0
Saturday 6 Apr 2019 08:26

تخریب سے تعمیر اور تبدیلی سے تباہی تک

تخریب سے تعمیر اور تبدیلی سے تباہی تک
اداریہ
پاکستان اور ہندوستان دونوں ملکوں میں سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ ہندوستان میں الیکشن کا بخار پورے عروج پر ہے اور پاکستان میں افواہوں کا بازار گرم ہے۔ پاکستان کے میڈیا کا سرسری جائزہ بھی لیا جائے تو اقتصادی زبوں حالی اور کمزور کارکردگی کے نام پر حکمران جماعت شدید تنقید کی کی زد میں ہے۔ بڑے بڑے تجزیہ نگار بھی عمران خان کے چل چلائو کی باتیں کھلے عام کر رہے ہیں۔ سابق صدر زرداری اور ان کے فرزند بلاول بھٹو زرداری تو اسلام آباد پر چڑھ دوڑنے کی کھلی دھمکی بھِی دے چکے ہیں۔ اس ساری سیاسی دھما چوکڑی میں پاکستان کے وزیر خزانہ اسد عمر کو خصوصی طور پر نشانے پر لیا گیا ہے۔ اسد عمر نے ایک ایسا بیان دیا ہے، جس پر ایک سابق وزیر نے ترنگ میں آکر ان کو سکیورٹی رسک قرار دیتے ہوئے مقدمہ چلانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر نے سوشل میڈیا پر صحافیوں اور دیگر افراد کے سوالات کے جواب میں کھل کر کہا ہے کہ اگر حکومت نے آئی ایم ایف سے پیکج نہ لیا تو ملک میں افراط زر کو قابو میں رکھنا اور ڈالر کی شرح کو روپے کے مقابلے میں کنٹرول رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔ بعض صحافیوں نے تو یہ بھی نقل کیا ہے کہ اسد عمر کا کہنا ہے کہ اگر آئی ایم ایف کی شرائط نہ مانیں تو ملک دیوالیہ ہو جائے گا۔

تحریک انصاف حکومت نے اقتدار میں آتے ہی اپنے انقلابی ایجنڈے کو پس پست ڈالتے ہوئے مصلحتوں کا راستہ اختیار کیا۔ تحریک انصاف کے نظریاتی افراد نہ کابینہ میں شامل افراد پر خوش ہیں اور نہ حکومت کی حالیہ کارگردگی سے۔ عمران خان نے ملک کی اقتصادی صورت حال کے نام پر ڈکٹیٹروں کو خوش آمدید کہا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دورے کئے۔ بن سلمان اور بن زائد کا ڈرائیور بننے کی شرمندگی بھی اٹھائی، اس کے باوجود ان کے وزیر خزانہ ملک کے دیوالیہ ہونے کا واویلا کر رہے ہیں۔ مسلمان حکمران جب بھی اپنے عوام پر بھروسہ کرنے کی بجائے بیرونی طاقتوں پر تکیہ کرکے شارٹ کٹ کی تلاش کرتے ہیں تو نتیجہ مایوس کن ہی برآمد ہوتا ہے۔ پاکستان اور پاکستان کے باشندے باصلاحیت اور جفاکش ہیں، حکمرانوں کی ناعاقبت اندیشی اور بیرونی طاقتوں سے بے جا امیدیں پاکستان کو اس سطح پر لے آئی ہیں کہ اقتصادی بحرانوں، سیاسی عدم استحکام اور سلامتی و سکیورٹی کے مسائل نے اس ملک کو محاصرے میں لے لیا ہے۔  پاکستان کی قیادت کو انقلابی قدم اتھانے ہوں گے، ورنہ خواص و عام تو ابھی سے یہ کہنے لگے ہیں کہ تبدیلی آئے نہ آئے تباہی آگئی ہے۔
خبر کا کوڈ : 787313
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش