کی خواتین کو اپنے ساتھ لے کرمدینہ کی طرف روانہ ہوئے، آپ کئی روز تک رات دن پیدل چلے کہ اس حالت میں رسول کے پاس پہنچے کہ آپ کے پیروں سے خون بہہ رہا تھا، ان تمام واقعات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ علی علیہ السّلام پر رسول کو سب سے زیادہ اعتماد تھا اور جس وفاداری، ہمت اور دلیری سے علی علیہ السّلام نے اس ذمہ داری کو پورا کیا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔
 
نفس رسول کی شادی:
جب رسول اکرم (ص) ہجرت کر کے مدینے گئے تو فاطمہ (ع) بالغ ہو چکی تھیں اور پیغمبر(ص) اپنی اکلوتی بیٹی فاطمہ زہرا (ع) کی شادی کی فکر میں تھے، کیونکہ رسول (ص) اپنی بیٹی سے بہت محبت کرتے تھے اور انہیں اتنی عزت دیتے تھے کہ جب فاطمہ زہرا(ع) ان کے پاس تشریف لاتی تھیں تو رسول اللہ (ص) ان کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاتے تھے۔ ہر شخص رسول کی اس معزز بیٹی کے ساتھ منسوب ہونے کو اپنے لئے شرف سمجھتا تھا۔ عمر، ابوبکر، اور عبدالرحمن بن عوف اور کچھ اور لوگوں نے ہمت کر کے رسول کو پیغام بھی دیا مگر حضرت نے سب کی خواہشوں کو رد کر دیا اور فرمایا کہ فاطمہ کی شادی کا اختیار خدا کے پاس یے، اسکے حکم کے بغیر نہیں ہو سکتی۔
 
عمر، ابوبکر، اور سعد بن معاذ آپس میں مشوره کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ علی (ع) کے سوا کوئی بھی زہرا (س) کے ساتھ ازدواج کی لیاقت نہیں رکھتا۔ ایک دن جب حضرت علی (ع) انصار رسول (ص) میں سے کسی کے باغ میں آبیاری کر رہے تھے تو انہوں نے اس موضوع کو آپ (ع) کے سامنے بیان کیا، آپ نے فرمایا، " میں بھی دختر رسول (ص) سے شادی کا خواہشمند ہوں" یہ کہہ کر آپ رسول الله (ص) کے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔ جب رسول الله (ص) کی خدمت میں پہنچے تو رسول الله (ص) کی عظمت آپکی فطری حیا اس بات میں مانع ہوئی که آپ (ع) کچھ عرض کریں۔ جب رسول الله (ص) نے آنے کی وجہ دریافت کی تو حضرت علی (ع) نے اپنے فضائل، تقویٰ اور اسلام کے لئے اپنے سابقہ کارناموں کی بنیاد پر عرض کیا، " آیا آپ فاطمه کو میرے عقد میں دینا مناسب سمجھتے ہیں ؟" حضرت زہرا (س) کی رضامندی کے بعد رسول الله (ص) نے یہ رشتہ قبول کر لیا۔ ہجرت کے پہلے سال رسول نے علی علیہ السّلام  اور جناب زہرا کی شادی کر دی، یہ شادی نہایت سادگی کے ساتھ انجام پائی۔ خود رسول اللہ کا فرمان ہے کہ "اگر علی نہ ہوتے تو فاطمہ کا ہم کفو اس روئے زمین پر کوئی نہ تھا"۔

علی مرتضٰی اور کتابت وحی:

آپ کی پانچویں بڑی فضیلت یہ تھی کہ آپ کاتب وحی الٰہی بھی تھے، بہت سی تاریخی و سیاسی اسناد کی تنظیم اور دعوت الٰہی کے تبلیغی خطوط لکھنا، حضرت علی (ع) کے بہت اہم کاموں میں سے ایک ہے۔ آپ (ع) قرآنی آیات کو لکھتے اور منظم و مرتب کرتے تھے اسی لئے آپ کو کاتبان وحی اور حافظان قرآن میں شمار کیا جاتا ھے۔ 

رشتہ اخوت:
پیغمبراسلام (ص) نے مدینے پہنچ کر مسلمانوں کے درمیان اخوت کا رشتہ قائم کیا۔ ایک انصار اور ایک مہاجر کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا، سب سے آخر میں حضرت علی (ع) کو  اپنا بھائی بنایا اور حضرت علی (ع) سے فرمایا، "تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو، اس خدا کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، میں تمہیں اپنی اخوت کے لئے انتخاب کرتا ہوں، ایک ایسی اخوت جو دونوں جہان میں برقرار رہے"۔
 
جہاد اور حیدر کرار: 
اسلام کے دشمنوں نے پیغمبر اسلام (ص) کو مدینہ میں بھی چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ جو مسلمان مکہ میں تھے انھیں طرح طرح کی تکلیفیں دی گئیں کچھ کو قتل کر دیا گیا، کچھ کو قیدی بنا لیا گیا اور کچھ کو مارا پیٹا گیا۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے اسلحہ اور فوج جمع کر کے خود رسول کے خلاف مدینہ پر چڑھائی کر دی۔ اس موقع پر رسول اللہ (ص) کا فرض تھا کہ وہ مدینہ والوں کے گھروں کی حفاظت کریں، کیوں کہ انہوں نے آپ کو پریشانی کے عالم میں پناہ دی تھی اور آپ کی نصرت کا وعدہ کیا تھا، لہذا آپ نے یہ کسی طرح پسند نہ کیا کہ آپ شہر کے اندر رہ کر دشمن کا مقابلہ کریں اور دشمن کو مدینہ کی پرامن آبادی میں داخل ہونے اور عورتوں اور بچوں کو پریشان کرنے کا موقع دیں۔ آپ کے ساتھیوں تعداد بہت کم تھی۔ آپ کے پاس کل تین سو تیرہ آدمی تھے اور آپکے پاس اسلحے کی بھی کمی تھی، مگر آپ نے یہ طے کیا کہ ہم مدینے سے باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے۔ چنانچہ یہ اسلام کی پہلی جنگ ہوئی جو آگے چل کر جنگِ بدر کے نام سے مشہور ہوئی، اس جنگ میں رسول اللہ (ص) نے اپنے عزیزوں کو  آگے رکھا، جس کی وجہ سے آپ کے چچا  عبید ابن حارث ابن عبدالمطلب اس جنگ میں شہید ہو گئے۔ 

علی ابن ابیطالب کو جنگ کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ اس وقت ان کی عمر صرف ۲۵ برس تھی مگر جنگ کی فتح کا سہرا آپکے سر ہی بندھا۔ جتنے مشرکین قتل ہوئے ان میں سے آدھےحضرت علی علیہ السّلام کے ہاتھ سے اور آدھے، باقی مجاہدین کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے۔ اس کے بعد ،اُحد، خندق، خیبر اور آخر میں حنین یہ وہ بڑی جنگیں تھیں جن میں حضرت علی علیہ السّلام نے رسول کے ساتھ رہ کر اپنی بہادری کے جوہر دکھائے۔ تقریباً ان تمام جنگوں میں علی علیہ السّلام کو علمداری کا عہدہ بھی حاصل رہا۔ اس کے علاوہ بہت سی جنگیں ایسی تھیں جن میں رسول نےحضرت علی علیہ السّلام کو تنہا بھیجا اور انھوں نے اکیلے ہی بہادری اور ثابت قدمی کے ساتھ فتح حاصل کی اور استقلال، تحمّل اور شرافت نفس کا وہ مظاہرہ کیا کہ اس کا اقرار خود ان کے دشمن کو بھی کرنا پڑا۔ 

جب خندق کی جنگ میں دشمن کے سب سے بڑے سورما عمر بن عبدود کو آپ نے مغلوب کر لیا اور اس کا سر کاٹنے کے لیے اس کے سینے پر سوار ہوئے تو اس نے آپ کے چہرے پر لعاب دہن پھینک دیا۔ آپ کو غصہ آ گیا اور آپ اس کے سینے سے اتر آئے، صرف اس خیال سے کہ اگر اس غصّے کی حالت میں اس کو قتل کیا تو یہ عمل خواہش نفس کے مطابق ہو گا، خدا کی رضا کے لئے نہیں ہو گا۔ اسی لئے آپ نے اس کو کچھ دیر کے بعد قتل کیا۔ اس زمانے میں دشمن کو ذلیل کرنے کے لیے اس کی لاش کو برہنہ کر دیتے تھے، مگر حضرت علی علیہ السّلام نے اس کی زرہ نہیں اُتاری حالانکہ وہ بہت قیمتی تھی۔ چنانچہ جب عمرو کی بہن اپنے بھائی کی لاش پر آئی تو اس نے کہا کہ اگر علی کے علاوہ کسی اور نے میرے بھائی کو قتل کیا ہوتا تو میں عمر بھر روتی، مگر مجھے یہ دیکھ کر صبر آ گیا کہ اس کا قاتل شریف انسان ہے جس نے اپنے دشمن کی لاش کی توہین گوارا نہیں کی۔ آپ نے کبھی دشمن کی عورتوں یا بچّوں پر ہاتھ نہیں اٹھایا اور نہ کبھی مالِ غنیمت کی طرف رخ کیا۔
 
من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ:
پیغمبر اکرم (ص) اپنی پر برکت زندگی کے آخری سال میں حج کا فریضہ انجام دینے کے بعد مکہ سے جب مدینے کی طرف پلٹ رہے تھے، جس وقت آپ کا قافلہ جحفه کے نزدیک غدیر خم نامی مقام پر پہنچا تو جبرئیل امین آیہ بلغ لیکر نازل ہوئے، پیغمبر اسلام (ص) نے قافلے کو ٹھرنے کا حکم دیا۔ نماز ظھر کے بعد پیغمبر اکرم (ص) اونٹوں کے کجاوں سے بنے منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا: اے لوگو! وہ وقت قریب ہے که میں دعوت حق پر لبیک کہتے ہوئے تمھارے درمیان سے چلا جاؤں، لہذا بتاو کہ میرے بارے میں تمہاری کیا رای ہے؟ " سب نے کہا،" ھم گواہی دیتے ہیں آپ نے  آئین الٰہی اور قوانین کی بہترین طریقے سے تبلیغ کی ہے"، رسول الله (ص) نے فرمایا، کیا تم گواہی دیتے ہو کہ خدائے واحد کے علاوہ کوئی دوسرا خدا نہیں ہے اور محمد خدا کا بندہ اور اس کا رسول ہے۔  پھر فرمایا، اے لوگو! مومنوں کے نزدیک خود ان سے بہتر اور سزاوار تر کون ہے؟ لوگوں نے جواب دیا، خدا اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ پھر رسول الله (ص) نے حضرت علی (ع) کے ہاتھ کو پکڑ کر بلند کیا اور فرمایا،  اے لوگو! "من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ"۔ جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کے یہ علی مولا ہیں" ۔ رسول الله (ص) نے اس جملے کی تین مرتبہ تکرار کی۔ اس کے بعد لوگوں نے حضرت علی (ع) کو اس منصب ولایت کے لئے مبارک باد دی اور آپ (ع) کے ہاتھوں پر بیعت کی۔
 
منزلت علی علیہ السلام، پیغمبر اسلام (ص) کی نظر میں:
رسول خدا کی مختلف احادیث  اس بات کی دلالت کرتی ہیں کہ آپ ص علی علیہ السّلام کی امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر ان کی بہت عزت کرتے تھے اور اپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو بیان کرتے رہتے تھے کبھی یہ کہتے تھے کہ "انا علی و علی منی" علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں، کبھی یہ کہا کہ "انا مدینۃالعلم و علی بابھا"میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ کبھی یہ فرماتے نظر آتے کہ "آپ سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علی ہے"  تو کبھی یہ کہا "علی کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ علیہ السّلام سے تھی"یا یہ کہ "علی مجھ سے وہ تعلق رکھتے ہیں جو روح کو جسم سے یا سر کو بدن سے ہوتا ہے" کبھی یہ کہ "علی خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں"  یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں علی علیہ السّلام کو نفسِ رسول کا خطاب ملا، عملی اعزاز یہ تھا کہ جب مسجد کے صحن میں کھلنے والے، سب کے دروازے بند ہوئے تو علی کادروازہ کھلا رکھا گیا۔ اگر یہ امتیازات کسی اور کے لئے ہوں تو آئیں ثابت کریں۔
 
آپکا دوران خلافت:
حضرت علی علیہ السّلام نے رسول اللہ (ص) کی وفات کے بعد پچیس برس خانہ نشینی میں بسر کئے۔ جب سن ۳۵ ھجری قمری میں مسلمانوں نے خلافت اسلامی کا منصب حضرت علی علیہ السّلام کے سامنے پیش کیا تو پہلے تو آپ نے انکار کر دیا، لیکن جب مسلمانوں کا اصرار بہت بڑھا تو آپ نے اس شرط پر منظور کر لیا کہ میں قرآن اور سنت پیغمبر (ص) کے مطابق حکومت کروں گا اور کسی رعایت سے کام نہ لوں گا۔ جب مسلمانوں نے اس شرط کو منظور کر لیا تو آپ نے خلافت کی ذمہ داری قبول کی۔ مگر زمانہ آپ کی حکومت کو برداشت نہ کر سکا، لہذا بنی امیہ اور بہت سے وہ لوگ، جنھیں آپ کی حکومت کی وجہ سے اپنے اقتدار کے ختم ہو جانے کا خطرہ محسوس ہو ا وہ آپ کے خلاف اٹھ  کھڑے ہوئے۔ آپ نے ان سب سے مقابلہ کرنا اپنا فرض سمجھا، جس کے نتیجے میں جمل، صفین، اور نہروان کی جنگیں پیش آئیں۔

ان جنگوں میں حضرت علی بن ابی طالب نےشجاعت اور بہادری کے وہ جوہر دکھائے جو جنگ  بدر، احد، خندق، و خیبر کے وقت دکھا چکے تھے اور سب کو یاد تھے، داخلی فتنوں اور جنگوں کیوجہ سے آپ کو اتنا موقع نہ مل سکا کہ آپ اصلاحی کاموں کی طرف زیادہ توجہ فرماتے، پھر بھی آپ نے اس مختصر سی مدّت میں، سادہ اسلامی زندگی، مساوات قائم کی، اور نیک کمائی کے لیے محنت و مزدوری کی تعلیم کے نقش تازہ کر دیئے۔ آپ خلیفہ و امام ہونے کے باوجود اپنے ہاتھ سے کام کو عار نہ سمجھتے تھے۔ پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنتے تھے، غریبوں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے، جو مال بیت المال میں آتا تھا اسے تمام حقداروں کے درمیان برابر تقسیم کر دیتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ کے سگے بھائی عقیل نےجب یہ چاہا کہ انہیں، دوسرے مسلمانوں سے کچھ زیادہ مل جائے، تو آپ نے انکار کر دیا اور فرمایا کہ اگر میرا ذاتی مال ہوتا تو یہ ممکن تھا، مگر یہ تمام مسلمانوں کا مال ہے، لہذا مجھے حق نہیں ہے کہ میں اس میں سے اپنے کسی عزیز کو دوسروں سے زیادہ حصہ دوں۔ انتہا یہ ہے کہ اگر آپ کبھی رات کے وقت بیت المال میں حساب و کتاب میں مصروف ہوتے اور کوئی ملاقات کے لیے آجاتا اور غیر متعلق باتیں کرنے لگتا تو آپ چراغ کو بھجا دیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ بیت المال کے چراغ کو میرے ذاتی کام میں صرف نہیں ہونا چاہئے۔ آپ کی کوشش یہ رہتی تھی کہ جو کچھ بیت المال میں آئے وہ جلد از جلد حق داروں تک پہنچ جائے۔ آپ اسلامی خزانے میں مال کو جمع کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔
 
ساقی کوثر کی شہادت: 
خوارج میں سے عبدالرحمن بن ملجم مرادی، ومبرک بن عبدالله تمیمی اور عمرو بن بکر تمیمی ایک رات میں ایک جگہ جمع ہوئے اور نہروان میں مارے گئے اپنے ساتھیوں کو یاد کرتے ہوئے ان دنوں کے حالات اور داخلی جنگوں کے بارے میں تبادلہ خیال کرنے لگے اور بالآخر وہ اس نتیجہ پر پہنچے که اس قتل و غارت کی وجہ حضرت علی (ع) معاویہ اور عمرو  بن عاص پیں اور اگر ان تینوں افراد کو قتل کر دیا جائے تو مسلمان اپنے مسائل کو خود حل کر لیں گے۔ لہذا انہوں نے آپس میں طے کیا کہ ہم میں سے ہر ایک آدمی ان میں سے ایک ایک کو قتل کرے گا۔ ابن ملجم نے حضرت علی (ع) کے قتل کا عہد کیا اور سن۴۰ ہجری قمری میں انیسویں رمضان المبارک کی شب کو کچھ لوگوں کے ساتھ مسجد کوفہ میں آ کر بیٹھ گیا۔ آپ سب جاننے کے باوجود مسجد آ گئے، آپکا فرمان ہے کہ "قضائے الٰھی سے فرار نہیں کیا جا سکتا"۔حضرت علی (ع) سجده میں تھے کہ ابن ملجم نے آپ کے فرق مبارک پر تلوار کا وار کیا۔ آپ کے سر سے خون جاری ہوا آپ کی ریش مبارک اور محراب خون سے رنگین ہو گئی۔ اس حالت میں حضرت علی (ع) نے فرمایا، " فزت و رب الکعبه " کعبہ کہ رب کی قسم میں کامیاب ہو گیا۔ پھر سوره طہ کی اس آیت کی تلاوت فرمائی، "ہم نے تم کو خاک سے پیدا کیا ہے اور اسی خاک میں واپس پلٹا دیں گے اور پھر اسی خاک میں سے تمہیں دوباره اٹھائیں گے"۔
 
اسداللہ کی وصیت:
حضرت علی (ع) اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بھی لوگوں کی اصلاح و سعادت کی طرف متوجہ تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹوں، عزیزوں اور تمام مسلمانوں کو اس طرح وصیت فرمائی، "میں تمہیں پرہیز گاری کی وصیت کرتا ہوں اور وصیت کرتا ہوں کہ تم اپنے تمام امور کو منظم کرو اور ہمیشه مسلمانوں کے درمیان اصلاح کی فکر کرتے رہو۔ یتیموں کو فراموش نہ کرو۔ پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت کرو ۔ قرآن کو اپنا عملی نصاب قرار دو، نماز کی بہت زیادہ قدر کرو، کیونکہ یہ تمہارے دین کا ستون ھے "۔
آپ کے رحم و کرم اور مساوات کا یہ عالم تھا کہ جب آپ کے قاتل کو گرفتار کر کے آپ کے سامنے لایا گیا، اور آپ نے دیکھا کہ اس کا چہرہ زرد ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، تو آپ کو اس پر بھی رحم آ گیا۔ اپنے دونوں بیٹوں امام حسن علیہ السّلام و امام حسین علیہ السّلام کو ہدایت فرمائی کہ یہ ہمارا قیدی ہے اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا، جو کچھ خود کھانا وہ اسے کھلانا، اگر میں صحتیاب ہو گیا تو مجھے اختیار ہے کہ چاہے اسے سزا دوں یا معاف کر دوں اور اگر میں دنیا میں نہ رہا اور آپ نے اس سے انتقام لینا چاہا تو اسے ایک ہی ضربت لگانا کیونکہ اس نے مجھے ایک ہی ضربت لگائی ہے۔ اور ہر گز اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ قطع نہ کرنا کیوں کہ یہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔ حضرت علی علیہ السّلام دو روز تک بستر بیماری پر رہے۔ آخر کار زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور ۲۱رمضان کو نمازِ صبح کے وقت آپ کی روح جسم سے پرواز کر گئی۔ حضرت امام حسن و امام حسین علیہما السّلام نے تجہیزو تکفین کے بعد آپ کے جسم اطہر کو نجف میں دفن کر دیا۔ آخر میں پروددگار سے یہ دعا ہے کہ ہمیں مولائے کائنات کی سیرت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، اور وقت کے امام کا جلد ظہور فرمائے۔ (آمین یا رب العالمین)
خبر کا کوڈ : 78730
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش