0
Wednesday 10 Apr 2019 23:55

ڈالر کی ذخیرہ اندوزی خراب معاشی صورتحال کی بڑی وجہ نکلی

ڈالر کی ذخیرہ اندوزی خراب معاشی صورتحال کی بڑی وجہ نکلی
رپورٹ: ایس ایم عابدی

برطانوی نشریاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے پاکستان کی اوپن مارکیٹ میں ڈالر نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے، اس کی بنیادی وجہ اس کی طلب میں اضافہ اور رسد میں کمی ہے، خراب ہوتی معاشی صورتحال لوگوں کو ڈالرز ذخیرہ کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ ماہر معاشیات اور اکنامک ایڈوائزری کمیٹی کے رکن ڈاکٹر اشفاق حسن کے مطابق ترقی پذیر ممالک جیسا کہ پاکستان جہاں مارکیٹ چھوٹی ہے اور روزانہ ڈالر کی ٹریڈ صرف 60 سے 70 لاکھ ڈالر ہے، وہاں حکومتوں کو اوپن مارکیٹ کے معاملات میں دخل اندازی کرنا پڑتی ہے۔ چھوٹے حجم کی مارکیٹ میں اگر ڈالر کی قدر کا تعین اوپن مارکیٹ پر چھوڑ دیا جائے تو لوگ ڈالر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کر دیتے ہیں اور مصنوعی صورتحال تخلیق کرکے ڈالر کی قدر پر اثر انداز ہونا شروع کر دیتے ہیں، اس موقع پر اسٹیٹ بینک کو مداخلت کرنا پڑتی ہے، تاکہ کسی بھی ابنارمل صورتحال کا بندوبست کیا جائے، تاکہ ایکسچینج ریٹ پر کسی قسم کا دباؤ نہ پڑے۔

ڈاکٹر اشفاق حسن کے مطابق صورتحال کے اس نہج پر پہنچنے کی سب سے بڑی وجہ آئی ایم ایف ہے، حکومت یہ فیصلہ کرچکی ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس قرض کے حصول کے لئے جانا ہے اور آئی ایم ایف کا کہنا ہے پاکستان کا ایکسچینج ریٹ کافی خراب ہے اور قرضے کے حصول سے قبل اس کو درست کیا جانا ضروری ہے۔ میرے خیال میں یقیناً آئی ایم ایف کی طرف سے کوئی نہ کوئی ٹارگٹ دیا گیا ہوگا کہ روپے کی قدر کیا ہونی چاہیئے۔ انہوں نے بتایا کہ جس تیزی سے اسٹیٹ بینک نے گذشتہ مہینوں میں ریٹ ایڈجسٹ کیا ہے، اس سے لگ رہا ہے کہ گاڑی چھوٹ رہی ہے اور آپ نے جلد از جلد اس میں سوار ہونا ہے اور ایسا کرتے ہوئے آپ افراتفری کا شکار ہو جاتے ہیں، جبکہ عام حالات میں ایسا نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر اشفاق حسن نے کہا کہ روپے کی قدر بے تحاشہ کم کرنے کا سب سے بڑا نقصان قرضوں اور سود کی شرح میں اضافے کی صورت میں نکلتا ہے، گذشتہ ساڑھی تین دہائیوں سے معاشیات کو دیکھ رہا ہوں، مگر اتنی تیزی سے ایکسچینج ریٹ کو کبھی بڑھتے نہیں دیکھا۔

مالیاتی امور پر لکھنے والے خرم حسین کے مطابق دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں ڈالر کی قیمت اوپن مارکیٹ متعین کرتی ہے اور یہ اس بنیاد پر ہوتا ہے کہ کسی ملک کی معیشت میں کتنے ڈالرز دستیاب ہیں اور ملک میں ان کی مانگ کتنی ہے، لیکن پاکستان میں معاملہ تھوڑا مختلف ہے اور یہاں ڈالر کی قدر کا تعین دو طرح ہوتا ہے۔ اول انٹر بینک مارکیٹ جہاں بینک آپس میں ڈالر کی بڑے پیمانے پر خرید و فروخت کرتے ہیں، جبکہ دوسری اوپن مارکیٹ ہے، جہاں سے عام لوگوں کی ڈالر کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ حکومت اور اسٹیٹ بینک ڈالر کی قدر متعین کرنے کے معاملے میں اوپن مارکیٹ میں دخل اندازی کرتے ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک چپ چاپ تمام کمرشل بینکوں کو زبانی ہدایات جاری کر دیتا ہے کہ ایک مخصوص قیمت سے زائد پر وہ ڈالر کی خریداری مت کریں، اس سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایک مخصوص قیمت پر پہنچ کر بینک خریداری بند کر دیتے ہیں اور اس سے قیمت بڑھنے سے رک جاتی ہے، مگر اس کا نقصان بھی ہوتا ہے اور حکومت کے پاس ڈالر کے ذخائر کم ہو جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اوپن مارکیٹ میں بتایا جا رہا ہے کہ اس سلسلے میں کافی افراتفری ہے اور لوگ ڈالر خرید کر گھر میں رکھ رہے ہیں، یہ سوچتے ہوئے کہ آگے چل کر روپے کی قدر میں مزید کمی ہوگی۔ ڈالر کی قدر میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی تو اپنی جگہ اہم ہے ہی، لیکن قابل غور امر یہ ہے کہ تبدیلی سرکار نے بھی روپے کی قدر مستحکم رکھنے کیلئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے ہیں، کبھی سعودی عرب سے قرضہ کبھی عرب امارات سے قرضہ، کبھی چین سے تو اب آئی ایم ایف کے آگے ہاتھ پھیلائے جا رہے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ ذرائع کے مطابق روہے کی قدر میں کمی کی بنیادی وجہ کرنٹ اکاونٹ خسارہ ہے، حکومت نے اس ضمن میں کیا اقدامات کئے ہیں، کیا وزارت خزانہ اس سنگین مسئلے کا حل محض قرضہ کا حصول ہی جانتی ہے، کیا لوکل انڈسٹری کو مضبوط کئے بنا اس مسئلے سے نمٹنا ممکن ہے، یہ وہ چند بنیادی سوالات ہیں، جن کے جواب جلد یا بدیر ہمیں وفاقی حکومت کی جانب سے مل ہی جائیں گے، لیکن تب تک ڈالر کی قدر کا مسلسل بڑھنا عوام کی مشکلات میں بہت بھاری بوجھ کا اضافہ کر دے گا۔
خبر کا کوڈ : 787634
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش