0
Sunday 7 Apr 2019 21:33

عمران خان کا اعلان، شریف خاندان اور زرداری کی مشکلات میں اضافہ

عمران خان کا اعلان، شریف خاندان اور زرداری کی مشکلات میں اضافہ
رپورٹ: ایس علی حیدر

وزیراعظم عمران خان نے قبائلی اضلاع باجوڑ اور مہمند کا دورہ کرنے کے بعد دوسرے مرحلے میں قبائلی ضلع خیبر کا دورہ کیا اور عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔ قبل ازیں دورہ باجوڑ کے موقع پر عمران خان نے بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کیا تھا، تاہم انہوں نے دورہ مہمند کے موقع پر چند قبائلی مشران سے خطاب کیا۔ مہمند میں عوامی اجتماع کا انعقاد نہیں کیا گیا تھا۔ باجوڑ اور مہمند کا دورہ ایک ہی روز میں ہوا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ وزیراعظم کا 5 اپریل 2019ء کا جمرود سٹیڈیم میں عوامی اجتماع سے خطاب تاریخی تھا اور اجتماع بھی بہت بڑا تھا۔ وزیراعظم عمران خان نے عوامی اجتماع سے خطاب کے دوران واضح کیا کہ حکومت کہیں نہیں جا رہی ہے، لیکن آصف علی زرداری جیل جانے والے ہیں۔ ان کا بلاول بھٹو زرداری کے حوالے سے موقف تھا کہ پرچیاں دکھانے اور پرچیاں دیکھ کر تقریر کرنے والے لیڈر نہیں بن سکتے، تاہم لیڈر جدوجہد سے بنتا ہے۔ عمران خان مخالفین پر خوب گرجے برسے اور موقف اپنایا کہ کچھ لوگ اپنی چوری بچانے کیلئے شور مچا رہے ہیں، احتجاج اور دھرنے کی دھمکی دینے والے شوق پورا کرلیں، چوری کرنے والوں کو جواب دینا پڑیگا۔ عمران خان کے دورہ خیبر اور جمرود سٹیڈیم میں عوامی اجتماع سے خطاب سے ایک روز قبل قائد عوام اور سولی پر چڑھائے گئے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی 40ویں برسی پر گڑھی خدا بخش میں بڑے اجتماع سے خطاب کے دوران پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے عمران خان کو للکارا تھا اور اعلان کیا تھا کہ اب حکومت کو گھر جانا چاہیئے بلکہ اسے گھر بھجوانے کا وقت آچکا ہے۔

زرداری نے اپنے خطاب میں کارکنوں اور رہنماؤں کو پیغام دیا کہ اگر وہ باہر ہو یا جیل میں تو کارکنوں نے حکومت کو گھر بھجوانا ہے۔ آصف علی زرداری کی طرح ان کے صاحبزادے اور پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی عمران خان کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ باپ بیٹے کی دھواں دار تقاریر کے ایک روز بعد وزیراعظم عمران خان کو باپ بیٹے کو ترکی بہ ترکی جواب دینے کا موقع میسر آیا۔ انہوں نے نہ صرف پیپلز پارٹی کے قائدین کو آڑے ہاتھوں لیا، بلکہ انہوں نے مولانا فضل الرحمٰن اور شریف خاندان کی بھی خوب کلاس لی۔ وزیراعظم نے ایک بار پھر اس عزم کا اعادہ کیا کہ اگر سیاسی جماعتیں اسلام آباد میں دھرنے کیلئے تیار ہیں تو وہ انہیں کنٹینرز اور کھانا دینے کو تیار ہیں۔ عمران خان کی تقریر اور خطاب وزیراعظم کا نہیں لگ رہا تھا، ان کا لب و لہجہ انتہائی سخت تھا، اگر اپوزیشن جماعتیں حکومت کیخلاف متحد ہوئیں اور اسلام آباد میں پڑاؤ ڈالا تو حکومت کو اسے سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ مولانا فضل الرحمٰن کا موقف ہے کہ اسلام آباد میں پڑاؤ اور دھرنے میں 30 لاکھ لوگ شریک ہونگے، اسلام آباد سے تب واپس جانا ہوگا، جب تک حکومت کو گرا نہ دیں۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کے قائد مولانا فضل الرحمٰن کی خواہش ہے کہ اسلام آباد میں پڑاؤ اسوقت ہو، جب انہیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حمایت حاصل ہو جائے، تاہم یہ دونوں بڑی جماعتیں فی الحال مولانا کا ساتھ دینے کو تیار نہیں، جس پر مولانا فضل الرحمٰن کا موقف ہے کہ زرداری اور شریف خاندان مصالحت کا شکار ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی اپنی اپنی مجبوریاں اور مصلحتیں ہیں، اگر اپوزیشن جماعتیں متحد ہوئیں تو شاید اسلام آباد میں دھرنے کی ضرورت نہ پڑے، بلکہ ایوان کے اندر تبدیلی آئیگی۔ اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی اعلٰی قیادت حکومت کے خلاف ایک ہوسکے گی، کیونکہ جس وقت وزیراعظم عمران خان ضلع خیبر کے دورے پر تھے اور عوامی اجتماع سے خطاب کرنے والے تھے کہ اس دوران قومی احتساب بیورو (نیب) نے ماڈل ٹاؤن لاہور میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے گھر پر چھاپہ مارا اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز کو گرفتار کرنے کی کوشش کی، تاہم اسے کامیابی نصیب نہ ہوئی۔ گارڈز نے نیب کو حمزہ کو گرفتار نہیں کرنے دیا، جس پر نیب نے کار سرکار میں مداخلت پر تھانہ ماڈل ٹاؤن میں ایف آئی آر کے اندراج کیلئے درخواست جمع کرائی ہے۔ 24 گھنٹے کے دوران نیب نے شہباز شریف کے گھر پر دوسری بار چھاپہ مارا، اس دوران مسلم لیگی کارکنوں اور پولیس کے دوران ہاتھا پائی ہوئی، ماڈل ٹاؤن میں واقع میاں محمد شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف کے گھر کے باہر سارا دن ہنگامہ آرائی ہوتی رہی۔ پولیس کارکنوں کو شہباز شریف کے گھر جانے نہیں دے رہی تھی اور حمزہ گرفتاری نہیں دے رہے تھے، تاہم نیب کے ایڈیشنل ڈائریکٹر کا موقف تھا کہ ان کے پاس وارنٹ گرفتاری موجود ہے، اس لئے حمزہ شہباز کی گرفتاری عمل میں لائی جا رہی ہے۔

جب حالات قابو سے باہر ہوئے تو پولیس کی مدد کیلئے رینجرز کی بھاری نفری پہنچی، حمزہ شہباز نے چھاپے کے دوران میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا کہ نیب نے چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کیا ہے، لاہور ہائی کورٹ کے احکامات کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ ایک جانب لاہور ہائی کورٹ کا حکم ہے کہ حمزہ شہباز کو گرفتار کرنے سے 10 روز قبل انہیں بتانا ہوگا، تاکہ انہیں عدالتوں سے رجوع کرنے کا موقع مل سکے۔ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد سپریم کورٹ کا ایک اور فیصلہ آیا، جس میں کہا گیا کہ اگر کوئی مطلوب ہے تو نیب کسی کو بتائے بغیر گرفتاری عمل میں لا سکتی ہے، جس طرح اومنی گروپ منی لانڈرنگ میں ملوث رہا ہے۔ اسی طرح کے الزامات حمزہ شہباز شریف ان کے بھائی سلمان شہباز اور ان کے والد شہباز شریف پر عائد کئے گئے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد حسین چوہدری نے حمزہ شہباز کے گھر پر چھاپے کے بعد موقف اختیار کیا کہ حمزہ شہباز ان کے بھائی اور والد نے 80 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی ہے اور ناجائز اثاثے بنائے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا موقف ہے کہ حمزہ شہباز کو اس لئے گرفتار کیا جا رہا ہے کہ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف حکمرانوں اور عسکری قیادت سے ڈیل اور ڈھیل کرنے کو تیار نہیں، تاہم وزیراعظم عمران خان کا موقف ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اس لئے ان پر دباؤ ڈال رہی ہیں کہ وہ ان کے ساتھ ڈیل یا ڈھیل کریں۔

قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف، ان کے دو بیٹوں پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز اور ان کے بیرون ملک صاحبزادے سلمان شہباز کو نئے کیسوں میں الجھانے اور متوقع گرفتاری کے بعد صورتحال تبدیل ہونے کی پیشگوئیاں کی جا رہی ہیں۔ اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا شریف خاندان اور زرداری، مولانا فضل الرحمٰن کی متوقع احتجاجی تحریک میں شامل ہوسکیں گے۔ جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف سیاسی جماعتوں کو متحد کرتے وقت یہ موقف اپنایا تھا کہ وفاقی حکومت کے ارادے خطرناک ہیں اس کی انتقامی کارروائیوں سے کوئی نہیں بچے گا۔ ان کا موقف آج درست ثابت ہو رہا ہے جس طرح وزیراعظم عمران خان نے جمرود ضلع خیبر کے سٹیڈیم میں جلسہ عام سے خطاب کے دوران کہا کہ زرداری جیل جانے والے ہیں، اسی طرح پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی اعلٰی قیادت میں شامل عمائدین کے خلاف گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو چھ ہفتوں کی ضمانت اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں محمد شہباز شریف کی ضمانت پر رہائی اور ای سی ایل سے نام نکلوانے کا جو ریلیف ملا ہے، وہ عارضی ہے۔ شریف خاندان کے افراد زرداری اور ان کے قریبی ساتھیوں کے خلاف گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے، جن کے باعث دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے قائدین کو ان کی غلطی کا ادراک ہو رہا ہے۔

اب یہ حقیقت دنیا پر واضح ہوگئی کہ حکمران جماعت میں ایسے افراد شامل ہیں، جن کے دامن داغدار ہیں۔ عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان سے ان کی غیر قانونی دولت کے بارے میں نیب کی خاموشی معنی خیز ہے۔ اسی طرح خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے سابقہ دور حکومت میں بڑے بڑے سکینڈل میں ملوث افراد پر ہاتھ نہیں ڈالا جا رہا ہے۔ بی آر ٹی، مالم جبہ اراضی اسکینڈل، بلین ٹری سونامی اور ہرٹیج ٹریل سمیت کرپشن کے بڑے بڑے سکینڈل میں ملوث عناصر قانون کی گرفت سے کوسوں دور ہیں۔ یہ اٹل حقیقت ہے کہ اسوقت اپوزیشن نیب کے ریڈار پر ہے، جنہوں نے پی ٹی آئی کی چھتری کے تلے پناہ لی ہے، وہ احتساب سے مبرا ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی خواہش پر نیب کو انتقام کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، اگر بلا امتیاز اور شفاف احتساب خواہش ہے تو اقتدار کے ایوانوں میں موجود کرپٹ عناصر پر بھی ہاتھ ڈالنا ہوگا، نیب کو انتقامی کارروائی ترک کرنی ہوگی۔ موجودہ حکمرانوں کے بارے میں یہ تاثر درست ثابت ہو رہا ہے کہ وہ خود نہیں آئے بلکہ انہیں لایا گیا ہے، اب لانے والے بھی حیران اور پریشان ہیں کہ ملک جس طرح معاشی بحران سے دوچار ہے، ایسے میں اب کیا کرنا چاہیئے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا شروع ہی سے یہ موقف رہا ہے کہ حکومتیں بنانے اور توڑنے میں اداروں کا کردار نہیں ہونا چاہیئے، شفاف انتخابات کے نتیجے میں جس کسی کو حکومت بنانے کا موقع ملتا ہے تو اس سے جمہوریت مستحکم ہوتی ہے، جوڑ توڑ کی سیاست کسی صورت ملک کے مفاد میں نہیں۔
خبر کا کوڈ : 787403
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش